لاہور چھاؤنی ریلوے کوارٹروں کی انمول کہانیاں

یہاں میری زندگی کے بیس سال گزرے ہیں
یہ کہانیاں اس دور کی ہیں جب زندگی پرانے زمانے میں رینگ رہی تھی
کسی کے گھر میں بیت الخلا، ٹیلی ویژن اور پانی کا نلکا نہیں ہوا کرتا تھا
گرمیوں میں ایئر کنڈیشن کا تصور ہی نہیں تھا ہم لوگ نیم کے دو بڑے درختوں کے نیچے گرمیوں کی دوپہر گزارتے تھے
میں نے سائیکل چلانا بھی چار آنے گھنٹہ سائیکل کرائے پر لے کر سیکھی
نہانے کے لیے مسجد کا ایک ہی غسل خانہ تھا جس کی تارساتھ باری کے لیے تولیے ڈالے جاتے
یہیں پر میں نے ایک پیپل کا درخت لگایا تھا جو ایک طوفان میں زمین بوس ہوگیا اس پر میں نے ایک مضمون لکھا جس پرمجھے پچاس ہزار انعام م لا

لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں‘ میں 1964ء سے 1984ء تک پورے بیس سال اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر رہا۔ جب ہم لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں منتقل ہوئے تب ریلوے کوارٹروں اور قربان لائن کے درمیان کافی جگہ ویران پڑی تھی۔ رات کے وقت ریلوے کوارٹروں کی عورتیں رفع حاجت کے لئے اس ویران جگہ پر جاتیں۔ کچھ ہی فاصلے پر قربان لائن بھی موجود تھی جہاں پولیس والے رہتے تھے۔ اس لائن میں پولیس کے تربیتی ادارے بھی تھے جہاں نئے بھرتی ہونے والوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ یہاں رہائش پذیر چھڑے اور کنوارے پولیس والے اکثر و بیشتر رات کے وقت رفع حاجت کے لئے آنے والی عورتوں پر نہ صرف آوازیں کستے بلکہ چھوٹے چھوٹے کنکر بھی مارتے۔ پولیس والوں کی ان بے ہودہ حرکتوں سے عورتیں اپنے مردوں کو آگاہ کرتیں۔ ایک بار یہ سلسلہ زیادہ بڑھا تو ریلوے کوارٹروں کے مکینوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سب مردوں نے ایک میٹنگ کر کے طے کیا کہ چاچا عبدالحق (جو ان دنوں طاقت اور جرأت کے لحاظ سے سب سے نمایاں تھے) عورت کا لباس پہن کر قربان لائن کی تاروں کے ساتھ رفع حاجت کے لئے بیٹھیں گے۔ اس دوران اگر کسی پولیس والے نے انہیں تنگ کرنے کی کوشش کی تو وہ موقع پر ہی انہیں سزا دیں گے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو دوسرے ریلوے ملازمین کو بھی مدد کے لئے بلالیں گے۔ منصوبے کے مطابق ان کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ریلوے کوارٹروں کے سبھی مرد تیار تھے۔

چنانچہ مشترکہ فیصلے کے مطابق چاچا عبدالحق عورت کا لباس پہن کر رات کے نو بجے قربان لائن کے بالکل قریب جا کر رفع حاجت کے لئے بیٹھ گئے۔ جب پولیس والوں نے اکیلی عورت کو بیٹھے دیکھا تو انہوں نے حسب معمول اس پر آوازے کسنے شروع کر دیئے جب جواب میں گالیاں نہ ملیں تو پولیس والوں کا حوصلہ اور بڑ ھ گیا۔ وہ خاموشی کو رضامندی سمجھ کر بالکل قریب آ گئے لیکن چاچا عبدالحق خاموشی سے بیٹھے ہوئے انہیں چوری چوری دیکھتے رہے۔ جب وہ اتنے قریب آ گئے کہ ان پر آسانی سے گرفت کی جا سکتی تھی تو چاچا عبدالحق نے چھلانگ لگائی اور دونوں کی گردنوں کو اپنی بغل میں دبوچ کر انہیں گھسیٹتے ہوئے ریلوے کوارٹروں کی طرف دوڑ پڑے۔ اچانک حملے سے دونوں پولیس والے اتنے بدحواس ہوئے کہ ان کی آواز بھی نہ نکل سکی۔ جب چاچا عبدالحق ریلوے کوارٹروں میں پہنچ گئے تو انہوں نے آواز دے کر دوسروں کو بھی بلوا لیا جنہوں نے آتے ہی ان پولیس والوں کی خوب پٹائی کی اور پھر اس وعدے پر چھوڑا کہ آئندہ وہ یہ حرکت نہیں کریں گے۔ اس واقعے کی اطلاع دوسری صبح اعلیٰ پولیس حکام کو بھی مل گئی۔ انہوں نے ریلوے کوارٹروں کے معزز احباب کو بلایا اور اس واقعے پر باقاعدہ معذرت کرتے ہوئے آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی یقین دہانی کرائی۔

