جس طور ہمیں کبھی کبھی وطن عزیز
میں وزیر قانون کا وجود اضافی محسوس ہوتا ہے بالکل اُسی طرح نجومیوں کا
وجود بھی لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ اب پاکستان میں کون ہے جسے اپنے مستقبل
کا اچھا خاصا اندازہ نہیں؟ حالات اِس نہج پر آگئے ہیں کہ ذرا سا شعور رکھنے
والا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ مُلک کا اور خود اُس کا مستقبل کیا ہوگا!
پاکستان میں نجومی دو ہی طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔۔ یا تو اعلیٰ ترین
شخصیات میں یا پھر فٹ پاتھ پر! ہم اب تک یہ بات سمجھ نہیں پائے کہ جو خود
فٹ پاتھ پر بیٹھا ہو وہ ہمیں فٹ پاتھ کے لیول سے بلند ہونے کا راستہ کیسے
دِکھائے گا!
اکبر سرحدی ہمارے دوست ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹرانسپورٹر ہونے کے
باوجود وہ ہاتھوں کی لکیروں اور قسمت کے احوال کے چکر میں رہتے ہیں! ہم نے
اُنہیں بارہا یہ سمجھانے کی (ظاہر ہے، ناکام!) کوشش کی ہے کہ آپ ماشاءاللہ
ٹرانسپورٹر ہیں، پھر کون سا مزید روشن مستقبل تلاش کر رہے ہیں! معلوم یہ
ہوا کہ ٹرانسپورٹ نے اُنہیں تو مستقبل کی فکر سے بے نیاز کردیا ہے، اب وہ
دوسروں کو تابناک مستقبل کی نوید سُناتے رہتے ہیں! اکبر سرحدی چونکہ
ٹرانسپورٹر ہیں، اِس لیے اپنی پیش گوئی درست ثابت کرنے کے لیے وہ کسی کا
مستقبل اپنے خرچ پر سنوار بھی سکتے ہیں! ”کمپنی کی مشہوری“ کا ایک آزمودہ
طریقہ یہ بھی ہے! ہمارے ہاں ہر حکومت ”اتحادیوں“ کی حمایت اِس طور حاصل کیا
کرتی ہے!
ہاتھ دیکھنے والوں سے ہمارا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ یہ ہاتھ دیکھتے کم،
دِکھاتے زیادہ ہیں! ہم نے بارہا اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو بغور دیکھا ہے
اور اُنہیں اپنے ذہن سے زیادہ پیچیدہ یعنی آپس میں اُلجھا ہوا پایا ہے! خلش
بڑودوی فرماتے ہیں۔
کوئی لکیر سلامت نظر نہ آئے گی
ہمارے ہاتھ نہ دیکھو کہ کھردرے ہیں بہت!
کبھی کبھی تو ہاتھ کی لکیروں کا جائزہ لینے کے بعد جی چاہا ہے کسی کو ہاتھ
جَڑ دیں! جب ”آنے والے مستقبل“ میں کچھ بھی اچھا دِکھائی نہ دے رہا ہو تو
انسان دوسروں ہی پر ”خُنّس“ اُتار سکتا ہے! مقدر خواہ کتنا خراب ہو، ہم
اپنے ہی منہ پر تو طمانچہ رسید کرنے سے رہے!
ایک دن اکبر سرحدی نے ہمارے ہم پیشہ یعنی صحافی بھائی ریاض عاجز کے ہاتھوں
کی لکیروں کا جائزہ لیا اور اُن کی قسمت کا حال بیان کرنا شروع کیا۔ اکبر
سرحدی نے اُنہیں بتایا کہ وہ مزاج کے سخت ہیں، جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں
مگر دِل کے بہت اچھے ہیں۔ یعنی کوئی ایسی ویسی بات دِل میں نہیں رکھتے۔
ریاض عاجز خاصے متاثر دِکھائی دیئے۔ ہم نے کہا بھائی! تم ٹی وی اینکر ہو
اور کرنٹ افیئر کا پروگرام کرتے ہو۔ ایک بار تمہارا پروگرام دیکھ کر کوئی
بھی تمہارے مزاج (یا بدمزاجی!) سے متعلق تمام تفصیلات آسانی سے بیان کرسکتا
ہے! یہ بات سُن کر اکبر سرحدی نے مستند نجومی ہونے کا بھرپور ثبوت دیا یعنی
ہماری بات کا ذرا بھی بُرا مانے بغیر بیان جاری رکھا! اُن کا کہنا تھا کہ
چند ایک ماہ پریشانی کے ہیں، اِس کے بعد تمام مشکلات دور ہو جائیں گی! ہم
نے ریاض عاجز کو سمجھانے کی (ایک اور ناکام) کوشش کی کہ ہر نجومی یہی کہتا
ہے! آخر میں اکبر سرحدی نے اپنی تمام پیش گوئیوں کے درست ثابت ہونے کی خاصی
کٹھن شرط عائد کردی۔ اُنہوں نے کہا کہ پانچ وقت کی نماز پڑھ کر اللہ سے
دُعا کیا کریں۔ ہم نے کہا بھائی! جو پانچ وقت اللہ کو یاد کرلے اُسے تو سب
کچھ مل گیا، پھر کیسی پیش گوئی اور کون سا مستقبل!
