بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی
عابد شخص تھا ،جس نے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کرلی
اور سمندر میں ایک چٹان پر چھپّر بناکر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوگیا۔
شریعت محمدی ﷺ میں رہبانیت اختیار کرنا جائز نہیں ۔ سابقہ امتوں میں یہ
جائز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے کھانے پینے کے لئے اس چٹان پر یہ
انتظام کیا کہ وہاں میٹھے پانی کا ایک چشمہ نکل آیا جس سے اسے ٹھنڈا
پانی ملنے لگا۔ اور وہیں انار کا ایک درخت بھی اللہ نے اگادیا ، جس سے
بڑے بڑے انار اس کو ملنے لگے ۔ وہ روزانہ ایک انار کھاتا اور ایک گلاس
پانی پی لیتا اور سارا دن اور ساری رات عبادت میں مصروف رہتا۔
اس شخص نے پانچ سو سال کا عرصہ اسی طرح گزاردیا ۔ جب اس کے انتقال کا
وقت آیا تو اس نے اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ! میری ساری زندگی تیری
عبادت میں گزری ہے ، اب میرا آخری وقت آپہنچا ہے ، میری خواہش ہے کہ جب
میری موت آئے تو میں سجدے کی حالت میں ہوں اور میرے بدن کو تو تاقیامت
محفوظ رکھنا ۔ تاکہ جب میں قیامت کے دن اٹھایا جاﺅں تو سجدے کی حالت
اٹھوں۔ اللہ رب العزت نے یہ دعا قبول کرلی اور سجدے ہی کی حالت میں اس
کا انتقال ہوا۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آج تک اس کا جسم سجدے کی حالت میں
موجود ہے اور اس کے گرد اس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے گھنے درخت
پیدا کردیئے ہیں۔ لوگ اس جگہ جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اگر لوگوں کی
رسائی اس مقام تک ہوجاتی تووہ مقام پوجا پاٹ کا مرکز بن جاتا ۔ اللہ
تعالیٰ نے وہاں بڑے بڑے اور گھنے درخت اگا کر لوگوں کے دلوں میں اس جگہ
کی ہیبت پیدا کردی تاکہ لوگ شرک میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد بارگاہ ِ الہٰی میں جب اس کی پیشی
ہوئی ، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میرے بندے ! میں نے اپنے فضل و
کرم سے تجھے بخش دیا اور ملائیکہ کو حکم دیا کہ میرے اس بندے کا نام
جنت کے اعلٰی مقام میں لکھ دو۔ اس عابد کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں
نے پانچ سو سال تک عبادت کی، بیوی بچوں کو چھوڑ دیا اور ساری دنیا سے
بے نیاز ہوکر سمندر کی چٹان پربیٹھ کر عبادت میں مصروف رہا اور آج اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تجھے اپنے فضل سے بخش دیا۔ تو میری وہ
عبادت کہاں گئی! کم از کم میرے دلجوئی کے لئے ہی کہہ دیتے کہ تیری
نمازوں، تیرے روزوں اور تیرے ذکر و فکر کی بدولت تجھے بخش دیا ، بلکہ
اس قدر عبادت و ریاضت کے باوجود کہا جارہا ہے کہ ہم نے اپنے فضل سے
تجھے بخش دیا۔ گویا میری ساری عبادت بے کار گئی؟
اللہ رب ا لعزت جو دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو بھی جانتا ہے اس
نے فرشتوں کو حکم دیا کہ بجائے جنت کی طرف لیجانے کے اسے جہنم کی طرف
لے جاﺅ لیکن اسے جہنم میں داخل مت کرو ، بلکہ جہنم سے پانچ سو میل کے
فاصلے پر رکھو جہاں پر اس کو جہنم کی آگ کی تپش شدت محسوس ہو ۔ فرشتوں
نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے وہاں پہنچادیا۔ ایک دم جو اسے جہنم کی