1964ء میں جب والد صاحب واں رادھا رام سے لاہور کینٹ تبدیل ہو کر آئے تو اس وقت ریلوے کوارٹروں میں ایک ہی گیڑو نلکا ہوا کرتا تھا جسے ٹوکے کی مانند چلایا جاتا تھا۔ کوارٹروں والے اسی نلکے سے پینے کے لئے پانی حاصل کرتے اور اسی نلکے پر ہفتے میں ایک بار کپڑے بھی دھوتے۔ کبھی کبھی ہم اس کے گرد بنے ہوئے فرشی حصار کو بند کر کے تالاب بنا لیتے اور جی بھر کے نہاتے۔ پھر جب یہ نلکا خراب رہنے لگا اور اس کے پانی میں بدبو کے ساتھ ساتھ تیل کی آمیزش بھی محسوس ہونے لگی تو محکمہ ریلوے والوں کو یہاں ایسا ہی ایک نیا نلکا لگانے کی منصوبہ بندی کرنی پڑی۔ ایک بڑی سی مشین نے کافی دنوں کی محنت کے بعد نلکا بور کر دیا۔ اسے بور کرنے کا طریقہ بھی بہت منفرد تھا لوہے کا ایک ورما (جس پر لوہے کے ہی بنے ہوئے بڑے بڑے کیل نصب تھے) ایک لمبے سے پائپ کے ساتھ باندھ کر اس کو مشین سے گھمایا گیا وہ بڑی رفتار سے گھومتا ہوا زمین میں دھنستا چلا گیا اور مطلوبہ گہرائی تک بور مکمل ہو گیا۔ انہی دنوں ہمارے گھر عارف والا سے مہمان آئے ہوئے تھے ان میں چند بچے بھی شامل تھے۔ میں نے جب از راہ مذاق ان سے پوجھا کہ آپ نے لاہور دیکھا ہے تو ایک بچے نے بے ساختہ اس مشین کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ یہی تو لاہور ہے جو اتنا بلند ہے۔ میں اس کے جواب سے بہت محظوظ ہوا کہ گاؤں سے آنے والے لوگ بھی کتنے سادہ ہوتے ہیں۔

نیا نلکا لگنے کے بعد پرانے نلکے پر رش ختم ہو گیا اور صرف نہانے والے بالخصوص ہم جیسے لڑکے البتہ اس نلکے پر قابض رہتے۔ کیونکہ اس کا پانی اب پینے کے قابل نہیں تھا جب احباب نے پینے کے لئے پانی لینا ہوتا وہ نئے نلکے کا رخ کرتے اس لئے نئے نلکے پر خاصا رش رہنے لگا۔صبح آنکھ کھلتے ہی نلکے پر بالٹیوں کی لائنیں لگ جاتیں اور اپنی اپنی باری پر ہر کوئی بالٹی بھرنے کے لئے نلکے پر پہنچ جاتا۔ کئی دوستیاں اور دشمنیاں بھی اسی جگہ ہو جاتیں کیونکہ کافی انتظار کے بعد باری آتی تھی اس لئے اکٹھے انتظار کرنے سے ذہنی مطابقت بڑھتی اور کئی ایسے دوست احباب جو مصروفیت کی بناء پر دن کے اور اوقات میں آپس میں مل نہ پاتے تھے ان سے صبح اسی نلکے کے اردگرد ملاقات ہو جاتی۔ یہاں دوایک احباب ایسے بھی تھے جو ہمیشہ دوسروں سے سراسر زیادتی کر جاتے تھے چونکہ وہ ریلوے کے باؤ یعنی کلرک تھے اس لئے کوئی بھی ان کے خلاف آواز نہ اٹھاتا اور ان کی حرکتوں پر صبر کا دامن تھام لیتا۔ ان میں باؤ مصطفی (جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں) اور باؤ قائم دین شامل ہیں جو کسی کی بھی بالٹی کو ہٹا کر اس کی جگہ اپنی بالٹی لگا دیتے۔جب نلکا چلانے والا دیکھتا تو اسے اپنی بالٹی کی بجائے دوسری بالٹی نظر آتی۔ اسے سخت غصہ آتا کیونکہ صبح سویرے کچھ کھائے پیئے بغیر ہی اچھا خاصا وزنی نلکا چلانا پڑتا تھا۔ گھر کا پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ اپنے غسل کا اہتمام بھی اسی نلکے سے پانی نکال کر کیا جاتااس لئے اچھی ورزش بھی ہو جاتی۔ یہ صرف ہماری ہی روٹین نہیں تھی بلکہ ریلوے کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کا یہی معمول تھا۔

