ملک کی مختلف عدالتوں میں اس وقت اگر سب سےز یادہ زیرِ
بحث مقدمات ہیں تو اُن میں طلاق،خلع،مہر،عدت جیسے معاملات ہیں،دوسرے نمبر
مسجدیں،مدرسے اور شرعیہ قانون کے معاملات زیرِ بحث ہیں۔پتہ نہیں کہ آج کل
کن بنیادوں پر عدالتوں میں طلاق اورخلع جیسے معاملات پر فیصلے ہورہے
ہیں،بعض معاملات میں یہ باتیں سامنے آتی ہیں کہ یاتو مقدمے کو پیش کرنے
والے وکلاء صحیح طریقے سے شرعیہ قانون پر تبصرہ نہیں کرتے یاپھر جو فیصلے
سُنانے والے ہیں وہ لوگ صحیح طریقے سے شرعیہ قانون کو نہیں جانتے۔ہم نے کئی
ایسے وکلاء بھی دیکھے ہیں جو خلع لینے والی خواتین کو معاوضہ یا مینٹننس
دلوانے کیلئے عدالتوں میں مقدمے عائدکئے ہوتے ہیں،جبکہ اسلام میں خلع لینے
والی خاتون کو سوائے مہرکے اور کسی طرح کے معاوضے کیلئے اہل نہیں ہوتے۔جس
سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ شرعیہ قانون کو جانے بغیرہی سماج
میں کئی غلطیاں ہورہی ہیں۔اسی تعلق سے ہم نے ایک تحریربھی گذشتہ دنوں میں
لکھی تھی جس پر کچھ صاحبِ علم کا اعتراض تھاکہ صحافی علماء پر نکتہ چینی نہ
کریں ،نہ ہی اُن پر سوالات اُٹھائیں۔ممکن ہے کہ صاحبِ علم یہ سمجھتے ہیں کہ
وہ سوالات یا تنقید کے دائرے سے باہر ہیں،لیکن صحافیوں وکالم نگاروں کی ذمہ
داری ہے کہ سماج کی ضرورت کے مطابق مضامین لکھیں،تنقید کریں اور رہنمائی
کرنے کی کوشش کریں اور یہی ذمہ داری ہم اداکررہے ہیں۔چونکہ مسلم پرسنل لاء
بورڈ خالص مسلمانوں کے شرعیہ قانون کے تحفظ کیلئے تشکیل شدہ ادارہ ہے اور
اس بورڈکی بہت بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شرعیہ قانون کے تحفظ،بقاء،بیداری
اور تربیت کیلئے اقدامات اٹھائے۔اگربورڈ اکیلاہی ان تمام کاموں کو انجام
نہیں دے سکتاہے تو بورڈ کو چاہیے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں کی دیگر نمائندہ
تنظیموں،اداروں،انجمنوں اور کمیٹیوں کے تعائون سے علاقائی یا ضلعی سطح پر
اس طرح کی بیداری مہم چھیڑے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کے اس پُر فتن
دورمیں جہاں فرقہ پرست طاقتیں شرعیہ قانون کی ترمیم یااصطلاح کی باتیں
کررہے ہیں ایسے میں مسلم وکلاء،علماء،دانشوران،بارکائونسل یا ججوں کے ساتھ
باہمی تال میل قائم کرتےہوئے شرعیہ قانون کی باریکیوں کو سمجھایاجائےیا
سمجھنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔روایتی تدابیر کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی
کا استعمال کرنے کیلئے بھی پیش رفت کی جاتی ہے تو بہت ہی بہتر نتائج سامنے
آسکتے ہیں۔اکثر اصلاحِ معاشرہ ،یہ کانفرنس وہ کانفرنس کےعنوان سے جلسے
منعقدہورہے ہیں،وہیں دوسری جانب شرعیہ قانون کو کھوکھلا کیاجارہاہے،ہر
دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تنازعہ ازدواجی معاملات کو لیکر پیش
ہورہاہے،ایسے میں گھرگھر جاکر انفرادی اصلاح کا کام تو ممکن نہیں ہے مگر ہر
مسجدیا محلے میں ایسی ٹیموں کو تربیت دی جاسکتی ہے جس میں وکلاء،علماء اور
دانشوران طبقہ شامل ہو۔طلاق وخلع کے معاملات عدالتوں تک جانے کے بجائے
مقامی سطح پر ہی حل کیاجائے تو یقیناً ان معاملات میں عدالتوں کی مداخلت کم
ہوسکتی ہے۔آج شرعیہ قانون میں اگر فرقہ پرست مداخلت کررہے ہیں تو اس کیلئے
مسلمان ہی کافی حدتک ذمہ دارہیں۔سوائے دارالقضاء یا ادارۂ شرعیہ کے کئی
کمیٹیاں ایسے فیصلے سُنا بیٹھتی ہیں جس سے خواتین یامردوں کے حق صلب ہوجاتے
ہیں،اگر شرعیہ قانون کے دائرے میں فیصلے ہونگے تو یقیناً کسی کے ساتھ
ناانصافی نہیں ہوگی۔جب مسلمان نکاح کیلئے ایک قاضی،ایک وکیل،ایک گواہ کی
موجودگی میں نکاح کا فیصلہ کررہاہے اور مہر پر اکتفاء کرتے ہوئے دو زندگیوں
کو ایک کررہے ہیں تو طلاق یا خلع کے معاملے میں کیوں دُنیا بھرکے لوگوں کو
شامل کرتے ہوئے شریعت کا رائتہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔اسلام مکمل ضابطۂ
حیات ہے،لیکن اس ضابطے پر عمل کرنے سے ہی کامیابی ہے،ورنہ مشکلات ہی مشکلات
ہیں۔اُن عورتوں سے پوچھیں کہ جو عدالتوں میں انصاف کیلئے مقدمے عائدکی ہوئی
ہیں،کیااُنہیں انصاف ملاہےیاپھر سکون حاصل ہواہے۔
|