بہت سے عاقبت نا اندیش اکیسویں
صدی میں طرح طرح کی ٹیکنالوجیز کی بہار دیکھ کر دعویٰ کربیٹھتے ہیں کہ آج
کی دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ یہ دعویٰ ہمیں خاصا گراں گزرتا ہے۔ اور
کبھی کبھی تو (جون ایلیا کے بقول) جی چاہتا ہے کہ
کاش اُس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی!
انسان کو چاند پر قدم رکھے چالیس سال ہوچکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کچھ اِس طرح
جوبن پر ہے کہ تمام بُنیادی سہولتیں بھی اب جادو کی سی حیثیت اختیار کرکے
آسائشات اور تعیشات کی حدود میں داخل ہوگئی ہیں۔ کون سا شعبہ ہے جو اب
انقلاب سے محفوظ یا محروم ہے؟ مگر خیر، اِس کے باجود یہ دعویٰ نہیں کیا
جاسکتا کہ آج کی دنیا میں کیا نہیں ہوسکتا؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کوئی
”ٹیکنالوجی دا پُتّر“ خواتین کو عید کی شاپنگ سے باز رکھنے کا سوفٹ ویئر تو
بناکر دِکھائے! اِس معاملے میں اچھا خاصا brain بھی drain کا منظر پیش کرنے
لگتا ہے! یہ وہ مقام ہے جہاں ہر ٹیکنالوجی اور نظریے کے پَر جلنے لگتے ہیں!
بازار میں دستیاب بہت سی الیکٹرانک اشیاءمیں اب بعض خصوصیات ”اِن بلٹ“ ہوتی
ہیں یعنی اُن کی پروگرامنگ کا حصہ ہوتی ہیں۔ شاپنگ اور خواتین کا بھی کچھ
ایسا ہی معاملہ ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے سیزن میں یہ پروگرامنگ،
دوسری تمام خصوصیات کو overlap کرکے، زیادہ تیزی سے کام کرنے لگتی ہے! سچ
تو یہ ہے کہ خواتین کے ذہن میں شاپنگ کا سوفٹ ویئر وہ بَلا ہے جو آئے دن
دیگر تمام سوفٹ ویئرز پر حاوی ہوکر اپنی جولانی دِکھانے پر تُلا رہتا ہے!
کبھی کبھی ہمیں مرزا تنقید بیگ پر کسی سیاسی جماعت کے مرکزی ترجمان کا گمان
ہوتا ہے۔ موصوف کی نَفسی ساخت میں بھی ایک چیز ”اِن بلٹ“ ہے، یعنی یہ کہ
ہماری (بلکہ کسی کی بھی) کسی بھی بات سے متفق ہونا ہی نہیں! جب بھی ہم
خواتین کی مسلّمہ عادات کا ذکر چھیڑتے ہیں تو مرزا مہینے بھر کا راشن پانی
لیکر ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے عالم میں اُن پر قابو پانا اُتنا ہی
مشکل ہوتا ہے جتنا کسی شوہر کے لیے بازار میں شاپنگ کرتی ہوئی بیوی کا جوش
و خروش دیکھ کر اپنے حواس پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے! مرزا کا کہنا ہے کہ
علامہ اقبال نے شاید بعض خواتین کی باقاعدہ اور بے نیازانہ شاپنگ دیکھ کر
ہی کہا تھا۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ!
مرزا نے یہ نہیں بتایا کہ کائنات کی تصویر میں بھرے جانے والے اِس رنگ کی
قیمت بے چارے مرد کو اپنے خون سے چکانا پڑتی ہے!