قائم دین جو اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے بارے میں ان دنوں ایک دلچسپ واقعہ بھی مشہور ہوا ۔ باؤ قائم دین دفتر سے واپسی پر اپنا چھوٹا سا کلینک بھی چلایا کرتے تھے حالانکہ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں تھے لیکن انہوں نے ڈسپنسر کا ڈپلومہ کر رکھا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ گرد و نواح میں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔ ایک کمرے پر مشتمل ڈاکٹر قائم دین ہی کا کلینک لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرتاتھا اگر یہاں شفا نہ ملتی تو لوگ شورہ کوٹھی یا صدر بازار میں موجود ڈاکٹر سے رجوع کرتے۔ مین مارکیٹ گلبرگ میں بھی ایک بنگالی ڈاکٹر موجود تھا جس نے غلط ٹیکہ لگا کر عبد اﷲ خان کی بیوی مار دی تھی۔ بہرکیف ڈاکٹر قائم دین دفتر سے دو بجے گھر واپس آنے کے بعد تھوڑا آرام کرتے پھر گیڑو نلکے سے پانی بھر کر اس لئے اپنے کلینک کے سامنے چھڑکاتے کہ مریضوں کے آتے وقت دھول نہ اڑے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں لکڑی کے بینچوں پر مریض دوائی لینے کے لئے بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے۔ اس دوران انہوں نے اپنے جسم پر صرف ایک جانگیا (کچھا) پہنا ہوتا ان کے پڑوسی (سعدی کے ابو) کا بھی یہی لباس تھا۔ ایک دن حسب معمول قائم دین کچھا پہن کر ننگے جسم کے ساتھ بالٹیوں سے اپنے کلینک کے سامنے پانی چھڑکا رہے تھے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک بیمار پولیس والا دوائی لینے کے لئے آ گیا اس نے ڈاکٹر قائم دین سے پوچھا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔ ڈاکٹر قائم دین نے اوپر سے نیچے تک اپنی حالت دیکھی اور کچھ دیر سوچ کر پولیس والے سے مخاطب ہو کر بولے کہ ڈاکٹر صاحب اس وقت گھر پر موجود نہیں ہیں شام کو آنا۔ جب وہ پولیس والا شام کو کلینک پر پہنچا تو کچھا پہن کر پانی چھڑکانے والا ننگا دھڑنگا شخص ہی اسے ڈاکٹر کی کرسی پر بیٹھا نظر آیا۔ وہ حیرانی سے پوچھنے لگا کہ سہ پہر کو میں آپ ہی سے تو ملا تھا اور آپ نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر اس وقت گھر پر موجود نہیں ہے۔ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اس پر ڈاکٹر قائم دین بولے کہ اگر میں اس وقت اپنے آپ کو ڈاکٹر کہہ دیتا تو آپ نے سوچناتھا کہ یہ کیسا ڈاکٹر ہے جو کچھا پہن کر پانی چھڑکا رہا ہے اس لئے میں نے جو کچھ کیا آپ اعتماد کو ٹھیس سے بچانے کے لئے کیا۔

