دنیا ہی ہمارے لیے سب کچھ نہیں

دنیا کیا ہے؟ یہ ہمیں کیوں اچھی لگتی ہے؟ کیوں ہم نے اسے ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے؟ ہم اسے حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ دائو ں پر لگا دیتے ہیں، اس کے حصول کے لیے ہم اپنوں کا خون تک کر دیتے ہیں آخر کیوں؟
تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عالیشان محل بنا لینا، اپنی آل واولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ جائداد اکٹھی کر دینا، ہر جائز و ناجائز حدیں پار کرکے اعلی عہدوں پر براجمان ہونے کا خواب دیکھنا، عیش وآرام کی جملہ سہولتیں دستیاب کرلینا ہی ہم نے اپنی زندگی کا مقصد اصلی اور نصب العین سمجھ لیا ہے۔
آیئے دیکھیں اس سلسلے میں قرآن ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے، کیوں کہ اتنا تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ عزوجل کا کلام ہے اور اس کا حرف حرف درست اور سچ ہے اس سے سرِ مو انحراف کی قطعا ً کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا کا خالق و مالک اللہ تعالی ہی ہے پھر اس سے بہتر اس کی حقیقت کے بارے میں کون بتا سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ(۱) ’’ وماالحیاۃ الدینا الا متاع الغرور‘‘ (آل عمران: آیت ۱۸۵) ترجمہ (اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔ کنزالایمان) (۲) ’’ فلا تغرنکم الحیاۃ الدنیا و لا یغرنکم باللہ الغرور‘‘ (لقمان: ۳۳) ترجمہ ( تو ہر گز تمھیں دھوکہ نہ دے دنیا کی زندگی اور ہرگز تمھیں اللہ کے علم پر دھوکہ نہ دے وہ بڑا فریبی یعنی شیطان) (۳) ’’ و ماالحیاۃ الدنیاالا لعب ولھو‘‘(الانعام:۳۱) ترجمہ (دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود)(۴) ’’انما مثل الحیاۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض مما یاکل الناس والانعام حتیٰ اذا اخذت الارض زخرفہا و ازینت وظن اہلہا انہم قٰدرون علیہا اتاہا امرہا لیلاً او نہاراً فجعلناہا حصیداً کان لم تغن بالامس‘‘(یونس: ۲۳؍۲۴) ترجمہ (دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسے ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اسکے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں سب گھنی ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہو گئی اور اسکے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی،ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں ،تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں۔(کنزالایمان)(۵) ’’تریدون عرض الدیناواللہ یرید الآخرۃ واللہ عزیز حکیم ‘‘(الانفال: ۶۷) ترجمہ ( تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۶) ’’ قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃخیر لمن التقیٰ‘‘ (النساء :۷۷) ترجمہ ( تم فرمادو کہ دنیا کا برتنا (دولت) تھوڑا ہے اور ڈر والوں کے لیے آخرت اچھی) کنزالایمان۔
یہ ہے اس رب ذوالجلال کا فرمان جس نے دنیا کو پیدا کیاہے دنیا بنانے والے کا فرمان ہے ، دنیا دھوکے کا گھر ہے، دنیا کھیل کود ہے، دنیا کی مثال ان ہری بھری کھیتوں یا سبزو شاداب درختوںکی طرحہے، اس کی رنگینیاں ہماری نظر کا دھوکہ ہیں،یہ نظر کچھ آتی ہے پر حقیقت میں کچھ اور ہے، یہ کھیل کود ہے جس کی مدت بس تھوڑی سی ہے، اس کی ہریالی بس چند روزہ ہے پھر یہ مرجھاجاے گی ، اس کا بہار خزاں میں تبدیل ہو جاے گا۔ اے دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت برباد کرنے والے یہ تو سراب ہے جسے دور سے انسان پانی سمجھتا ہے مگر قریب جائو تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں صرف ریت کے انبار ہیں، اس کے لیے ہم پوری زندگی دائو پر لگا دیتے ہیں مگر بالآخر ہوتا یہ ہے کہ نہ عالیشان بلڈنگ ہمارے کام آتی ہے ، نہ آل و اولاد ہمارے ساتھ جاتے ہیں، نہ ہماری بیوی ہمارے لیے چند آنسو بہانے کے سوا کچھ کر سکتی ہے، وہ ماں باپ جنھوں نے اپنی جان کی طرح ہماری پرورش اور پرداخت کی تھی وہ ایک دن بے بس ہوجاتے ہیں،دنیا کے تمام ڈاکٹر اور سائنس داں عاجز ہوجاتے ہیں، ہماری ساری آرام و آشائش کی اشیا دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، اور موت کا فرشتہ ایک لمحہ میں ہمیں ان سب سے بے دخل کر دیتا ہے، ہماری ساری دولت دوسروں کو منتقل ہوجاتی ہے، ہمارے پس ماندگان ہمارے لیے چندروایتی آنسو بہا کر ہماری دولتیں بانٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں، ہمارے بینک بیلنس تلاش کرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں، جسم سے زیور پہلے اتارا جاتا ہے آنکھیں بعد میں بند کی جاتی ہیں مردہ جیب کی تلاشی پہلے کی جاتی ہے، قرآن کی تلاوت بعد میں ہوتی ہے، اور جلدی جلدی نہلا دھولا کر منو ں مٹی تلے دفنانے کی تیاری ہونے لگتی ہے اور آخر کار ہمیں تاریک گوشے کے حوالے کر دیا جاتا ہے،
ایسی بھولی ہے کائنات مجھے
جیسے میں جزوِ کائنات نہیں
یہ ہے دنیاجسے ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے جس کے زلف کے ہم اسیر ہیں جس کے دام فریب میں پڑ کر ہم نے اپنا سراپاکھو دیا ہے جسے ہم نے اپنی توجہ کا مرکز اور محور بنا لیا ہے جسے پاکر ہم نے اپنے مالک و خالق کو بھلا دیا ہے۔
دنیا کی حقیقت مختار کائنات ﷺ کے نزدیک
نبی کریم ﷺ جن کی خاطر اللہ عزو جل نے تمام جہانوں کو پیدا فرمایا وہ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتاوہ نہ تھے تو کچھ نہ تھا، خود اللہ رب العزۃ کا فرمان حدیث قدسی میں ہے ’’لولا ک لما خلقت الافلاک والارض ‘‘ (اے محبوب اگر میرا تمھیں پیدا کرنا منظور نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا) اسی کی ترجمانی امام عشق و محبت حضور اعلیٰ حضرت یو ں فرماتے ہیں۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھاوہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
ہاں ہاںیہی وہ شمع ہے جن کی نورانی کرنوں سے اللہ رب العزۃ نے تمام جہانوں کو روشن فرمایا ہے، یہ وہ محبوب ہیں جن کے لیے خود خالق کائنات کا ارشاد ہے ’’ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘ (اے محبوبﷺ! میں آپ کو اتنا دوں گا جس سے آپ راضی ہو جائیں گے) آپ غور فرمائیں۔
اگر آج کا کوئی دنیاوی بادشاہ یا وزیر ہمیں ایسا اختیار دیدے تو ہم کیا کچھ نہیں اس سے مانگ لیں گے، ہم تو اتنا مانیں گے کہ جو ہماری کئی نسلوں کے لیے بھی کم نہ ہو، خود میرے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’لوشئیت لسارت معی جبال الذہب والفضۃ‘‘ مشکوٰۃ شریف ( اگر میں چاہوںتو سونے چاندی کے پہاڑ میرے دائیں بائیں چلیں)
اسی لیے تو ہمارے بزرگوں نے جب نبی کی سب سے افضل و اعلی تعریف کرنی چاہی تو بس اتنا کہہ کے خاموش ہوگیے ۔’’لا یمکن الثناء کما کان حقہ، بعد از خدا بزرگ ایں قصہ المختصر‘‘
آئیے دیکھیں اس ذیشان نبی اور اللہ کی عطا کردہ طاقت سے ہر شئے کے مختار رسول ﷺ کا اس دنیا کے متعلق ارشاد ہے، چشم عبرت سے پڑھیں اور نصیحت کا سامان کریں۔
(۱) ایک دن آقاے کریم ﷺ ایک مردار بکری کے پاس سے گذرے تو صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا اسے دیکھ رہے ہو یہ مردار بکری کس قدر ذلیل و خوار کوئی اسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ قسم ہے اس معبود کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے دنیا اللہ وعزوجل کے حضور اس سے بڑھ کر ذلیل و خوار ہے اگر اللہ تعالی کے نزدیک اس کی قدروقیمت ایک ذرے کے برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔
(۲) آقا فرماتے ہیں دنیا سے بچو، یہ ہاروت ماروت سے بڑھکر جادو ہے۔