ہم نے مرزا کو خوش رکھنے کا خاصا کارگر طریقہ وضع کیا ہے۔ اُن کی بیشتر
باتوں سے ہم متفق رہنے کا تاثر دیتے رہتے ہیں! مرزا کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ
عید کی تیاریوں کے سلسلے میں خواتین شاپنگ اُتنی نہیں کرتیں جتنے بازاروں
کے چکر لگاتی ہیں۔ اُن کے بقول ساری خریداری ایک ہی ”ہَلّے“ میں کرنے کے
بجائے چار چکروں میں کرنے سے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے اور فون پر بتانے کو
بھی ہوتا ہے کہ ”ابھی حیدری ہوکر آئی ہوں، کل تمہارے بھائی طارق روڈ لے
جائیں گے!“ طارق روڈ چونکہ طارق بن زیاد سے موسوم ہے اِس لیے بیشتر شوہر
وہاں سے کشتیاں جلاکر آتے ہیں! اب بازار کے زیادہ چکر لگانا بھی اسٹیٹس
سِمبلز میں شمار ہونے لگا ہے!
ہمارے ہاں ہر تہوار اور ایونٹ ”روایتی جوش و خروش“ سے منایا جاتا ہے مگر
عید کی شاپنگ کے معاملے میں خواتین کا جوش و خروش خالص غیر روایتی ہوتا ہے،
یعنی ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ اور منفرد جوش و جذبہ دکھائی دیتا ہے! گویا
وہ ہر سال اپنی ہی قائم کردہ روایت کو خاک میں ملا دیتی ہیں! آئی ٹی کی
اصطلاح میں کہیے تو گویا ہر سال عید شاپنگ کے جوش و خروش کا نیا ”ورژن“
مارکیٹ میں آ جاتا ہے! اور بے چارے شوہر روایتی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے
ہوئے بازاروں میں سامان اُٹھائے اُن کے پیچھے پیچھے کچھ اِس طرح پھرتے ہیں
کہ
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے!
ہمارا شمار بھی اُن لوگوں میں کیا جانا چاہیے جنہیں عید کی شاپنگ واپنگ تو
ککھ بھی نہیں کرنی ہوتی، مگر عید شاپنگ کے سیزن میں محض اِس لیے بازاروں کے
چکر لگاتے ہیں کہ شاپنگ کا سامان اُٹھائے پھرنے والے شوہروں کو دیکھ کر
محظوظ ہوں! اور سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہم نے اکثر محسوس کیا ہے
کہ ناز برداری اور بار برداری میں درحقیقت کوئی خاص، بلکہ کوئی فرق نہیں!
ہم شوہروں کو، خدا ناخواستہ، بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے کسی
حیوان سے مشابہ قرار نہیں دے رہے۔ مشابہت اور مماثلت سے بچنے کے لیے شوہر
ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، فخریہ انداز سے چلتے رہتے ہیں تاکہ کسی کو گمان
تک نہ گزرے کہ اُن کے دل و نظر پر قیامت گزر رہی ہے! بعض شوہروں کا جوش و
خروش قابل دید اور قابل داد ہوتا ہے۔ مجبوری کو بھی رب کی رضا سمجھ کر وہ
کچھ اِس انداز سے نبھا رہے ہوتے ہیں گویا اِسی پر جنت کا مدار ہے! راضی بہ
رضا رہنے کی یہ انمول صفت بھلا بار برداری کے لیے مختص حیوانات میں کہاں؟
شادی شدہ انسان کی بھلائی اِسی میں ہے کہ عید شاپنگ کی چوکھٹ پر ذبح ہونے
کے لیے ہمہ وقت تیار رہے اور کسی ”مزاحمتی تحریک“ کا خیال تک دِل میں نہ
لائے! ہاں، اگر وہ چاہے تو سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان کی طرح صرف خواب
دیکھ سکتا ہے کہ گھر والے عید سادگی سے منانے اور شاپنگ جیسی قبیح رسم کو
اپنی زندگی سے ”تڑی پار“ کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں! معاملہ خواب تک رہنا
چاہیے، تعبیر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ عجیب الخلقت خوابوں کو
تعبیر کا جامہ پہنانا صرف منظور وسان کے بس کی بات ہے! ہم آپ جیسے غریبوں
کے پاس سرکاری خزانہ تو ہے نہیں کہ ہر خواب کی تعبیر خرید کر سُرخ رُو ہوتے
پھریں! |