آئینہ ماہ وسال

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کتاب آئینہ ماہ و سال371صفحات پر مشتمل آپ بیتی اور جگ بیتی ایک ساتھ ہے یہ انکی ڈائریوں اور یاداشتوں کا ایسا مجموعہ ہے جو پڑھنے کے بعد زندگی کا ایک ایسا گلدستہ بن کر سامنے آتا ہے جس میں رنگ رنگ کے سدا بہار خوبصورت پھول اپنی پنکھڑیاں لیے کانٹوں کے درمیان سے جھلکتے ہیں جس نے کانٹے اپنی چھبن کے لیے اور پھول دوستوں کی تازگی کے لیے سجا رکھے ہیں شخصیت ایسی خوبصورت کہ ایک بار ملنے کے بعد بار بار ملنے کی جستجو رہتی ہے مخلص اتنے کہ آپ اپنی پریشانی کا ذکر نہ بھی کریں تو غیب سے انہیں علم ہوجاتا ہے اور وہ آپ کے کہے بغیر مسئلے کے حل کے لیے کوششیں شروع کردیتے ہیں انسان ایسے کہ ان کے اندر ایک استاد بیٹھا نظر آتا ہے جو روحانی باپ تو ہوتا ہی ہے ساتھ معاشرے کا محسن اور معمار بھی ہوتا ہے کم سنی سے غم سنی تک کی عمر میں جو کچھ سیکھا وہی اثر اب تک انکی زندگی میں جھلکتے ہیں قلم اور کتاب سے رشتہ ایسا جڑا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا کالم نگاری شروع کی تو اسکا نام بھی قلم برداشتہ ہی رکھا اب معلوم نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو قلم سے پیار تھا یا داشتہ سے خیر دونوں ہی کمال کی چیزیں ہیں جن سے جیتے جی جان چھڑوانا مشکل ہوتا ہے انکی تحریریں کمال کی ہیں 23اپریل 1985کو لکھا ہوا انکا ایک صفحہ پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ آج کے دنوں کی واردات ہے ڈاکٹر صاحب ٹھیکے داری نظام پر لکھتے ہیں کہ دو آدمیوں کو ٹھیکہ ملا ایک نے سڑک بنانی تھی اور ایک نے پانی کے پائپ بچھانے تھے سڑک بنانے والا حب الوطن شخص تھا اس نے دوسرے کو کہا کہ پہلے آپ پائپ بچھالو بعد میں میں سڑک بنا لونگا ورنہ تمھیں سڑک توڑنی پڑے گی جس سے حکومت کا دھرا نقصان ہوگا دوسرا شخص نہ مانا پہلے نے کوشش کرکے متعلقہ افسران کو بھی سمجھایا بات نہ بنی تو وہ عدالت چلا گیا جہاں جج نے فیصلہ دیا چونکہ سڑک بنانے والے کو ٹھیکہ پہلے ملا تھا اس لیے سڑک پہلے بنے گی پائپ والے کو بعد میں ٹھیکہ ملا اس لیے پائپ والا بعد میں پائپ بچھائے گا چنانچہ پہلے سڑک بنی اور پھر پائپ والے نے توڑی اور آخر میں پائپ والے کے بہنوئی کو سڑک کی مرمت کا ٹھیکہ مل گیا جو لاکھوں میں تھا۔یہ وہ نظام ہے جو ہمیں چلنے پھرنے نہیں دیتا جس نے پورے پاکستان کو مفلوج بنا کررکھا ہوا ہے اور ہم بیساکھیوں پر دوسروں کے سہارے زندہ ہیں بچپن میں ڈائریاں اور کتابوں میں پھول رکھنا تو تقریبا سبھی بچوں کا کام ہوتا ہے لیکن پھر انکو سنبھال رکھنا اور بعد میں کتابی شکل دینا کوئی بھی نہیں کرتا مگر ڈاکٹر صاحب نے کمال کردیا کہ نہ صرف ڈائریوں کو سینے سے لگائے رکھا بلکہ اپنے ان 45برسوں کی ریاضت کو موٹی تازی کتاب بھی بنا دیاجو قیامت تک انکی یادیں تازہ رکھے گی ڈائریوں سے یاد آیا آج سے ٹھیک سو سال پہلے برطانوی رائٹر نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ دوبارہ جب کیلنڈر پر بائیس کا ہندسہ آئے گا تو یقیناً نہ اپ ہونگے نہ میں ہونگا پھر مزید لکھا کاش عمر اتنا لحاظ رکھ لے کہ میں دوبارہ یہ ہندسہ دیکھ سکوں ان لوگوں کو دیکھ سکوں جو 2022 میں ہونگے اس زمانے کو دیکھ سکوں جو 2022 کے دوراں ہوگا مگر میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہے تب ہماری خبریں گمنام ہو چکی ہونگی ساحر لدھیانوی جب بستر مرگ پر تھے تو بند آنکھوں اپنے ڈاکٹر سے کہا ''ڈاکٹر کپور میں جینا چاہتا ہوں'' زندگی نے بیشک غم دیئے ہیں مگر دنیا خوبصورت جگہ ہے یہاں یاروں کی محفلیں ہیں یہاں زندگی کا شور ہے میں جینا چاہتا ہوں ڈاکٹر کپور ۔