جنگجوؤں کا دفاع : وہ شہریوں کو کیوں قتل کرتے ہیں ،ریاست پر کیوں حملہ کرتے ہیں

ازصبا امتیاز : اشاعت: ۲۰ اگست ،۲۰۱۱ مفتی ابو زر خنجاری ، جو کہ حرکت اسلامی ،ازبکستان سے ہیں اور جن کا تعلق لشکر جھنگوی کے قاری ظفر گروپ سے ہے اور پاک فوج کے ایک مذہبی سکالر کے درمیان وائیرلیس سیٹ پر ،شکوتی ،جنوبی وزیرستان کے مقام پر ایک مذہبی مباحثہ ہوا جس میں مفتی ابو زر خنجاری نے طالبان کے ہاتھوں مساجد کی تباہی،عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی شرعی حثیت،امریکی امداد کی قبولیت، پاک فوج کو مرتد قرار دینا،مساجد میں لوگوں کا قتل،بنکوں کو لوٹنااور اغوا برائے تاوان اور نہتے شہریوں پر طالبان کے حملے و دیگر معاملات پر طالبان کے موقف کا دفاع کیا ۔
مکمل ریکارڈنگ و بحث کو پڑھنے کے لئے یہاں جائیے: https://tribune.com.pk/story/235565/defending-militancy-why-they-kill-civilians-attack-the-state

مجھے مفتی ابوزر خنجاری کے تنگ نظر اور گمراہ کن خیالات سے بالکل اتفاق نہ ہے کیونکہ یہ قرآن و حدیث اور اسلامی شریعہ سے مطابقت نہ رکھتے ہیں۔

چند برسوں سے وطن عزیز پاکستان مسلسل خود کش حملوں کی زد میں ہے۔ بے گناہ لوگوں کا قتل اور املاک کی بے دریغ تباہی ہو رہی ہے۔دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اللہ کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور احکام قرانی کا اتباع نہ کیا جائےتو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، یہ عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔

اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کو قتل کرتے ہیں۔

کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔

ایک مُسلم معاشرے اور مُلک میں ایک مُسلمان دوسرے مُسلمان کی جان کا دُشمن ۔مُسلمانیت تو درکنار انسا نیت بھی اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی بے گناہ کا خون کیا جائے۔یہ سفاکانہ دہشت گردی کرنے والے عناصر انسانیت کے قاتل ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسانوں کے روپ میں بھیڑیئے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے دہشت گردی کا تسلسل ملک کی سالمیت، قومی یکجہتی اورمعیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے، اس پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اور موثر لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم حکمت عملی وضع کرنا ہو گی تاکہ اس ناسور کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو سکے،

اللہ تعالہ فرماتے ہیں:
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(

کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)

وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔
تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”

مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔

” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔”
صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”

مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)

مساجد کی حرمت کے بارہ میں قران میں ارشادہے :
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے ۔۔۔ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے ۔
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 114 )

مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ مسجد میں اللہ ہی کی عبادت کی جاتی ہے ۔

اورمسجد کی اہمیت وخصوصیت کے بارے میں اللہ کے رسول فرماتے ہیں :
أحب البلاد إلى الله مساجدها
اللہ کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں ۔
( مسلم ، کتاب المساجد ، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد ، حدیث : 1560 )
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ {التوبہ18}

قرآن کریم میں مساجد کی تعمیر کو اہل ایمان کی صفت قرار دیا گیا ہے:
”انما یعمر مساجد اللّٰہ من آمن باللّٰہ و الیوم الآخر و اقام الصلوٰة و اتی الزکوٰة و لم یخش الا اللّٰہ… الخ۔“ (التوبہ:۱۸)

مساجد بنانے والے اور ان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والے‘ نبی آخر الزمان‘کی ‘زبانی ”اللہ کے پڑوسی‘ اللہ کے اہل‘ اللہ کے عذاب کو روکنے کا سبب اور اللہ کے محبوب“ کا خطاب پانے والے ہیں۔

خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے
مسجد کو شریعت میں اللہ تعالٰی کا گھر کہا گیا اور اسکی نسبت اللہ کی طرف کی گئی :
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا{الجن18}
اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو
ومااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ۔۔۔۔ الحدیث
{ مسلم عن ابی ھریرۃ}

کسی علاقے میں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کی آواز کا نہ آنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ بستی مسلمانوں کی نہیں ہے :
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر الیھم فان سمع الآذان کف عنہم وان لم یسمع اغار علیہم الحدیث
{ متفق علیہ عن انس}

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد بنانے اور مسجد کے قریب رہنے والے کی اہمیت و فضیلت اپنے فرامین میں کچھ اس طرح ارشاد فرمائی ہے کہ: مساجد زمین میں اللہ کے گھر‘ مساجد زمین کے بہترین ٹکڑے‘ مسجد میں آنے والے اللہ کے مہمان‘ مساجد جنت کے باغات‘ مساجد آخرت کے بازار‘ مسجد کے قریب رہنے والے کی ایسی فضیلت جیسے مجاہد کی جہاد سے معذور پر‘ مساجد ہر مومن کا گھر ہیں‘ مساجد بنانے اور اس کو وسعت دینے والے جنت میں اپنا محل بناتے ہیں‘ مسجد میں قندیل (بلب‘ ٹیوب لائٹ وغیرہ) لٹکانے والے کے لئے اس وقت تک ستر ہزار فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ قندیل باقی رہے‘ اسی طرح مسجد میں چٹائی (فرش وغیرہ) بچھانے والے کے لئے ستر ہزار فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ چٹائی استعمال ہوتی رہے۔