سچ ہے جادو گر کا جادوتو ہمارے جسم پر اثر ڈالتا ہے مگر جب دنیا کا جادو چلتا ہے تو جسم و روح دونوں برباد ہوجاتے ہیں، دنیا تو ہاتھ میں ہوکر بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے ، طرفہ تماشہ یہ کہ آخرت کو بھی برباد کردیتی ہے، بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہماری مونس و غم خوار ہے، ہمیشہ ہمارے ساتھ رہنے والی ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہمار ا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، ہم کف افسوس ملتے ہیں اور وہ دور کھڑی ہماری حماقت پر مسکرا رہی ہوتی ہے کیوں کہ ہم نے فقط اس کے نقاب پوش زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کو دیکھا ہے، پردہ ہٹاکر اس کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ اس پردہ زر نگاری کے اندر کتنی بدنما اور قبیح صورت چھپی ہے ۔
آقا فرماتے ہیں کہ اس دنیا کو بروز قیامت ایک بد صورت بڑھیا کی شکل میںلایا جاے گا ، آنکھیں دھنسی ہوں گی، دانت باہر نکلے ہوں گے، شکل اتنی خوفناک اور ڈراونی ہوگی کہ لوگ خوف کے مارے اللہ سے پناہ طلب کریں گے اور پوچھیں گے کہ مولا!یہ کون ہے؟ آواز آئے گی کہ یہی تو تمھاری وہ محبوبہ ہے جس پر تم دل وجان سے قربان ہونے کو تیار رہتے تھے جس کے لیے تم ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑے پر آمادہ رہتے تھے ، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے۔
پھر اس بدصورت دنیا کو جہنم میںڈالنے کا حکم ہوگا ، وہ پکارے گی مولا! میرے عاشق اور دیوانے کہاں ہیں ؟ حکم ہوگا اسے اس کے دوستوں کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جاے سچ کہا ہے مجدد دین وملت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ الرضوان نے:
دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حرافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل ڈائن شوہر کش
اس مردار پہ کیا للچایا دنیا دیکھی بھالی ہے
ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
انما الدنیا فناء لیس للدنیا ثبوت
دنیا کو ایک دن فنا ہو جانا ہے اس کے لیے بقا نہیں ہے
انما الدنیا کبیت نسجتہ العنکبوت
دنیا کی حیثیت مکڑی کے گھر سے زیادہ کچھ نہیں ہے
حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ طالب دنیا کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو سمندر کے کنارے کھڑا پانی پی رہا ہو اور اس کی پیاس بڑھتی ہی جارہی ہویہاں تک کہ وہ اپنی جان گنوا بیٹھے۔ یقینا دنیا کے حریص کا عالم یہی ہے وہ جس قدر بھی دنیا کی دولتیںحاصل کرلے مگر اس کی لالچ کم نہیں ہوتی تاآں کہ موت کا فرشتہ آپہونچتا ہے۔
دنیا کو آخرت کے لیے کیسے مفید بنائیں
گذشتہ تحریر میں آپ نے دنیا کی بے ثباتی، عیاری و مکاری کے متعلق اللہ عز وجل اور اس کے حبیب ﷺ کا فرمان پڑھ لیا مگر اب آئیے اس کو بامقصد اور مفید بنانے کے لیے قرآنی اور نبوی اصول کی جانکاری حاصل کرتے ہیں۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کو عبث اور بے کار نہیں پیدا فرمایا ہے پھر اتنی بڑی دنیا کے بارے میں یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ اسے بے مقصد بنایا گیا ہوگا یقینا اس کے پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے اگر رب کی اسی مشیت کے مطابق ہم دنیا میں اپنی زندگی گذاریں تو اس کی ساحرانہ نگاہیں ہم پر ہرگز اثر انداز نہیں ہوسکتیں، ہم اس کے طلسم اور مکر وفریب سے بچ سکتے ہیں۔
دنیا کو اگر اللہ تعالیٰ کے رضا کے مطابق حاصل کریں، نیک اعمال کریں، طہارت و پاکیزگی اپنا نصب العین بنائیںتویہ دنیا ہمیں اللہ کی رضا ، نبی کریم کی خوشنودی اور جنت دلانے کا سبب بن جائے گی۔ اللہ عزوجل کا ارشادہے ’’ للذین احسنوا فی ہذہ الدنیا حسنۃ لدارالآخرۃ خیر ولنعم دارالمتقین‘‘ (النحل: ۳۰) ترجمہ: جنھوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہے اور بے شک پچھلا گھر (آخرت) سب سے بہتر ہے اور ضرور کیا ہی اچھا پرہیز گاروں کا۔