اسی طرح چاچا قائم دین کا ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے۔ ریلوے کوارٹروں میں پینے کے پانی کی سپلائی بند ہو گئی۔ دور دور تک پانی ملنے کے امکانات نہ تھے۔ پانی اگر میسر تھا تو قربان لائن یا گنگا آئس فیکٹری کی مسجد میں لیکن ضرورت کے مطابق وہاں سے پانی لانا نہایت مشکل تھا۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ لاہور کسی ٹرین کے ذریعے لاہور کینٹ آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر قائم دین چونکہاجتماعی معاملات میں ہمیشہ پیش پیش ہوتے تھے۔ اس لئے وہ کوارٹروں کے لوگوں کو اکٹھا کر کے ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم پر لے گئے۔ جونہی ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی ٹرین رکی تو سب نے منصوبے کے مطابق نعرہ بازی شروع کر دی۔ جب ڈی ایس نے مخالفانہ نعروں کی آواز سنی تو انہوں نے ایک ذمہ دار افسر کو معاملہ فہمی کے لئے پلیٹ فارم پر بھیجا۔ اس ذمہ دار افسر سے مخاطب ہونے کا فریضہ قائم دین نے انجام دیا۔ ساری بات سن کر جب وہ مجاز افسر واپس جانے لگا تو اس نے قائم دین سے ان کا نام پوچھا۔ یہ فقرہ سنتے ہی قائم دین کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی وہ کسی بھی متوقع کارروائی سے بچنا چاہتے تھے۔ انہوں نے منہ کو بگاڑ کے کہا میرا نام قیام الدین ملک ہے۔ وہ افسر چلا گیا لیکن گفتگو کے دوران چاچا قائم دین نے اپنے آ پ کو بچانے کے لئے جو پینترے بدلے وہ ہمیں آج تک نہیں بھولے۔

نئے نلکے کے قریب ہی کوارٹروں کی اکلوتی چھوٹی سی مسجد تھی جس کے غسل خانے پہلے مسجد کے اندر تھے لیکن بعد میں مسجد سے باہر نلکے کے قریب بنا دیئے گئے تاکہ محلے کے لوگوں کو غسل کرنے میں آسانی رہے۔ جس شخص نے نہانا ہوتا پہلے کئی بالٹیاں بھر کے غسل خانے کی ٹینکی میں ڈالتا پھر غسل کرتا۔ یہاں پر بھی باری لگانے کا عجیب طریقہ تھا۔ غسل خانے کے سامنے ایک لمبی سی لوہے کی تار بندھی ہوئی تھی جس پر ہر شخص اپنا تولیہ لٹکا دیتا جیسے جیسے لوگ نہا کر نکلتے جاتے اسی طرح تولئے خودبخود آگے آگے چلتے رہتے اگر کوئی تولیہ باری سے پہلے آگے کرنے کی کوشش کرتا تو اس پر لڑائی شروع ہو جاتی۔ ایک مرتبہ میرے سامنے ملک نذیر گینگ مین نے تولیہ پیچھے کرنے والے کو جی بھر کے گالیاں دیں اور بات جھگڑے تک جا پہنچی۔ بمشکل لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا کر معاملہ رفع دفع کروا دیا۔

محمد امین عرف ’’مینا‘‘ جو علی بخش کا بڑا اور اکلوتا بیٹاتھا‘ شروع ہی سے رولے رپے اور ہلے گلے کا شوقین تھا۔ وہ نیا نیا جوان ہوا تھا۔ اسے لڑکیوں کو چھیڑنے اور ان سے اظہار محبت کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے وہ ہر چھٹی والے دن کسی نہ کسی کے ہاتھوں مار بھی کھاتا تھا۔ قربان لائن کے انسپکٹر کی بیٹی ریلوے کوارٹروں کے قریب سے گزر کر کالج جاتی تھی۔ وہ لڑکی خوبصورت بھی تھی اور تنہا بھی۔ مینے کو اظہار محبت کا موقع ہاتھ آگیا۔ اس نے سرخ رومال اور ایک انگوٹھی خریدی اور اسے دینے کے لئے موقع کی تلاش میں رہا۔ ایک دن جونہی وہ لڑکی اس کے قریب سے گزرنے لگی آگے بڑھ کر اس نے کہا۔ ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر تم یہ انگوٹھی اور رومال میری محبت کا تحفہ سمجھ کر رکھ لو تو میں سمجھوں گا کہ تم نے میرا محبت بھرا ہاتھ تھام لیا ہے اور تمہارا یہ فیصلہ میری زندگی کا اہم فیصلہ ہوگا۔ وہ لڑکی نہایت خاموشی سے مینے کی محبت بھری باتیں سنتی رہی۔ پھر انگوٹھی اور رومال لئے بغیر ہی اپنے گھر چلی گئی۔ مینا اس کی خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا اور خوش خوش اگلی صبح کا انتظار کرنے لگا۔ دوسری جانب اس لڑکی نے مینے کی اس حرکت کی شکایت اپنے والد سے کر دی۔ والد نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ اگلی صبح جب تم کالج جاؤ گی تو میں تمہارے پیچھے کچھ ہی فاصلے پر ہوں گا اور بے ہودہ حرکت کرنے والے کو موقع ہی پر سزا دوں گا۔ اگلی صبح جب وہ لڑکی کالج جانے کے لئے گھر سے نکلی تو اس کا والد بھی کچھ ہی فاصلے پر موجود تھا۔ مینے کے دل میں تو کل کی ملاقات کے بعد سے محبت کی آگ بھڑک رہی تھی اور وہ بڑی شدت سے اس صبح کا انتظار کر رہا تھا۔ جونہی وہ لڑکی اس کے قریب سے گزرنے لگی۔ اس نے سامنے آ کر پہلے والی حرکتیں دوبارہ کیں۔ ابھی لڑکی اس کا منہ ہی دیکھ رہی تھی کہ پیچھے سے اس کا والد آگیا۔ اس نے مینے کو گریبان سے پکڑ کر پاؤں سے جوتا اتار کر مارنا شروع کر دیا۔ مینے کی چیخ و پکار پر سارا محلہ جمع ہو گیا۔ ان میں میرے والد بھی شامل تھے۔ مینے کی ماں‘ مینے سے زیادہ چیخ و پکار کر رہی تھی۔ اس کی زبان سے یہی الفاظ نکل رہے تھے کہ میرے بیٹے کو بچاؤ۔ وہ ظالم میرے بیٹے کو مار دے گا۔ میرے والد نے کہا اسے بچا تو میں دیتا ہوں لیکن اس کو تم پٹہ ڈال کے رکھو۔ وہ اگر لڑکیوں کو چھیڑے گا تو مار تو کھائے گا۔ بہرکیف والد صاحب کے کہنے پر مینے کی جان بخشی ہو گئی لیکن مینا باز آنے والا کہاں تھا۔ وہ کسی اور لڑکی کے تعاقب میں انگوٹھی اور رومال لے کر روانہ ہو گیا۔ حسن اتفاق سے کوئی بھی لڑکی اس کی باتوں میں نہ آئی۔ مجبور ہو کر اس کی ماں نے گوجرانوالہ میں اس کی شادی کر دی۔ تب کہیں جا کر اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ ایک مرتبہ مینا مسجد کمیٹی کا ممبر بن گیا وہ تو پہلے ہی مان نہیں تھا اس کے ہاتھ میں نمبرداری بھی آ گئی وہ اپنی اس پوزیشن پر ہر کسی سے پھڈے لیتا پھرتا۔ کبھی کبھی تو اذان بھی کسی اور کو نہ دینے دیتا اور خود ہی سارا کام کرتا۔ مسجد کے بالکل سامنے ’’اشرف جگا‘‘ کیبن مین رہتا تھا وہ اپنی بکری کو مسجد کی دیوار کے قریب کلے پر باندھ دیتا۔ ایک دن مینے نے اشرف جگے کی بکری کھول دی اور وہاں سے کلہ بھی اکھاڑ دیا جس پر جگے اور مینے کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی۔ جگے نے تھانہ ریس کورس جا کر مینے کے خلاف رپورٹ درج کروا دی۔ پولیس والے مینے کو پکڑنے کے لئے جب کوارٹروں میں آئے تو انہیں دیکھ کر مینا سخت پریشان ہو گیا اس نے پورے کوارٹروں کو چیخ چیخ کر سر پر اٹھا لیا۔ اس کی ماں نے بھی دہائی مچا دی کہ کوئی میرے بچے کو پولیس والوں سے بچائے لیکن کوئی بھی آگے جانے کو تیار نہیں تھا۔ کیونکہ سب لوگ مینے کی حرکتوں سے ناکوں ناک تنگ تھے اس لئے چاہتے تھے کہ اسے کچھ نہ کچھ سزا ضرور ملنی چاہیے تاکہ اس کے شر سے سب لوگ محفوظ ہو جائیں۔ جب مینے کو پولیس تھانے لے گئی تو اس کی آہ و پکار سے تھانے والے بھی پریشان ہو گئے۔ مینے کو ایک پولیس والے کی چارپائی سے باندھ دیا گیا۔ دوسرے دن جب میری اس پولیس والے سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ یہ کیسا شخص ہے؟ یہ نہ خود سویا اور نہ ہمیں سونے دیا۔ اسے پکڑ کر ہم خود بھی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔

ان دنوں میرا دفتر تھانہ ریس کورس کے قریب ہی لاہور چیمبرز آف کامرس بلڈنگ میں تھا۔ مینے کے بتانے پر ایک پولیس والا (جس کا نام ظفر تھا بعد میں وہ میرا دوست بن گیا)۔ میرے دفتر آیا۔ جب میں اس کے ساتھ تھانے پہنچا تو مینے کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ خود اشرف جگا بھی بہت پریشان تھا کہ میں تو اسے اندر کروا کے پریشان ہو گیا ہوں۔ مینے کے رونے کا اثر تھانے میں موجود سبھی افراد پر ہوچکا تھا۔ جب دونوں کی ضمانتیں ہو گئیں تو گھر پہنچتے ہی مینے نے مسجد کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا اور لوگوں کے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرنے کا اعلان کر دیا لیکن پڑی ہوئی عادت جاتی کہاں ہے۔ وہ اکثر و بیشتر قائم دین کے ساتھ مل کر محلے والوں کو تنگ کرتا رہتا۔ اس سے نہ تو کوارٹروں والے خوش تھے اور نہ ہی آبادی والے۔ بہرکیف اب وہ کافی عمر رسیدہ ہو چکا ہے۔ شنید یہ ہے کہ چند ماہ پہلے جب بجلی کا کھمبا اس کے کوارٹر کے سامنے نصب ہونے لگا تو اس نے ایک بار بھر ریلوے حکام کو شکایت کر دی لیکن ناظم وحید اختر کی سرزنش پر معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ معاملے سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لی۔

کوارٹروں اور قربان لائن کے درمیان خالی جگہ پر کچی آبادی بننے کی وجہ سے بہت سے مسائل کھڑے ہو گئے۔ اس آبادی کا زیادہ تر حصہ سراج ڈوگر کی سرپرستی ہی میں آباد ہوا تھا جس سے نہ صرف مقامی لوگ بلکہ پولیس والے بھی ڈرتے تھے۔ اس لئے سراج ڈوگر جس کو مکان بنانے کی اجازت دے دیتا اسے روکنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی۔ آبادی بڑھنے سے جہاں دیگر مسائل پیدا ہوئے وہاں ریلوے کی مشترکہ لیٹرینوں پر بھی حاجت روائی کرنے والوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ چونکہ ان دنوں عام گھروں میں لیٹرین بنانے کا رواج نہیں تھا۔ اس لئے آبادی والے بھی چوری چھپے ریلوے کی لیٹرینوں میں رفع حاجت کے لئے آتے۔ جب بڑی تعداد میں آبادی کے لوگ رفع حاجت کے لئے آنے لگے تو یہاں لوٹوں سمیت لوگوں کی لائنیں لگنے لگیں کسی کو کتنی بھی ایمرجنسی کیوں نہ ہو وہ باری سے پہلے اندر نہیں جا سکتا تھا۔ کئی بار تو مینا آبادی کے لوگوں کو یہاں بھی قطار سے نکال دیتا تھا۔ اس لئے آبادی والوں کو خصوصاً مینا اور باؤ قائم دین بہت چبھتے تھے۔