نجومیوں سے ہمارے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ ایک بار ہم ایک مُعمر،
سنیاسی بابا نُما نجومی کے ”چیمبر“ میں داخل ہوئے اور اُنہیں بتایا کہ
ہمارے پیٹ میں شدید درد ہے۔ نجومی بابا بہت حیران ہوئے اور وضاحت فرمائی کہ
پیٹ کے درد کا مستقبل بیان کرنے کی صلاحیت اُن میں نہیں پائی جاتی! ہم نے
عرض کیا کہ جناب! مستقبل کو تو فی الحال رہنے دیجیے، یہاں ہم حال سے بے حال
ہیں! کئی دن سے طبیعت میں اضمحلال ہے۔ غدودان معدہ میں عجب نفسانفسی کا
عالم ہے۔ ملک کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جمہوری حکومت زیادہ دن نہیں ٹِکتی
اور ہماری یہ حالت ہے کہ جو کھاتے ہیں وہ زیادہ دیر پیٹ میں نہیں ٹِکتا۔
ہمارے پیٹ میں اُٹھنے والے مروڑ کی اصلیت آپ سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟
اُنہوں نے مزید حیران ہوتے ہوئے اِستفسار کیا کہ وہ بھلا پیٹ کے مروڑ کی
نوعیت اور کیفیت کیونکر سمجھ سکتے ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں دَست لگے ہیں۔
وہ بولے ”ابے نا ہنجار! کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جا، اِس قدر بدبو دار بات
بتانے ہمارے پاس کیوں آگیا!“ ہم نے عرض کیا جناب! باہر آپ ہی نے تو ”دَست
شناس“ کا بورڈ لگا رکھا ہے! اِس پر اُنہوں نے خاصی ”دَست آور“ نظروں سے
ایسے گھورا کہ ہمیں اپنی روح ”قبض“ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی! اور پھر نجومی
بابا نے اپنے دَستِ مبارک سے ہماری چہرہ شناسی کی کوشش کی مگر ہم بر وقت
غُچّہ دیکر اُسی طرح بچ نکلے جس طرح اچھا وقت ہم سے بچتا پھرتا ہے!
ایک بار ہم نے سڑک کر مستقبل بینی کی دُکان سجائے ایک بابا جی کے طوطے سے
فال نکلوائی تو اس میں لکھا تھا ہم جلد بیرون ملک جائیں گے۔ ہم نے سوچا اِس
فال کو کنفرم کرنے کے لیے پھر سے فال نکلواتے ہیں۔ طوطے نے دوسری مرتبہ جو
لفافہ اٹھایا اس میں سے برآمد ہونے والی پرچی پر لکھا تھا کہ آئندہ ڈھائی
تین برس ہم شدید مشکلات میں گھرے رہیں گے۔ ہم نے بابا سے پوچھا کہ یہ کیا
ماجرا ہے۔ انہوں نے پوچھا ”پاسپورٹ بنوایا ہے؟“ ہم نے کہا نہیں۔ اِس پر وہ
بولے ”جب غیر قانونی طریقے سے کئی سرحدیں عبور کرو گے تو شاید کہیں نہ کہیں
پکڑے بھی جاؤ گے۔ بس پھر دو تین سال گندے تو گزریں گے ہی۔“ ہم نے کہا یہ تو
بڑی عجیب فال نکالی ہے طوطے نے۔ وہ بولے ”طوطے نے نیک فال نکالی ہے یعنی
کہیں نہ جاؤ، اپنے ہی ملک میں رہو!“
ہم نے پوچھا کہ طوطا ہر بار الگ فال کیوں نکالتا ہے، کیا تین چار منٹ میں
مُقدر تبدیل ہو جاتا ہے؟ اِس پر بابا جی چہک کر بولے ”بیٹا! یہ طوطا ہے،
اِنسان نہیں کہ لکیر کا فقیر ہوکر بَس ایک ہی بات کہتا رہے، ایک ہی لفافہ
نکالتا رہے! ہم نے بڑی محنت سے ٹریننگ دی ہے تو یہ اپنا ذہن استعمال کرنے
کے قابل ہوا ہے!“
بیشتر نجومی ڈائجسٹوں میں کہانی لِکھنے والوں کی طرح خاصے ذہین، بلکہ ماہر
نفسیات ہوتے ہیں یعنی ہاتھ دیکھ کر وہی بات بتاتے ہیں جو آپ سُننا چاہتے
ہیں! مثلاً ایسے احمق کم ہی پائے جاتے ہیں جو پہلی بیوی کو بمشکل بھگتنے کے
بعد حماقت دُہرائیں یعنی دوسری شادی کریں! نجومی ہاتھ میں دوسری شادی کی
لکیر کا ذکر ضرور کرتے ہیں! وہ جانتے ہیں کہ اِنسان دوسری شادی کرے نہ کرے،
اُس کے بارے میں سُننا ضرور پسند کرتا ہے! یعنی
دِل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!
سڑکوں پر ہنگامہ آرائی اور مار کٹائی کچھ سیاسی کارکنوں ہی کا کیا دَھرا
نہیں ہوتا، کبھی کبھی ہم نے نجومیوں کے ہاتھوں بھی فٹ پاتھ کی محفل میں
اچھی خاصی گرمی دیکھی ہے۔ ایک صاحب سڑک پر نجومی کے پاس بیٹھے تھے اور وہ
ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک اُن صاحب نے نجومی کو ”ہاتھ دِکھانا“ شروع
کردیا! کسی نے سبب پوچھا تو کہنے لگے ”کم بخت کہہ رہا ہے کہ ہاتھ کی لکیریں
بتا رہی ہیں کہ آپ کے نصیب میں تین بچے ہیں۔“ کسی نے کہا اِس میں ناراض
ہونے کی کون سی بات ہے۔ وہ بولے ”ناراض کیسے نہ ہووں؟ کم بخت یہ بھی بتا
رہا ہے کہ میرے ہاتھ میں شادی کی لکیر نہیں ہے!“ |