22 کا ہندسہ جب سو سال بعد دوبارہ آئیگا تو دوستوں یقیناً ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہوگا ہماری قبریں قبرستان کی گنجان حصے میں ہونگی کچھ دھنس ہوئی کچھ دبی ہوئی لہٰذا کوشش کریں کہ یہ مختصر سا قیام خوشگوار گزر جائے کوئی روح کوئی جسم ایسا نہ ہو جو زخم ساتھ لیجائے اور ان زخموں کا الزام ہمارے سر ہو کہیں زبان سے تو کہیں ہاتھ سے اور اگر کسی کو اپنی زندگی کی سمجھ نہیں آتی تو وہ ڈاکٹر صاحب جیسے لوگوں کو سمجھ کر جینے کا ہنر سیکھ لیں زندگی یقینا زندہ دلی کا نام ہے اور تاریخ کے اوراق میں وہی زندہ رہتے ہیں جو دوسروں کے لیے راحت و اطمینان اور سکون کی نشانی ہوں ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کا انتساب بھی اپنے دوست کے نام کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پیارے دوست نامور صحافی اور چیف ایڈیٹر روزنامہ فرنٹ کراچی جناب عبدالسلام خان کے نام جسنکی وجہ سے پورا کراچی اپنا اپنا س لگتا ہے اس سے بڑھ کر دوست نوازی کی کیا مثال ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج انکی وجہ سے اسلام آباد نہیں بلکہ پورا پاکستان اپنا اپنا سا لگتا ہے ہر شہر میں انکے پیار کرنے والے موجود ہیں اور وہ ایسے ہی پیار دیتے ہیں جیسے ڈاکٹر صاحب اسلام آباد میں دیتے ہیں انتساب کے بعد ڈاکٹر صاحب اگلے صفحہ پر شکر گذار ہیں فن کی اس کالی لکیر کے جو کالے پردے کے پیچھے رات کے اندھیرے میں بھی انہیں برابر نظر آتی رہی اس ممتا کا جس نے انہیں دکھ کی خبر نہ سنائی اور ہمیشہ سکون سے کام کرنے کا موقعہ فراہم کیے رکھا رفیقہ حیات کے اس پیار کا جس نے انکا وقت چھیننے کی بجائے اپنا وقت بھی انہیں دیدیاان دوستوں کا جنہوں نے وقتی طور پر انہیں آزاد کردیاان کتابوں اور رسالوں کا جنہیں پڑھ کر انہیں ڈائری لکھنے کا شوق پیدا ہوا ان بچوں کا جو رونے اور چیخنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلے جاتے تھے ان راتوں کو جنہوں نے نیند کو پچھاڑے رکھاان آنکھوں کا جنہوں نے بوجھل ہونے سے انکار کردیاان دنوں کا جنہوں نے روشنی بکھیرے رکھی اس قلم کا جو رکنے کا طریقہ بھول گیا اور ان چارپائیوں کا جن پر لیٹ کر وہ یہ ڈائری لکھتے رہے آخر میں انکی کتاب کے آخر سے چند لائنیں جو ہمارے معاشرے کا آئینہ ماہ وسال بھی ہے آپ بیتی بھی اور جگ بیتی بھی ہے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ پاؤں بدن کے سب سے نچلے حصے کو کہتے ہیں اور عوام معاشرے کے نچلے حصے کو ۔بلعموم پاؤں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور میں تو اسے اپنے پاؤں کے برابر بھی نہیں سمجھتا وہ تو میرے قدموں میں بیٹھا رہتا ہے پھر وہ میرے تلوے چاٹنے لگا یا پاؤں پڑنے لگا یا اسنے اپنی پگڑی اتار کر میرے پاؤں پر رکھ دی جیسے فقرے اسی عدم اہمیت کی غمازی کرتے ہیں مگر جب پاؤں میں شدید تکلیف ہو تی ہے اور آدمی چلنے پھرنے سے قاصر ہوکر بستر پر پڑ جاتا ہے تو تو پتہ چلتا ہے کہ سر سمیت پورے بدن کا بوجھ پیروں نے ہی اٹھایا ہوا تھا مگر انہیں تب تک کوئی اہمیت نہیں دی جاتی جب تک وہ شدید تکلیف کے باعث بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوکر خود اٹھ کھڑے نہ ہوں یا ہاتھ کھڑے نہ کردیں ۔ڈاکٹر صاحب نے جہاں اپنی آب بیتی بیان کی وہیں پر قوم کے شعور کو بیدار کرنے کا پیغام بھی دیا ہے جو لوگ انہیں جاتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ وہ جتنے خوبصورت وہ خود ہیں اس سے بڑھ کر خوبصورت انکی یہ تخلیق ہے دونوں نے ایک دوسرے کو امر کردیاآخر میں انکی نظر یہ شعر جس پر انہوں نے سچ مچ عمل کردیا ۔
*شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 614221 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.