پیار ، محبت اور عشق

پیار ،محبت اورعشق کیا ہیں اور ان میں کیا فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی ذات یا چیز سے وابستہ ہونے، اسے اچھا سمجھنے ، اس سے عقیدت کا اظہار کرنے، اس سے ہمدردی کرنے ،اس کا خیال رکھنے اور اس کی عزت کرنے ہی کے تینوں نام ہیں صرف جذبے ، وابستگی اور ان کی شدت میں کچھ فرق سے انہیں علیحدہ علیحدہ کہا جاتا ہے۔یہ اصل میں درد دل ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔انسانی معاشرے اور انسانی ذہن دونوں کی ارتقا پیار، محبت اور عشق کی اساس پر ہی ہے ۔ یہ تینوں ایک ہی جذبے کی مختلف شکلیں ہیں۔ پیار تو آپ کو راہ چلتے ایک خوبصورت سے بچے سے بھی وقتی طور پر ہو جاتا ہے۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بھی آپ پیار کرتے ہیں۔ پیار اس سلسلے کا پہلا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد محبت کا نام آتا ہے ۔ محبت میں محبوب کا ہونا بھی ضروری ہے۔محبت کرنے والا محبوب کی کمی محسوس کرتا اور اس کی توجہ بھی چاہتا ہے۔عشق تیسرا اور بہترین درجہ ہے جس میں کسی بھی صلے کو خاطر میں لائے بغیر انسان کسی دوسرے کے لئے کشش محسوس کرتا ہے۔
اہل علم اور اہل فکر عشق کو دو حصوں میں دیکھتے ہیں۔
1 ۔ حقیقی عشق
2 ۔ مجازی عشق

حقیقی عشق۔ یہ وہ عشق ہے جو صرف اور صرف رب العزت کی ذات سے منسوب ہے۔صوفی لوگ چونکہ رب سے محبت کرتے ہیں جو ان کی زندگی کا مرکز اور محور ہوتی ہے اس لئے وہ اس محبت کو عین عبادت خیال کرتے ہیں۔یہی محبت ان کی زندگی کا حاصل ہوتی ہے۔ یہی محبت ان کی منزل مقصود ہوتی ہے۔ وہ جزا اور سزا سے بے نیاز ہو کر اپنی ذات کو رب کی محبت میں گم کر دیتے ہیں۔کہتے ہیں رابعہ بصری ایک دن ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں آگ لئے بھاگی جا رہی تھیں ۔کسی نے پوچھا، رابعہ اس حالت میں کہاں جا رہی ہو۔رابعہ نے جواب دیا، دیکھو یہ میرے ایک ہاتھ میں پانی ہے ،میں اس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے چلی ہوں اور میرے دوسرے ہاتھ میں جو آگ ہے اس سے مجھے جنت کو جلا دینا ہے تاکہ لوگ آئندہ کسی بھی جزا اور سزا سے بے نیاز ہو کر رب سے محبت کریں۔

عشق مجازی۔ مجاز کا مطلب ہے ،ایسی چیز جس کی اصلیت نہ ہو، حقیقت کے برخلاف، ایسی چیز جس کا اختیار دیا گیا۔عام طور پر اس عشق کو عورت اور مردکے باہمی تعلقات اور نفسانی خواہشات کا جذبہ سمجھا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے، اس کی بھی تین اقسام ہیں۔

1 ۔محبوب کی محبت۔یہ مجازی محبت کا سب سے کمتر درجہ ہے ۔ اس میں انسان اپنی صنف مخالف کے لئے ایک خاص کشش محسوس کرتا ہے جس کے پس منظر میں جنسی اور نفسانی خواہشا ت بھی پرورش پا رہی ہو تی ہیں۔یہ خواہش کوئی جرم نہیں فطرت نے انسان کو بقائے نسل کی ایک خواہش ودیعت کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عورت کسی مرد اور مرد کسی عورت کے لئے اپنے اندر ایک شدید کشش پاتا ہے۔ یہ فطری خواہش ہے مگر یہ جرم، گناہ یا برائی اس وقت بنتی ہے جب انسان فطرت اور انسانوں کے بنائے ہوئے مروجہ اصولوں اور ضابطوں سے انحراف کرتا ہے اور وقتی لذت کے لئے وہ راستے اپناتا ہے جنہیں فطرت گناہ اور معاشرہ جرم قرار دیتا ہے۔اس کا بہترین طریقہ مستقل رفاقت ہے، جس سے خاندان وجود میں آتا ہے اور فطری تقاضے اپنی اصلیت میں انجام پاتے ہیں۔ویسے بھی انسان گروہی اور اجتماعی زندگی کا خواہاں ہوتا ہے۔یہی جذبہ رفاقت اسے ساتھی کے ساتھ اکٹھے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔دوسرا اولاد مرد اور عورت کے رشتے کو حد سے زیادہ تقویت دیتی ہے۔

اپنی قوم اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت۔ یہ عشق مجازی کا دوسرا اور بہتر درجہ ہے۔ انسان زندگی کہیں بھی گزارے ،اس کی قوم اور وطن کی مٹی ہمیشہ اسے پکارتی ہے۔میں بہت سے لوگوں سے ملا ہوں وہ دیار غیر میں بہت خوشحال تھے مگر سب کچھ چھوڑ کر اور بہت سی صورتوں میں نقصان اٹھا کر بھی اپنے وطن لوٹ آئے کہ ان کے بزرگ یہیں اس مٹی میں دفن ہیں۔ وطن ، جہاں آپ پیدا ہوئے ، جہاں آپ نے عمر کا ایک بڑا حصہ بسر کیا،کی مٹی آپ کوواپس بلاتی ہے۔ آپ کو اپنے شہر، گاؤں، بستی ، عزیز واقارب اورد وستوں کی جدائی کا احساس بے قرار کرتا اور ٹرپاتا ہے اور آپ واپس کھنچے چلے آتے ہیں۔
انسانوں سے محبت۔عشق مجازی کا یہ اعلیٰ ترین درجہ ہے۔یہ وہ درجہ ہے کہ جس درجے پر پہنچ کر انسان ہر تعصب سے بے نیاز ہو کر لوگوں کی بھلائی کا سوچتا ہے یہاں انسان مذہبی تعصب، گروہی نفرت، رنگ اور نسل کے امتیاز اور اونچ نیچ کے تصورات سے بالا تر ہو کر خلق کی فلاح کا سوچتا ہے۔ وہ خوف، لالچ، تکبر اور نمائش سے بے نیازہو کر اپنی زندگی لوگوں کی خدمت انجام دینے کے لئے وقف کر دیتا ہے۔یہ وہ عشق ہے جو رب العزت کو بھی عزیز تر ہے۔

عشق مجازی کے پہلے درجے پر انسان خاندان کی سوچتا ہے ، اپنے عمل سے اسے مضبوط کرتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی سوچ اپنے قبیلے، وطن اور قوم کے لئے مخصوس ہوتی ہے اور تیسرے مرحلے میں وہ اپنے مفادات کو انسانی مفادات میں ضم کر دیتا اور اپنے وجود کو اجتماعیت میں کھو دیتا ہے۔ یہ عشق مجازی کی انتہائی اور بہترین منزل ہے۔ مولانا رومی کہتے ہیں’’اگر تم عظمت کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ہوتو اپنے دل میں انسانیت کے لئے نفرت نہیں محبت آباد کرو‘‘۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500935 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More