دور حاضر میں بچوں کے ادب کی اہمیت

تحریر: ذوالفقار علی بخاری

ماضی میں بچوں کے لیے ایک مخصوص سوچ کے تحت لکھا جا رہا تھا جو کہ اُس دور کے تقاضوں کے مطابق تھا اگرہم آج بھی ویسا لکھیں جو ماضی کے تقاضوں کے مطابق ہوتو پھر معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ پھر دورحاضر کے نونہال کتب تو دور کی بات ہے وہ رسائل کو بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کریں گے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے تقاضے اورجدید دور کی ضروریات میں بہت فرق آچکا ہے۔

اگر آج جنوں، بھوتوں، پریوں، ٹارزن اورعمروعیار کی کہانیوں کی اشاعت اس لئے ضروری سمجھیں کہ بچے ان میں دل چسپی لیں گے تویہ لکھنے والوں کی خام خیالی ہے کہ وہ مقبولیت حاصل کریں گی کہ جہاں بچوں کے پاس تیز رفتار انٹرنیٹ، اسمارٹ موبائل فونز، نئے کرداروں پرمبنی ناولز اورایسی فلمیں اُن کو دیکھنے کو مل رہی ہوں جو سائنس کی ترقی یا پھر ایسی نئی ایجادات کی طرف مائل کر رہی ہوں جو ابھی تک سامنے نہ آئی ہوں تو پھر مصنوعی دنیا سے حقیقی دنیا کی سچائی بچے کو زیادہ متاثر کرے گی۔ آپ یہی دیکھ لیجیے کہ ماضی میں بچے کے قریبی رشتے داراس کے لیے بہت خاص ہوتے تھے لیکن اب بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی یا جسمانی تشدد نے ان کو بھی ایک خوف میں مبتلا کر دیا ہے تو ایسے میں ان کو ذہنی طور پر شعور دلوانا بھی ضروری ہے کہ ہم محض اچھائی اوربرائی کے فرق کو بتانے کے لیے کہانیاں اورنظمیں پیش کرتے رہیں گے تو وہ حقیقی دنیا کا سامنا کرنے سے گھبرائیں گے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہم خیالی دنیا دکھا دکھا کر ان کوتفریح تو مہیا کر سکتے ہیں، تعلیم بھی دے سکتے ہیں لیکن ایک مضبوط کردار کا حامل بہادر انسان نہیں بنا سکتے ہیں۔

آپ کے علم میں ہوگا کہ بچوں کو کہانی سننا اورنظمیں پڑھنا بہت پسند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں یاد کی گئی کہانیاں اورنظمیں عمر بھر یاد رکھتے ہیں اوریہی وہ چیز ہے جو ان کی زندگی کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔راقم السطور نے اپنے بچپن میں بے شمار ایسی کہانیاں پڑھیں جس میں ٹارزن، عمر عیار اوردیگر کردار بُرائی کا خاتمہ کرکے یہ بتاتے تھے کہ غلط کام کرنے والوں کا برا انجام ہوتا ہے۔ راقم السطور نے بچپن کی پڑھی گئی کہانیوں کا اتنا اثر لیا کہ جب زندگی میں حق لینے کی بات ہوئی یا پھر کسی کو حق دلوانے کے لئے قدم اُٹھانا پڑا تو یہی پڑھی ہوئی کہانیاں یاد آئیں پھر ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا حق اوردوسروں کے لئے انصاف حاصل کیا۔یہ ادب اطفال کی اہمیت کا واضح ثبوت ہے کہ بچوں کو اگر بچپن میں ایسا مواد پڑھنے یا سننے کو ملے جو اس میں مثبت سوچ بیدار کرے تو وہ کسی بھی بچے کی زندگی بدل سکتا ہے۔

