جو والدین اپنی بچيوں کو یہ نہیں سکھاتے ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ڈرامہ تقدیر کی کہانی ایک حقیقت یا فسانہ

image
 
کہا یہ جاتا ہے کہ ڈرامہ انسان کی حقیقی زندگی کا عکس ہوتا ہے مگر یہ اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے کیوں کہ آج کل کے ڈرامے دیکھ کر صرف فرسٹریشن اور مایوسی ہی ہوتی ہے جب کہ اسکرین پر موجود ہر کردار دوسرے کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہوتا ہے-
 
اور ان سب سازشوں کا شکار بے چاری ہیروئين مظلومیت کا لبادہ اوڑھے اپنی معصومیت اور سادگی کے سبب ہوتی جاتی ہے اور سو قسطوں تک ہر قسم کا ظلم سہنے کے بعد آخری قسط میں سب کردار اس کے خلاف سازشوں کی یا تو سزا پا لیتے ہیں یا پھر توبہ کر کے اس مظلوم کو سر کا تاج بنا لیتے ہیں-
 
ڈرامہ تقدیر میں موجود سوچ
حالیہ دنوں میں پیش کیا جانے والا ڈرامہ تقدیر بھی ایسا ہی ایک ڈرامہ ہے جو رومی نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتا ہے جس کردار کو علیزے شاہ نے نبھایا ہے- اس ڈرامے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیٹیوں کی زندگی کی خوشیاں صرف اور صرف اس کی تقدیر پر منحصر ہوتی ہیں-
 
مگر یاد رکھیں کہ تقدیر بھی اس وقت انسان کا مذاق اڑانا شروع کر دیتی ہے جب کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے اور اس بات کا انتظار کرے کہ تقدیر اس کے نصیب میں لکھا نوالہ خود اس کے منہ میں ڈالے گی-
 
image
 
بیٹی کے معاملے میں والدین کی غلطیاں
اس ڈرامے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ ایسی غلطیاں بیٹی کے والدین نے کی ہیں جس کے بعد ان کی بیٹی کو مظلوم قرار دیا گیا ہے-
 
بیٹی کو حد سے زيادہ لاڈ پیار دینا
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بندہ بادشاہ بھی ہو تب بھی اس نے ایک نہ ایک دن اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہوتی ہے تو لاڈ پیار ضرور کریں مگر ان کو اس بات کا سبق بھی دیں کہ وہ نئے گھر جا کر کیسے گزارا کرے گی-
 
بیٹی کو امور خانہ داری سے نا آشنا رکھنا
یہ کوئی محبت نہیں ہے جس کی بنیاد پر آپ اپنی بیٹی کو تو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھیں اور گھر کے تمام امور کی ذمہ داری اپنی بہو کے کاندھوں پر ڈال دیں کیوں کہ جیسا سلوک آپ دوسروں کی بیٹی سے کریں گے تو مکافات عمل کے طور پر تیار رہیں کہ آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے-
 
اور ایک جانب تو آپ نے بیٹی کو کچھ سکھایا نہیں ہے اور جب سسرال جا کر اس کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جو آپ اپنی بہو سے کروا رہے ہیں تو آپ کی بیٹی اس دنیا کی مظلوم ترین لڑکی اور اس کی ساس اس دنیا کی ظالم ترین عورت قرار پائی جاتی ہے-
 
بیٹیوں کے رشتے سوچ سمجھ کر کریں
کسی بھی امیر انسان کا رشتہ آتے ہی فوراً بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر کرنے سے بہتر ہے کہ فیصلہ کرنے سے قبل اچھی طرح چھان پھٹک کر لیں اور یہ دیکھ لیں کہ اس گھر والوں کا مزاج کیسا ہے کیا آپ کی بیٹی ایسے گھر میں ایڈجسٹ کر سکتی بھی ہے یا نہیں-
 
 
image
 
ڈرامہ تقدیر سے معاشرے کو ملنے والا غلط سبق
اس ڈرامے کو دیکھ کر تو بس یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے سسرال ایک قید خانہ اور ساس ایک داروغہ ہوتی ہے اور کہیں سے بھی یہ محسوس نہین ہو رہا ہے کہ والدین کی غلطیوں کی سزا ان کی بیٹی کو بھگتنی پڑ رہی ہے-
 
آخر میں اتنا ہی کہیں گے کہ بیٹیوں کی تربیت میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ اس نے اگلے گھر جا کر بسنا ہے تو اس کو اس کے لیے تیار کریں تاکہ وہ اپنے نئے گھر میں ایک خوش و خرم زندگی گزار سکے- اس کو بیچاری نہ بنائيں بلکہ اس قابل بنائيں کہ وہ اپنے مسائل خود اپنے طور پر حل کر سکے-
YOU MAY ALSO LIKE: