چین کے صدر شی جن پھنگ نے ابھی حال ہی میں انڈونیشیا کے
جزیرے بالی میں منعقدہ 17 ویں جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کی اورمتعدد
عالمی رہنماؤں سے ملاقات میں دنیا کو درپیش سنگین مسائل کے حل پر مفصل
تبادلہ خیال کیا ۔اتفاق رائے پیدا کرنے اور یکجہتی کو مضبوط بنانے سے لے کر
باہمی تعاون کو فروغ دینے تک، شی جن پھنگ نے انڈونیشیا میں اپنے چار روزہ
قیام کے دوران اس حوالے سے اپنی بصیرت پیش کی ہے کہ کیسے دنیا بھر کے ممالک
عہد حاضر کے اہم چیلنجوں سے نمٹنے اور دنیا کو ایک محفوظ اور بہتر جگہ میں
تبدیل کرنے کے لئے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ان چیلنجوں سے نمٹنے کے
بارے میں ٹھوس چینی تجاویز کی ایک فہرست پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی اور
روشن مستقبل کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے چین کے عزم کا
اعادہ کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جی 20 جیسے کثیر الجہتی پلیٹ فارمز پر شی جن پھنگ کے
بیانات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان سے مضبوط عالمی اتفاق رائے
پیدا کرنے، بین الاقوامی تعاون کو آگے بڑھانے، عالمی اقتصادی نمو کو فروغ
دینے اور مشترکہ خوشحالی حاصل کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ دنیا ایک مرتبہ
پھر ایک چوراہے پر کھڑی ہے، اس کے مستقبل کا راستہ تمام ممالک کے لوگوں کے
انتخاب پر منحصر ہے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ آج دنیا مخلوط اور سنگین
چیلنجوں سے پریشان ہے ، جس میں شدید کساد بازاری کا بڑھتا ہوا خطرہ ، امیر
اور غریب کے مابین وسیع تر خلیج ، خوراک اور سلامتی کے بحرانوں میں اضافے
کے ساتھ ساتھ گروہی سیاست کی تشکیل اور محاذ آرائی کو ہوا دینے کی بڑھتی
ہوئی کوششیں بھی شامل ہیں۔ان چیلنجوں میں مزید اضافہ ایک بدلتا ہوا عالمی
جغرافیائی سیاسی منظر نامہ ہے جس میں بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی اور تنہائی
پسندی ، فرسودہ سرد جنگ کی ذہنیت کے ساتھ ساتھ من مانی پابندیوں کا سلسلہ
بھی شامل ہے جس نے معاشی بحالی کو فروغ دینے کے لئے بین الاقوامی تعاون کو
سنگین طور پر متاثر کیا ہے۔اس نازک لمحے میں جی 20 کے ارکان، جو مجموعی طور
پر دنیا کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد، عالمی تجارت کا 79 فیصد اور عالمی
معیشت کا کم از کم 85 فیصد ہیں، بالی میں جمع ہونے میں کامیاب ہوئے اور
دنیا کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے تبادلہ خیال کیا۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایک ذمہ دار بڑے ملک کے رہنما کی حیثیت سے
چینی صدر شی جن پھنگ نے بنی نوع انسان کو درپیش موجودہ چیلنجوں کے بارے میں
اپنے خیالات کی وضاحت کی اور جی 20 بالی سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب اور
عالمی رہنماؤں کے ساتھ دوطرفہ بات چیت میں بار بار "یکجہتی کے جذبے" کی
اپیل کی۔انہوں نے سربراہی اجلاس کے پہلے سیشن سے اپنے خطاب میں کہا کہ "میں
ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جی 20 کو اتحاد اور تعاون کے اپنے
بنیادی نصب العین کے لئے پرعزم رہنا چاہئے ، یکجہتی کے جذبے کو آگے بڑھانا
چاہئے اور اتفاق رائے کے اصول کو برقرار رکھنا چاہئے۔ یکجہتی طاقت ہے، لیکن
تقسیم کا حاصل کچھ نہیں ہے". انہوں نے واضح کیا کہ تمام ممالک کو عہد حاضر
کے مسائل سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے ، تمام ممالک کو ایک دوسرے
کا احترام کرنا چاہئے ، اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے مشترکہ بنیاد تلاش
کرنی چاہئے ، امن کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہئے اور ایک کھلی عالمی معیشت کو
فروغ دینا چاہئے۔چین کی جانب سے تمام جی 20 ممبران پر زور دیا گیا کہ وہ
بڑے بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی ہونے کی ذمہ داری قبول کریں ، تمام
اقوام کی ترقی کو فروغ دیں ، پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے
اور پوری دنیا کی ترقی کو آگے بڑھانے میں مثالی رہنمائی کریں۔سمٹ سے خطاب
کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے تین نکاتی تجویز پیش کی جس میں عالمی ترقی کو مزید
جامع، سب کے لیے فائدہ مند اور مزید لچکدار بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا
ہے۔دریں اثنا،چین کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ ترقی صرف اُسی معنوں میں
حقیقی تصور ہو گی جب تمام ممالک مل کر ترقی کریں گے، اور یہ کہ خوشحالی اور
استحکام ایسی دنیا میں ممکن نہیں ہے جہاں امیر امیر تر ہوتے جائیں جبکہ
غریب کو غریب تر بنا دیا جائے۔چین نے ایک مرتبہ پھر ترقی پزیر اور کم ترقی
یافتہ ممالک کے حقوق کی ترجمانی کرتے ہوئے ترقی یافتہ معیشتوں پر زور دیا
کہ وہ مخلصانہ طور پر دوسروں کی ترقی میں مدد کریں اور زیادہ سے زیادہ
عالمی بھلائی میں "پبلک پراڈکٹس" فراہم کریں۔چین کا بیانیہ بالکل واضح ہے
کہ تمام بڑے ممالک کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں اور مشترکہ عالمی ترقی
کے لیے اپنی پوری کوششیں کرنی چاہیں ،یہی دنیا میں پائیدار اور مستحکم ترقی
و خوشحالی کی ضمانت ہے۔
|