امت محمد یہ پہ ختم نبوت کے صدقے بھاری ذمہ داری ڈالی گئی
تھی کہ تم نے قیامت تک آنے والی انسانیت کی فکر کرنی ہے ،انہیں کلمہ کا
پیغام پہنچانا ہے ،انہیں اور خود کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے تگ ودو
کرنی ہے ،قرآن پاک کی آیت کے مفہوم کے مطابق تم بہترین امت ہو تمہیں لوگوں
کی نفع رسانی کے لئے پیدا کیاگیا ہے ،تم نیک کام کرتے ہواور لوگوں کو نیکی
کا حکم کرتے ہیں ،برائی سے بچتے ہوئے اور لوگوں کو برائی سے بچنے کی تلقین
کرتے ہو،ایک دوسری آیت کے مطابق اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہکہہ دو کہ یہ ہے
میرا راستہ بلاتا ہوں اﷲ کی طرف حکمت اور بصیرت کے ساتھ اور جو میری تقلید
کرے اس کے لئے بھی یہی راستہ ہے ،اس امت کو اﷲ تعالی نے جو بہترین امت کا
خطاب دیا وہ کیا اس لئے دیا تھا؟کہ وہ بڑی ،اونچی اونچی عمارتیں ،ایٹم بم ،بنگلے
،پلازے بنوائیں گے، نہیں بلکہ اﷲ نے امت کی شان اسلئے بیان کی کہ یہ امت
محمدیہ ؐ کے آخری نبی ہونے کے باعث نبیوں والے بھاری کام کی ذمہ داری کو
پورا کرے گی ،امت محمد یہ کی شان اﷲ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی
عمریں کم ہوں گی لیکن اگر یہ نیک کام کرے گی تو اسے سابقہ لمبی عمروں والوں
کے برابر ثواب ملے گا ،ان کی گواہی حضرت نوح کے سلسلے میں قبول کی جائے گی
،وہ گناہ کرے گی معافی مانگے گی تو اﷲ تمام گناہ ماسوائے حقوق العباد کے
معاف کردیں گے ،اﷲ ان کے گناہوں پر پردہ ڈالیں گے ،حالانکہ پہلی امتیں جب
گناہ کرتی تھیں تو صبح ان کے گھروں کے دروازوں پر وہ گناہ تحریر ہوتا تھا ،امت
محمد یہ کے لئے اﷲ تعالی نے تمام زمین کو سجدہ گاہ بنادیا جبکہ سابق امتوں
کے لئے عبادات کے لئے مخصوص جگہیں تھیں ،امت محمد یہ کے کپڑے ناپاک ہوں گے
تو اگر وہ تین دفعہ صاف پانی سے اسے دھولیں تو کپڑا پاک ہوجائے گا ،جبکہ
سابق امتوں کو ناپاک کپڑوں کو کاٹنا پڑتا تھا ،امت محمد یہ سب سے پہلے جنت
میں جائے گی ،حالانکہ یہ امت آئی سب سے آخر میں ہے ،اس امت پر حضورؐ کی
دعاؤں کے بدولت کوئی ایسا عذاب اﷲ مسلط نہ کریں گے جو پہلی امتوں پر کیاگیا
جس سے یہ مکمل تباہ ہوجائے ،کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ آخر ہمیں اتنے
اعزازات کیوں دیئے گئے ہیں ،حالانکہ ہم سودی نظام،تجارت میں دھوکہ ،ناپ تول
میں کمی ہم جنس پرستی ،شراب وزنا جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہیں ، جو
گزشتہ امتوں کی تباہی وبربادی کا سبب بنے، ایسا صرف حضورؐ کی دعاؤں اور
دعوت الی اﷲ کی بھاری ذمہ داری کے باعث ہے، امت محمد یہ کے بارے میں علماء
کرام سے سنتے ہیں کہ وہ ابتدائی اڑھائی سو سالوں تک امر بالمعروف ونہی عن
المنکر کی بھاری ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کرتی رہی جس کے باعث
کافروں پر مسلمانوں کا رعب ودبدبہ قائم رہا ،ہماری جغرافیائی حدود میں
اضافہ ہوتارہا ،تین براعظموں پر ہماری حکومتیں قائم تھیں ،مسلمانوں کی
تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ،مسلمان کا نام سن کر غیر مسلم کانپتے تھے ،لیکن
جب اس بھاری ذمہ داری کو ہم نے اجتماعی طور پر نظر انداز کرنا شروع کیا تو
پھر حال یہ ہوا کہ ہماری سلطنتیں سکڑنا شروع ہوئیں ،غیر پر ہمارا رعب ختم
ہونا شروع ہوا،غیر وں کا اسلام میں داخلہ کم ہونے لگا اور پھر ایک وقت
چنگیز خان کے دورمیں ایسا آیا کہ قریب تھے کہ مسلمان او راسلام صفحہ ہستی
ہی سے مٹ جاتا لیکن اﷲ تعالی نے اس امت کو اجتماعی طور پر تباہ وبرباد نہ
کرنے کا وعدہ کیا تھا اﷲ نے مصر کے اندر چند علماء کرام ایسے پیدا کیے
