خودی کی تیغ َ جگر دار

وہ اصطلاح جو فکرِ اقبال میں محور کا حکم رکھتی ہے اورجس کے گرد علامہ اقبال کاسارا فلسفہ گردش کرتا ہے خودی ہے۔علامہ اقبال کے تخلیقی عنصر سے قبل خودی کا لفظ غرور و تمکنت اور تکبر کے معنوں میں استعمال ہو تا تھا ۔ اس لفظ کو انا ،اکھڑ پن اور اکڑ پن سے تشبیہ دے کر انسان کے سخت گیرموقف اور غیر لچک شدہ رویوں کا اظہاریہ بنا یا جاتا تھا۔لیکن علامہ اقبال کا فکری کمال دیکھئے کہ انھوں نے قرن ہاقرن سے مستعمل معانی اور مفہوم کو بدل کر اس لفظ کو بالکل نئے اور جدا گانہ معانی کی خلعت پہنا دی جس سے اس کے قدیم معانی نظروں سے اوجھل ہو گے ۔کسی ادیب اور شاعر کی اس سے بڑی عظمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ مروجہ الفاظ کے معانی کو اپنی دانش سے نہ صرف بدل کر رکھ دے بلکہ انہی الفاظ کو نئے معانی پہنا دے اور دنیا اسے تسلیم بھی کر لے۔ خودی سے علامہ اقبال کا مفہوم کیا ہے اسے چند الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔اقبال کا سارا کلام ہی فلسفہ خودی کی تصویر ہے لہذا جب تک اقبال کے کلام کو سمجھا نہ جا ئے اس لفظ کے حقیقی معنی طشت از بام نہیں ہو سکتے۔کچھ لوگ اسے فرانسیسی فلاسفر ہنری برگسان اور جرمن شاعر نیطشے سے مستعار شدہ ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔نظریات اور خیالات میں تو مطابقت ہو سکتی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ خودی کا تصور کسی اور سے مستعار لیا گیا ہے۔علامہ اقبال نیطشے سے بے ھد متاثر تھے اور ان کی تحریروں کے بے حد مداح بھی تھے۔بقولِ اقبال نیطشے جیسی نثر یورپ کا کوئی دانشور اور فلسی نہیں لکھ سکا۔نیطشے نے تو اپنی خصوصی زبان بھی ایجاد کر رکھی تھی کیونکہ مروجہ زبان اس کے مفاہیم کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔لیکن اس کے کہیں بھی معنی یہ نہیں ہیں کہ تصورِ خودی نیطشے سے مستعار شدہ ہے۔اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔اگر ہم شاعری پر نظر ڈالیں تو محبوب کا حسن ، اس کا سراپا اور اس کے حسن کی جلوہ آرائیاں شاعری میں ایک ہی انداز میں بیان ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ہجرو فراق کا رونا دھونا ہویا وصل کی لذتوں کی قوس و قزاح ہو،یا ملن کی گھڑیوں میں چمکتے دمکتے رنگوں کی برسات ہو ،یہ سب ہر شاعر کے ہاں ایک جیسے انداز میں بیان ہو تے ہیں تو کیا اس سے یہ مفہوم اخذ کر لیا جائے کہ ہر شاعر کی شاعری مستعار شدہ ہے ؟علامہ اقبال کی ایک شعرہِ آفاق نظم ہے جس کا ایک شعر ان کی خودی کے سارے تصور کو کھول کر رکھ دیتا ہے ۔(خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا ﷲ)۔،۔خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الاﷲ)۔علامہ اقبال کا دعوی ہے کہ میرے تصورِ خودی کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے لیکن کچھ دانشور اسے پھر بھی برگسان اور نیطشے سے جوڑ دیتے ہیں۔کیا نیطشے اور برگسان واحدانیت کے کسی ایسے تصور پر یقین رکھتے تھے جو متذکر ہ بالا شعر میں بیان ہو اہے ؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر علامہ اقبال کے ساتھ اس طرح کی علمی بددیانتی کیوں ؟نیطشتے تو انسان کو مقامِ الوہیت پر فائز کرتا ہے جبکہ اقبال اس کی نفی کرتا ہے لہذا وہ تصور جسے علامہ اقبال نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا اور جسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی تھی اس تصور کو غیر ملکی فلاسفرز اور ادباء کی نذر کرنا علامہ اقبال کی عظمت کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔در اصل بہت سے ہم عصرجو علامہ اقبال کی عظمت پر پیچ و تاب کھاتے تھے، ان کی پذیرائی سے جلتے تھے، ان کی شہرت سے حسد کرتے تھے اور ان کے بلندا بالا مقام سے سوختہ جان بنے ہوئے تھے ان کے پاس علامہ کی عظمت کو کم کرنے کا یہی ایک حربہ تھا جو انھوں نے استعمال کیا لیکن وقت کے ہاتھوں انھیں منہ کی کھانی پڑی کیونکہ علامہ اقبال کی عظمت ایک خو شبو کی مانند سارے عالم کو اپنے حصار میں لیتی چلی گئی اور حاسدین اپنی ہی آگ میں جل کر خاک ہو گے۔علامہ اقبال نے انسانی خودی سے پیدا ہونے والے کمالات اور کیفیت کو اپنے دو اشعار میں جس طرح واضح کیا ہے وہ لاجواب ہے۔یہ بتانا اس لئے ضروری ہے تا کہ حاسدین کو یقین ہو جائے کہ اقبال کہاں کھڑا تھا اور نیطشے کہاں کھڑا تھا۔ مومن کی اذان کا بنیطشے کے فکری ڈھانچے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟(یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز ۔ ، ۔ نہیں معلوم ہوتی ہے کہاں سے پیدا۔،۔ (وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود۔،۔ ہوتی ہے بندہِ مومن کی آذاں سے پیدا)۔،۔

سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی شخصیت،انا ،ذات،انفرادیت کوئی مستقل حقیقت ہے یا محض فریب ِ تخی۔دنیا کی ہر قوم،ہر مذہب، ہر دانشور ، ادیب شاعر اور فلاسفر نے اس پچیدہ سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ان کی کاوشیں کس حد تک بار آور ہوئیں یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ۔افلا طون ،ان کے ہمنوا،حکمائے ایران اور ہندوستان کے پنڈت اور جوتشی اس نتیجہ پر پہنچے کہ کائنات میں صرف حیاتِ کلی کا وجود ہے لہذا انسانی ذات ،انا یا شخصیت فریب ِ نظر ہے۔یہ فریب صرف عمل کے زور پر قائم ، اور عمل کی بنیاد پر مشہود ہوتا ہے لہذا اس فریب سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ انسان ترکِ آروزو اور تر کِ عمل کرے اور اس طرح انسانی ذات کا حباب توڑ کر حیاتِ کلی کے بحر میں گم ہو جائے ۔اس فنائے ذات کا نام نجات اور مکتی ہے اور یہی زندگی کا سب سے ارفع و اعلی مقصود ہے۔یہی نظریہ ہمارے ہاں نظریہ واحدت الوجود کے نام سے رائج ہوا ۔عالمِ امثال کا نظریہ افلاطون کی فکری سوچ کی معراج تھا ۔افلا طون نے اپنے نظریہ کی حقانیت کا نقشہ یوں پھینچا ہے ۔ہ لکھتا ہے ( زنجیروں میں جکڑے ہوئے کچھ انسان کسی غار کے دہانے میں موجود ہیں۔ان انسانوں کے پیچھے آگ کے آلاؤ روشن ہیں جبکہ کچھ لوگ ظروف اٹھائے آگ کے سامنے سے گزرتے ہیں جھنیں جکڑے ہوئے انسان مڑ کر دیکھنے سے معذور ہیں وہ صرف دیوار پر پڑنے والے انسانی سائے ہی دیکھ سکتے ہیں جو کہ حقیقی نہیں۔ظروف اٹھائے ہوئے گروہ جب آگ کی روشنی کے سامنے سے گزرتے ہیں تو دیوار پر پڑنے والا سایہ ان کا حقیقی وجود نہیں ہوتا بلکہ وہ عالمِ امثال کی نمائندگی کرتا ہے) اس سے افلاطون نے یہ نظریہ اخذ کیا کہ اس دنیا کی کسی شہ کا وجود حقیقی نہیں۔سائے کی تشبیہ سے افلاطون نے یہ ثابت کیا کہ انسان کا وجود حقیقی نہیں ہے بلکہ حقیقی وجود صرف خدا کا ہے۔،۔

عالمِ امثال کیلئے افلاطون نے جو تشبیہ پیش کی تھی وہ صدیوں سے اہلِ دانش کے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے ۔یونانی فلسفہ کے ایران و ہند میں وارد ہونے کے بعد اکثر شعراء و ادباء نے افلاطون کی اس فکری منطق کو قبول کر لیا جس سے واحد ت لوجود کے نظریہ نے جنم لیا جس نے مسلمانوں جیسی ہمہ تن عمل قوم کو خاک کی آغوش میں سلا کر اس سے عمل و حر کت اور جستجو کا مادہ چھین لیا۔ ۔ شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی اس تصور کا بانی تھا ۔اس کی کتاب فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکم اس نظریہ پر لاجواب تصانیف کا درجہ رکھتی ہیں ۔ابنِ عربی ایک بہت بڑا مفکر،ادیب اور فلاسفرتھا جس نے پوری انسانی فکر کا دھارا بدل کر اسے تصوف کی گھاٹیوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیاتھا۔تصوف کا پورا نظریہ در اصل بحرِ خدا میں فنا ہو جانے کے گرد گھومتا ہے ۔بڑے بڑے مزارات،درگاہیں اور آستانے اسی فکر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ پیرِ طریقت پر موت وارد نہیں ہوتی بلکہ اس کا وصال ہو تا ہے اور وصال(فنا فی اﷲ ) پر آستانوں میں عرس منائے جاتے ہیں۔رب العالمین سے ملاقات کا جشن تو بنتا ہے اور یہی عرس کی روح ہے۔علامہ اقبال نے اس فلسفہ حیات کے خلاف مسلسل احتجاج کیا ۔ ان کی کتاب اسرارِ خودی اس احتجاج سے بھری پڑی ہے ۔(راہبِ دیرینہ افلاطون حکیم۔،۔از گروہِ گوسفنداں قدیم)۔،۔ (قومہا از سکرِ او مسموم گشت ۔،۔ خفت و از ذوقِ عمل محروم گشت ) افلا طون کی تعلیم کو عقل و شعور کا حامل انسان کس طرح قبول کر سکتا ہے؟اس کی فکری سوچ کے سحر نے مادہ کو مسخر کرنے کی بجائے اس سے بھاگنے کی تعلیم دی ۔اس نے زندگی کو چھوڑ کر موت کو نصب العین قرار دیا اور یوں عمل کی دنیا ویران کر دی جبکہ علامہ اقبال (خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔،۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تر ی رضا کیا ہے )کا علمبردار ہے۔(جاری ہے )۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.