’’والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا وخیر عملاً‘‘ (الکہف: ۴۶) ترجمہ: اور باقی رہنے والی اچھی باتیں ان کا ثواب تمھارے رب کے یہاں بہتر اوروہ امید میں سب سے بھلی۔ ’’ ومنہم من یقول ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار‘‘ (البقرۃ:۱۰۲) ترجمہ: اللہ کے نیک بندے وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں دنیا و آخرت دونوں میں بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچا۔
’’وابتغ فی ما عطاک اللہ الدار الآخرۃ ولا تنس نصیبک من الدنیا‘‘ القصص: ۷۷) ترجمہ: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول۔
’’ من اراد الآخرۃ و سعیٰ لہا سعیہا وہومؤمن و اولٰیک کان سعیہم مشکوراً ‘‘ (الاسرائ:۱۹) ترجمہ: اور جو آخرت چاہے اور اس کے لیے کوشش کرے اور ایمان والا ہو تو اس کی کوشش ٹھکانے لگی۔
’’الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیہم و لا ہم یحزنون ٭الذین آمنوا و اکانوا یتقون لہم البشریٰ فیالحیاۃ الدنیا و فی الآخرۃ٭لا تبدیل لکلمات اللہ ذلک ہو الفوز العظیم‘‘ (یونس:۶۲،۶۴) ترجمہ: سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم، وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں انھیں خوش خبری ہے دنیا کی زندگی اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔
’’من کان یرید ثواب الدنیا فعند اللہ ثواب الدنیا والآخرۃ و کان اللہ سمیعا بصیرا‘‘(النساء :۱۳۴) ترجمہ: جو دنیا کا انعام چاہے تو اللہ ہی کے پاس دنیا و آخرت دونوں کا انعام ہے اور اللہ سنتا دیکھتا ہے۔
دنیا امتحان کا گھر ہے ، آزمائش کا مقام ہے ، یہاں ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی ہے پھر اگر ہم اس کی رنگینوں میں کھوکر اپنا مقصد اصلی بھلادیں تو پھر ناکام ہیں لیکن اگر ہم نے اس کوحصول آخرت کا ذریعہ بنایا اللہ کی رضا اور خوشنودی اور نبی پاک کو راضی کرنے والے کام کرتے رہے تو دارین کی سرخروی ہمارے قدم چومے گی ، اگر ہم دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے بے نیاز رہیں ، ہمارے پاس اگر دولت کا انبار ہو اور اسے اللہ ورسول کے نام پر خرچ کرنے کاجذبہ رکھتے ہوںدنیا کے لیے کبھی دین کو پس و پشت نہ ڈالتے ہوں تو یقینا دنیا ہوتے ہوئے بھی ہمیں دیندار کہا جاسکتا ہے۔
یادرکھیں ہماری تمام تر کوششوں کا ایک مطمح نظر ہونا چاہیے کہ گناہوں کی مغفرت اور عذاب جہنم سے نجات مل جائے، جنت کی سرفرازیوں سے بہرہ ور ہوجائیں۔ جس کی اعلی ترین نعمت اللہ کی رضا اور اس کا قرب ہے۔ جس کے حسن و جمال کی دنیا میں کوئی مثال نہیں، جہاں صرف طہارت و پاکیزگی ہے، نفاست و عمدگی ہے، جہاں ہمارے تصور سے کئی گنا زیادہ عیش و آرام کے اسباب ہیں، پروردگار عالم کا اعلان ہے کہ ’’تم اپنے پروردگار کی مغفرت کے طرف دوڑو اور ایسی جنت کی طرف جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے۔ وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ و رسول پر ایمان رکھتے ہیں‘‘ (الحدید:۲۱)
اس لیے ہمارے آقائے کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر خداسے دوستی کرنا چاہتے ہوتو دنیا کو چھوڑ دو اور اگر لوگوں کی نظر میں عزیز ہونا چاہتے ہو تو جو کچھ ان کے پاس ہے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لو۔