اگر کچھ ایسا لکھا جائے جسے پڑھ کرایسے بچے جو جدید آلات اورانٹرنیٹ کو اپنی دسترس میں رکھتے ہیں وہ غلط ثابت کردیں کہ لکھنے والے نے حقائق درست نہیں بیان کیے ہیں تو یہ لکھنے والے کی قابلیت اورساکھ پر سوال کھڑے کرے گا کہ جدید دور میں بچوں کو بہلایا نہیں جا سکتا ہے۔ماضی میں بچوں کے لئے لکھنے والوں نے جو بھی لکھا وہ اس دور میں قابل تحقیق نہیں تھا لیکن آج کے دور میں سب کچھ چند منٹوں میں تلاش کرکے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کتنا کچھ درست معلومات پر مبنی ہے اس لئے بچوں کے لئے لکھنے والوں کوایسا لکھنا چاہیے جو ان کی ساکھ کو مجروح نہ کرے کہ اگر ایسا ہوا تو پھرلکھاری کے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔جو بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں اورجو لکھنا چاہ رہے ہیں یا جو بچوں کے ادب کو شائع کرتے ہیں وہ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو بھی تحریر شائع ہوتی ہے اس کو پسند کرنے والے الگ الگ مزاج کے ہوتے ہیں اوران کی پسندیدگی اسی لحاظ سے ہوتی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کوئی خاص تحریر کسی خاص بچے کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے۔ راقم السطور کی کہانی ”باغی“کوایک تیسری جماعت کی بچی نے بہت پسند کیا حالاں کہ وہ قدرے بڑے بچوں کے لیے زیادہ موزوں تھی۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ دورحاضر میں بچوں کا مشاہدہ اورکچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماضی کے بچوں کی بہ نسبت کچھ زیادہ ہے اس لیے ہمیں ان کو اسی مزاج کی کہانیاں دینی چاہیے۔بچوں کو جس طرح سے اسکول، خاندان یا پھر کھیل کے میدان میں مختلف رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ان کو ایک خاص مزاج کا حامل بناتا ہے اسی طرح سے جب مختلف نوعیت کا ادب ان کے سامنے پیش ہوگا تو پھروہ بھی ان کو ایک خاص سوچ کا حامل بننے پر مائل کرے گا۔راقم السطورکے نزدیک دورحاضر میں بچوں کو ایسے موضوعات پر کہانیاں اورنظمیں پڑھنے کو دینی چاہیے جو ان کو موجود ہ دور میں بہادری سے نہ صرف جینا سکھائیں تاکہ وہ کسی کی بھی شرانگیزی سے بھی محفوظ رہ سکیں اورکچھ نیا کردکھانے پر مائل کریں اوروہ جدید علوم کے حصول کی جانب بھی بڑھیں۔حال ہی میں ایک بچے نے راقم کی آپ بیتی جس رسالے میں شائع ہوئی اُسے دیکھ کر کہا آپ کی تو آپ بیتی شائع ہوئی ہے یعنی اُسے یہ علم تھا کہ آپ بیتی کیا ہے؟

راقم السطور بطور مدرس یہ بات بہ خوبی جان چکا ہے کہ بیشتر بچے نامناسب حالات یا توجہ نا ملنے کی بدولت خود اعتماد نہیں ہیں ان کے لیے ایسا مواد لکھنے کی ضرورت ہے جسے پڑھ کر وہ اپنے اندر ایک ایسی توانائی محسوس کریں کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر امجد ثاقب، عبدالستار ایدھی اورشہید پاکستان حکیم محمد سعید کی مانند کارہائے نمایاں کسی بھی شعبے میں سرانجام دے سکتے ہیں۔ایسی قابل شخصیات کی زندگیوں کے واقعات کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے بلکہ رسائل میں کہانیاں لکھ کر پیش کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے بچوں کے معروف رسالے ماہ نامہ ذوق و شوق، کراچی کے نومبر2022کے شمارے میں راقم السطور کی کہانی”نیکی کا کرشمہ“ شائع ہوئی ہے جو ایک حقیقی کردار کی زندگی سے اخذکردہ واقعہ ہے۔ اس طرح سے مزید قلم کار بھی حقیقی زندگی کی کامیاب شخصیات کے ایسے کارنامے یا واقعات بیان کر سکتے ہیں جو بچوں کی سوچ بدلنے اورتربیت دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔دورحاضر میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آج بچے کتاب یا رسالہ نہیں پڑھنا چاہتے ہیں تو اسی حوالے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ جب بھی بچوں کو کتاب یا رسالہ بطور تحفہ دیا جاتا ہے تو وہ بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچوں کا کتاب سے رشتہ ٹوٹا نہیں ہے تاہم دوری پیدا ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے والدین، اساتذہ کرام اورتعلیمی اداروں کو پہل کرنی ہوگی۔ انھیں ہرماہ کسی بچوں کے قلم کاریا شاعر کو مدعو کرکے شاعری یا کہانی سننے کے سلسلے کا آغاز کروانا ہوگا تاکہ وہ مطالعہ کرنا سیکھیں جو ان کی زندگی بدل سکتا ہے۔دورحاضر میں موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کوخراب کر سکتا ہے لیکن وہ ان کو علم دینے اورکچھ جاننے کا بھی موقع دیتا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے متوازن بچوں کا ادب پیش کیا جائے جو انھیں کتاب یا رسالہ سے جوڑے اورجدید تقاضوں کے مطابق آگے لے کر جانے میں مدد کرے نہ کہ جدید ایجادات کے کچھ نقصانات کی وجہ سے دوری پرمائل کرے۔اس حوالے سے کوشش کی جائے کہ بچوں کے لئے جو بھی مواد لکھا جائے یا کارٹونز کی شکل میں پیش کیا جائے وہ ایسا ہوجو واقعی بچوں کے لئے موافق ہوں بصورت دیگر بچوں کی زندگی میں اس کے بھیانک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگرمنفی سوچ کا حامل مواد ہو تو معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا جبکہ مثبت مواد ان کی زندگی کو کامیاب اورخوشگواربنائے گا۔اگر آپ بچوں کے ادب کی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو یہ دیکھ لیجئے کہ جس قسم کا ادب ماضی میں تخلیق کیا گیا ہے اُس نے آنے والی نسل پرکیا اثرات مرتب کیے ہیں اوراگرہم ان اثرات کو منفی سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں ایسا ادب تخلیق کرنا ہوگا جو معاشرہ کو بہتری کی جانب لے جائے۔

۔ختم شد۔

بشکریہ

روزنامہ اساس۔روالپنڈی
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 526156 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More