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج پاکستان میں، القاعدہ سے تعلق رکھنے والے طالبان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں اللہ کے گھر اور اولیا اللہ کے مزار بھی محفوظ نہ ہیں۔ طالبان دہشت گردوں نے پچھلے ۱۰ سالون میں لا تعداد مساجد کو بے رحمانہ طریقے سے اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ۱۱۶۵ نمازیوں کو قتل کر کے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور ۲۹۰۰ نمازیوں کو زخمی کر دیا، جن میں بچے،بوڑھے اور نوجوان شامل ہیں۔ آجکل مساجد میں عبادت گزار وں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی لذت اورعبادت کی سعادت کی بجائے اپنی جان کے لا لے پڑے ہوتے ہیں۔ تحریک طالبان،جند اللہ اور لشکر جھنگوی اور طالبان سے الحاق شدہ دوسری مذہبی جماعتوں و گروپوں نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔

اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان ،مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔طالبان اور القائدہ دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اسلام کے نفاز کے نام پر اور شریعتِ محمدی کے نام پر، لوگوں کی املاک جلا رہا ہے اور بنکوں کو لوٹ رہا ہے ۔ معصوم اور نہتے لوگوں کو قتل کرتا ہے۔قتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے،مساجد پر حملے کرتا ہے۔بچوں اور عورتوں پر حملے کرتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے سکول جلاتا ہے۔ طالبان اور القائدہ موت کے فرشتے بن کر معصوم انسانوں کا ناحق خون بہانے میں دن رات مصروف ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام سے دور رکھنے میں خاصے کامیاب ہیں۔اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے طالبان اسلام کا نام بدنام کر رہےہیں۔

طالبان پاکستان مین اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعوی انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے۔

جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہیں۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ "دہشت گردی ہے جہاد نہیں"۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیں‌دیا جاسکتا ۔ طالبان ملا عمر کے Code of Conduct اور شیخ عطیہ اللہ کے بیان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

طالبان نے ملا عمر کی بیعت کی ہوئی ہے،ملا عمر پاکستان پر حملوں، مساجد اور سکولوں و معصوم لوگوں پر حملوں کو برا سمجھتے ہیں مگر TTP ملا عمر کی بیعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس طرح ملا عمر کی بیعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

مفتی ابو زر خنجاری کے خیالات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کمانڈر فضل سعید حقانی کے طالبان سے متعلق لگائے گئے تمام الزامات درست ہیں۔

دہشت گردی کی تمام صورتیں اور اقسام انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔ اسلام کسی حالت میں بھی دہشتگردی اور عام شہریوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت اسلام کےانہی سنہری اصولوں پر کاربند ہے۔ دہشت گردی و خود کش حملے اسلام کے بنیادی اصولوں سےانحراف اور رو گردانی ہے۔ طالبان اور حرکت اسلامی ازبکستان گمراہ لوگوں کا گروپ ہے، جن کا اسلام سے کسی قسم کا تعلق و واسطہ نہ ہے۔

رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ کی حالت مین بھی غیر فوجی عناصر کو قتل نہ کیا جاوے۔ ویسے بھی طالبان کا جہاد ،پاکستان کے اور مسلمانوں کے خلاف مشکوک اور غیر شرعی ہے۔ مزید بران یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے۔

کچھ دینی و سیاسی راہنما اور دینی وسیاسی جماعتیں کھلم کھلا طالبان کی حمایت اپنے وقتی مفادات و مقاصد کی تکمیل کے لئے کررہی ہیں ،یہ جانتے اور بوجھتے ہوئے بھی کہ طالبان اور القائدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں اور خودکش حملے،کھلم کھلا قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات وملکی قوانین کے سراسر منافی ہین اور ملکی مفادات کے بالکل خلاف ہیں۔ یہ لوگ اپنی جان کے خوف اور طالبان کے ڈر کی وجہ سے ان میں یہ ہمت نہ ہے کہ وہ طالبان کی مخالفت کریں۔حالانکہ پاکستان کے اندر جتنی بھی پرتشدد کارروائیاں ہورہی ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ فتنہ ہیں۔جب تک علماء جہاد کا صحیح معنی و مفہوم لوگوں کے سامنےپیش نہیں کریں گے لوگوں کو جہاد کے بارے میں پتہ نہیں چلے گا۔

اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان، دہشتستان بن گیا ہے ۔ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔ ۳۵ ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔ کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہین۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتین ختم ہوئیں ،بیروزگاری میں اضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارے معاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والے بھی محفوظ نہ ہیں ۔

لہذا تمام اہل دانش اور علمائے کرام کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں طالبان اور القائدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کر کے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
Amir Nawaz Khan
About the Author: Amir Nawaz Khan Read More Articles by Amir Nawaz Khan: 32 Articles with 27175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.