آپ دیکھیں کہ میرے نبی ﷺ کواللہ عزو جل نے وہ اختیار دیا تھا کہ خود آپ کا ارشاد ہے کہ اگرمیں چاہوں تو سونے ، چاندی کے پہاڑ میرے دائیں بائیں چلیں، لیکن آپ کی زندگی کا انداز ملاحظہ کریں ، ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے بدن مبارک پر کھجور کی چٹائی سے پڑنے والے نشان دیکھے تو روپڑے، آقا ﷺ نے ان سے رونے کا سبب دریافت کیا تو حضرت عمر نے عرض کیا حضور قیصر وکسریٰ خدائے تعالی کے دشمن ہوکر عیش و آرام کی زندگی گذاریں اور آپ اللہ کے حبیب ہوکر اس طرح مشقت برداشت کریں تو اس پر آقائے کریم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ اے عمر!کیا تو اس بات پر خوش نہیں کہ فانی نعمتیں ان کے لیے ہوں اور عقبیٰ کی لازوال نعمتیں ہمارے لیے ہوں، تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہﷺ میں خوش ہوں۔
قبضے میں جس کے ساری خدائی اس کا بچھونا ایک چٹائی
نظروں میں کتنی ہیچ ہے دنیا، صلی اللہ علیہ وسلم
آقائے کریم کا ارشاد ہے دنیا آخرت کی کھیتی ہے، لہذا یہاں ہر کام آخرت میں اچھا پھل پانے کے لیے کریں، اللہ تعالیٰ نے صحت وتندرستی کی نعمت عظمیٰ عطافرمائی ہے تو اسے اس کی عبادت و ریاضت میں صرف کریں، پروردگار عالم نے دولت و ثروت سے نوازہ ہے تو اسے اس کی راہ میں صرف کرتے رہیں۔ صرف زکوٰۃ ہی نہیں ، صدقات و خیرات کا بھی اہتمام کریں، صاحب استطاعت ہوجائیں تو علی الفور حج ادا کریں، اپنی آل و اولاد کی صحیح پرورش کریں، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس آیت کے مطابق ہوجائیں۔ (اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ ’’ وانفقوا مما رزقنٰکم من قبل ان یاتی احدکم الموت فیقول رب لو لا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین‘‘ المنافقون:۱۰) ترجمہ : اور ہم نے جو کچھ تمھیں عطافرمایا اس میں سے تم ہماری راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ موت تمھارے پاس آجائے اور تم کہنے لگو اے میرے رب تونے مجھے تھوڑی سی مدت کے لیے مہلت کیوں نہ دی، تاکہ میں صدقہ دیکر صالحین میں جگہ پا جاتا۔
وقت پر کافی ہے قطرہ ابر خوش ہنگام کا جل گیا جب کھیت ،مینہ برسا تو پھر کس کام کا
یہ زندگی کا مسافر ہے بے وفا لمحہ چلا گیا تو کبھی لوٹ کر نہ آئے گا
ہاں ہاں جب موت کافرشتہ آجائے گاتو پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا،
آج ہی نیکیاں خوب کرلو ورنہ قیامت میں رونا پڑے گا
اپنی دولت پہ اترانے والے قبر میں بھی تو سونا پڑے گا
اللہ عزو جل نے زندگی اور موت کا مقصد تخلیق بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا’’الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا‘‘ (الملک:۲) ترجمہ: وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی تاکی تمھاری جانچ ہو، تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔
حضور پاک ﷺنے ایک دفعہ صحابہ کرام سے پوچھاکیا تم جنت میں جانے کی تمنا رکھتے ہو تو سب نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ بلا شبہ ایسی ہی آرزو رکھتے ہیں، اس پر آقائے کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تو پھر تمنائوں کا دامن زیادہ نہ پھیلائو، موت کو ہمیشہ اپنے سامنے موجود سمجھو اور خدا سے یوں شرم کرو جیسا کہ مرد مومن کا حق ہے۔
اگر ہم نے اپنی زندگی میں ایسے کام کیے کہ مرنے کے وقت جب ہم نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا تو ہمیں ان پر فخر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سمجھیں ہماری زندگی کامیاب ہے ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ اگر زندگی کے آخری لمحات میں ہمیں اپنے ماضی پر شرمندگی ہو رہی ہے تو سمجھیں ہم نے اپنی زندگی کو اکارت اور برباد کردیا ۔۔۔۔اب ۔۔۔۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم زندگی کی آخری گھڑیوں میں خود کے کیے کاموں پر فخر کرکے خوشی محسوس کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔ اپنے ماضی کی بدکاریوں کے سبب زندگی کی آخری سانسیں گنتے وقت خود سے نفرت کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ الدنیا مزرع الآخرۃ

 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.