تپش محسوس ہوئی تو بلبلا اُٹھا ، اور پیاس پیاس پکارنا شروع کردیا ۔
جہنم سے اتنی دوری کے باوجود اسے ایسی پیاس لگی کہ پورا جسم خشک کانٹا
بن گیا ۔ اسی اثنا میں ایک ہاتھ نمودار ہوا جس میں ٹھنڈے پانی کا ایک
کٹورا تھا۔ یہ عابد دوڑا کہ اے اللہ کے بندے ! مجھے پانی پلانا ، پیاس
کی شدت نے مجھے بے حال کردیا ہے۔ وہ ہاتھ پیچھے ہٹ گیا اور آواز آئی کہ
یہ پانی تو تجھے مل جائے گا مگر اس کی قیمت ہے ۔ عابد نے کہا کیا قیمت
ہے! جواب ملا پانچ سو سال کی عبادت۔ عابد نے کہا کہ پھر مجھے پانی
پلادو ، میرے پاس پانچ سو سال کی عبادت ہے اور بڑی خالص عبادت ہے اس
میں کسی قسم کا نفاق شامل نہیں، اور اپنی عبادت دیکر ایک کٹورہ پانی
حاصل کرلیا۔ جب پینے کے بعد کچھ جان میں جان آئی تو اللہ رب العزت نے
فرشتوں سے کہا اس کو واپس لاﺅ۔ فرشتوں نے اسے پھر اللہ کے دربار میں
پیش کردیا ۔
اللہ رب العزت نے فرمایا ! اے میرے بندے ! اب پانچ سو سال کی عبادت تو
توُ نے پانی کے ایک کٹورے کے بدلے میں دیدی، لیکن دنیا میں تُو پانچ سو
سال تک جو چشمے کا ٹھنڈا پانی پیتا رہا اس کا حساب دے۔ سمندر کی چٹان
پر میں تیرے لئے انار کا جو درخت لگادیا تھا اور توُ پانچ سو سال تک اس
کا پھل کھاتا رہا ، اس کا حساب دے ۔ تو نے دنیا میں میری پیدا کردہ ہوا
کے جتنے سانس لئے ان کا حساب دے، ان کے بدلے میں تیرے پاس کتنی عبادت
ہے؟ ہم نے تجھے صحت دی، دیکھنے کو آنکھیں دیں۔ سننے کو کان دیئے ۔بولنے
کو زبان دی۔ اس کے علاوہ ان گنت نعمتیں میں نے تجھے عطا کیں۔ ان تمام
نعمتوں کے بدلے میں کتنی نمازیں، کتنے روزے، کتنے نوافل لے کر آیا ہے؟
تو نے پانچ سو سال تک اگر عبادت کی ہے تو اس عبادت کے لئے میں نے ہی
تجھے طاقت و ہمت عطا کی تھی ، اس طاقت کے بدلے میں کتنی عبادت تیرے پاس
ہے؟ تجھے عبادت کرنے کی طاقت ہم نے دی ، ارادہ ہم نے دیا، توفیق ہم نے
دی ، دانہ پانی ہم نے دیا پھر بھی تجھے یہ دعویٰ ہے کہ میں نے بہت کچھ
کیا اور آج اس کا بدلہ چاہتا ہے؟ ارے تو نے جو کچھ کیا وہ تو سب ہماری
مہربانی سے کیا، بتا تونے اپنی طرف سے کیا کیا؟ اگر کچھ ہے تو پیش کر۔
یہ سن کر عابد لرز گیا اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا ”یا اللہ! بے شک
نجات آپ کے فضل سے ہوتی ہے کسی کے عمل سے نہیں ہوتی۔ عمل کی تو یہ قدر
و قیمت ہے پانچ سو سال کی عبادت کرے اور بس ایک کٹورہ پانی پی لے۔
(خطبات ِ حکیم الا السلام ج۲ ص۹۳۲)
اس واقعہ میں یہ نصیحت پوشیدہ ہے کہ انسان کو اپنی عبادت و ریاضت پر
مغرور نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر انسان کسی قدر عبادت کرلیتا ہے تو اسے
اپنا کمال نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کافضل وکرم سمجھے کہ اس نے اسے
اپنے دربار میں آنے کی توفیق عطا کی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ پانچ سو سال کی
عبادت دھری کی دھری رہ گئی ، اور نجات کا ذریعہ اللہ کا فضل قرار پایا۔
اللہ کے فضل کی علامت انسان کا نیک عمل ہے۔ نیک اعمال اس حقیقت کو ظاہر
کرتے ہیں کہ اس شخص پر اللہ کاکتنا فضل ہے ، ورنہ اُسے ہماری عبادت کی
ضرورت نہیں، عبادت ہم اپنی بہتری کے لئے کرتے ہیں۔بے شک اللہ بے نیاز
ہے۔ |