جنہوں نے غورو خوص کیا کہ آخر ہم تعداد میں بھی زیادہ ہیں پھر ہمیں مارکیوں
پڑرہی ہے ،تو رزلٹ یہ نکلا کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کی بھاری ذمہ
داری ختم بنوت کے صدقے میں ہمیں ملی ہے ،ہم اس سے لاپرواہی کررہے ہیں ،مدارس
وخانقاہوں میں تبلیغ کا کام تقریبا ہر دور میں جاری وساری رہالیکن
محدودپیما نے پر پھر انہوں نے دوبارہ اس بھاری ذمہ داری کو شروع کیا تو اﷲ
تعالی نے چنگیز خان کی یلغار سے امت کو پناہ دی اور پھر ایسا وقت بھی آیا
کہ اس کے خاندان میں سے اﷲ نے مسلمان پیدا کیے ،جنہوں نے برصغیر پاک وہند
میں سینکڑوں سال حکومت کی ،ہندوستان ،پاکستان ،بنگلہ دیش میں ایک سو سال سے
مولانا الیاس کے دردو فکر،رونے دھونے کے بعد اﷲ اس اہم ذمہ داری کو دوبارہ
امت کے اندر پیدا فرمایا ،آج اﷲ کے فضل سے دنیا میں کوئی بھی تحریک اس سے
بڑی نہیں ہے ،تقریبا ہر ملک ،شہر ،بستی میں جماعتیں کام کررہی ہیں ،اخلاص ،اپنا
مال ،وقت ،اپنی جان کی قربانی کے باعث مسلمان جوق در جوق اس تبلیغی کام میں
شامل ہورہے ہیں ،جو امت محمد یہ کی ہدایت کا باعث بن رہی ہے ،مسجدیں ،مراکز
،مدارس ،خانقاہیں تمام دین کے شعبے اس محنت کے باعث آباد ہورہے ہیں ،پاکستان
کو اﷲ تعالی نے دنیا بھر میں جماعتوں کی نقل وحرکت کے باعث ایک امتیازی
حیثیت دی ہے ،مسلمان رائے ونڈ کے مرکز میں دین کے لئے کو ششوں کو قدر کی
نگاہ سے دیکھتے ہیں ،اور دنیا بھر میں سالانہ سینکڑوں جماعتیں اس محنت کے
لئے نکلتی ہیں جن کے باعث ہمارے ملک کا برا امیج بہتر کرنے میں بڑی مدد
ملتی ہے ،لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں اور یہاں آکر اﷲ کے رستے میں چار ماہ لگا
کر اس بھاری ذمہ داری اور دین کو سیکھنا چاہتے ہیں لیکن ویزے کی پابندیوں
کے باعث بیشتر نہیں آسکتے ہیں ،اس سال رائے ونڈ میں اور مختلف تواریخ میں
اجتماعات منقد کیے گئے ، رواں سال نومبر میں دو مختلف اجتماعات منعقد کیے
گئے پہلے اجتماع میں بیرون ملک سے 741 جماعتیں آئیں ،سال اور سات ماہ کے
بیرون کیلے 91 جماعتیں ،اندرون ملک سال کی 54 جماعتیں ،چلہ ،چار ماہ کے لئے
1533 اور متفرق کم وپیش اوقات کے لئے 461 جماعتیں یعنی کل 2880 جماعتیں اﷲ
کے راستے میں پہلے مرحلے میں روانہ ہوئیں ،جبکہ اجتماع کے دوسرے مرحلے میں
کل2561 جماعتیں اﷲ کے راستے میں روانہ ہوئیں ،ان میں بیرون ملک سے آنے والے
مہمانوں کی تعداد245 جماعتیں ،بیرون ملک ،سال ،سات ماہ کے لئے 97 جماعتیں
اندرون ملک سال کے لئے 56 جماعتیں ،چلہ،چار ماہ کے لئے 1733 جماعتیں اور
متفرق کم وپیش اوقات کے لئے 430 جماعتیں روانہ ہوئیں ،ویسے توان اجتماعات
میں انتظامات کے ذمہ داری جماعت کے اپنے 20 مراکزکے لوگ سنبھالتے ہیں لیکن
اس کے باوجود ،پولیس ،صحت ،ٹریفک کی سہولیات کے لئے حکومت بھی مددگار ہوتی
ہے ،وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کے ایک بیٹے نے بھی اﷲ کے راستے میں چار
ماہ لگا رکھے ہیں جس کے باعث وزیر اعلی اس اہم کامکی اہمیت کوسمجھتے ہیں ،انہوں
نے اس مرتبہ بہترین انتظامات کروائے ، اجتماع کے اختتام پر رائے ونڈ سے
موٹر وے تک ٹریفک یک طرفہ کردی گئی جس کے باعث گاڑیوں کے گھنٹو ں پھنسے
رہنے کا سلسلہ کم ہوا ،صفائی کے لئے صبح شام چھڑکاؤ کیا جاتا رہا جس کے
باعث گردوغبار میں کمی دیکھنے میں آئی ،سرکاری ڈسپنسریز اور ایمبولینسس
وافر تعداد میں موجود تھیں،دونوں اجتماعات میں آٹھ سے دس لاکھ عقیدت مندوں
نے شرکت کی اور بھارت بنگلہ دیش اور پاکستان کے علماء کی تقاریر سے مستفید
ہوئے ۔
|