سات سال سے کومہ میں پڑے ہوئے شخص کی جوان بیوی اور کمسن
بچوں کو زندگی میں بہت سے مسائل و مشکلات کا سامنا ہونے کی بناء پر علمائے
کرام سے رجوع کیا گیا ، انہوں نے متفقہ طور پر خاتون کا نکاح فسخ کر دیا ۔
اس کی ایک ماہ میں دوسری جگہ شادی ہو گئی وہ عدت میں بیٹھنا چاہتی تھی مگر
مجلس مشاورت میں شامل ایک مفتی صاحب نے کہا کہ آپ کی عدت اسی روز سے شروع
ہو گئی تھی جب آپ کا خاوند کومے میں گیا تھا سات سال سے آپ عدت ہی گزار رہی
تھیں اب آپ فوری نکاح کے لئے آزاد ہیں ۔
یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جب ہمارے علم میں آیا تو بے اختیار ذہن میں بہت سے
ایسے لوگوں کا خیال آیا جو برسہا برس سے دیار غیر میں مقیم ہیں اور واپس
نہیں گئے۔ یعنی ان کی بیویوں کی عدت اسی روز سے شروع ہو گئی تھی جب انہوں
نے وطن چھوڑا تھا ۔ جو لوگ اپنے بیوی بچوں کی خاطر قربانی دے رہے ہیں انہی
کے سکھ سکون کے لئے پردیس کاٹ رہے ہیں تو پھر بھی کچھ نا کچھ لنگڑا لولا
جواز تراشا جا سکتا ہے مگر جو عقل کے اندھے انہی کو نظر انداز کر کے اور
انہیں مصائب و آلام کی بھٹی میں جھونک کر وہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں اپنی
عمر گنوا دیتے ہیں جو ان کی ہوتیں ہی نہیں تو پھر ایسے نادانوں اور ایک
کومے میں پڑے ہوئے شخص میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟
غیر قانونی طریقوں سے یورپی ممالک کو پہنچنے والے لوگوں میں اکثر ایسی
مثالیں ملتی ہیں کہ پھر وہاں سے ان کی لاش ہی واپس گئی ۔ ایسے واقعات بھی
پتہ چلتے ہیں کہ مرد تو پچھلے کئی برسوں سے پردیس میں ہے اُدھر بیوی کا
انتقال ہو گیا ایک نام نہاد سہاگن کو ڈالروں پاؤنڈز اور ریالوں میں کمانے
والے شوہر کی نہ تو رفاقت نصیب ہوتی ہے اور ہی جنازے پر اس کا کاندھا ۔ ایک
بیوہ اور مطلقہ عورت کی مدتِ عدت میں پورے ایک ماہ کا فرق ہوتا ہے بیوہ کے
اوپر مرحوم شوہر کا سوگ منانا فرض ہے لیکن عورت کو طلاق کی صورت میں اگلے
نکاح کے لئے جتنی مدت تک رکنا ہوتا ہے اب تو علمائے دین کی جانب سے اس کی
سائنٹیفک وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ لیکن یہ
ساری دلیلیں وہاں دھری رہ جاتی ہیں جب میاں بیوی کے درمیان برسوں سے کوئی
تعلق ہی نہیں ہو وہ مدتوں سے ایک دوسرے سے دور سینکڑوں یا ہزاروں میل کے
فاصلے پر ہوں ۔ اس مقام پر ساری سائنسی توجیہات ساقط ہو جاتی ہیں تو بہتر
ہے کہ شعائر دین کو شریعت کا تقاضہ تسلیم کر کے عمل کیا جائے اور سائنس کو
بیچ میں نہ گھسیٹا جائے ۔ |