ریلوے کوارٹروں میں رہنے والوں کا معمول تھا کہ وہ ہر شام اپنے گھر کے سامنے صفائی کرتے‘ پانی چھڑکاتے اور چارپائیاں بچھا کر ایک دو بینڈ کا ریڈیو میز پر رکھ کربلند آواز میں ایسے لگا دیتے جیسے ریکارڈنگ کا کوئی مقابلہ ہو رہا ہو ان دنوں جس کے پاس تین بینڈ کا ریڈیو ہوتا وہ سب سے بازی لے جاتا۔ یوسف (جوسی) اورمستانہ شام کے وقت کوارٹروں میں ایسے گھومتے کہ لوگوں کو بھی ان کی فارغ البانی پر رشک آنے لگتا۔ وہ کبھی کسی کے پاس بیٹھ جاتے اور کبھی کسی کو لتاڑنے لگتے۔ اتنی ایمرجنسی میں ادھر ادھر جاتے جیسے انہیں بہت ضروری کام ہو لیکن حفیظ موٹے کی دوکان سے ہو کر اسی رفتار سے لوٹ آتے۔ شام سے رات گئے تک ان کی یہ چہل قدمی جاری رہتی۔ کوارٹروں سے کچھ ہی فاصلے پر جوہڑ کے اردگرد خاصی جگہ ویران تھی۔ اس جگہ کے کچھ حصے پر سڑک بنانے والا پلانٹ نصب تھا۔ اس پلانٹ کے اردگرد لُک (تارکول) کے بھرے اور خالی ڈرم پڑے ہوتے جوہڑ کے اردگرد خالی جگہ پر چونکہ ریلوے ملازمین کھیتی باڑی کیا کرتے تھے‘ اس لئے ہم نے بھی ایک قطعہ زمین کھیتی باڑی کے لئے مخصوص کر لیا۔ جہاں قریبی جوہڑ سے پانی بالٹیوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا تھا۔

ایک دن جمعدار فضل کریم کا بیٹا عارف جس کا قد خاصا پست یعنی چھوٹا تھا۔ ایک صبح چار بجے وہ انتقال کر گیا۔ صبح ہی اسے دفنانے کا بندوبست ہونے لگا۔ اس مقصد کے لئے میاں میر پل سے ملحقہ قبرستان میں قبر بھی کھود لی گئی۔ قبر کھودنے والے اسے اکیلا چھوڑ کر گھروں کو واپس آ گئے۔ دوپہر کو دفتر سے آتے ہوئے میں نے دیکھا کہ قبر کے نزدیک کوئی بھی شخص موجود نہیں ہے۔ میں نے گھر آ کر اس بات کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ جب شام چار بجے عارف کا جنازہ اٹھایا گیا تو تھوڑے ہی فاصلے پر مہمان مل گئے جو دوسرے شہروں سے جنازے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ انہیں دیکھ کر جنازے کو واپس گھر لایا گیا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ جنازہ اٹھایا گیا تو ریلوے کیبن کے قریب مہمانوں کی آمد کی وجہ سے پھر جنازے کو کندھوں سے اتار کر زمین پر رکھ دیا گیا اور وہیں رونا دھونا شروع ہو گیا۔ اسی دوران میں اپنے دوستوں سے قبر کے اکیلا چھوڑنے کا ذکر کر رہا تھا کیونکہ میں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ کھودی ہوئی قبر کو اکیلا نہیں چھوڑا جاتا وہاں کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہونا چاہیے یا کوئی لکڑی نما چیز رکھ دینی چاہیے۔ قبرستان پہنچتے پہنچتے غروب آفتاب کا وقت ہو چکا تھا۔

جنازہ پڑھنے کے بعد جب عارف کی میت کو قبر میں دفن کیا جا رہا تھا تو اذان مغرب شروع ہو چکی تھی اور قبرستان پر تھوڑا تھوڑا اندھیرے چھانے لگا تھا۔ جب مٹی ڈالنے کا وقت آیا تو یہاں پر موجود تمام افراد تھوڑی تھوڑی مٹی ڈال کر وہاں سے ہٹ گئے‘ ایک نوجوان مختار بڑی دلیری سے قبر پر مٹی ڈالنے لگا۔ وہ بہت باہمت شخص تھا۔ اس نے ابھی نصف مٹی بھی نہیں ڈالی تھی کہ مختار منہ کے بل قبر پر ہی گر گیا اور گرتے ہی اس کے منہ سے سفید جھاگ نکلنے لگی جسے دیکھ کر سب لوگ پریشان ہو گئے۔ ہسپتال لے جانے کے لئے موقع پر کوئی ٹرانسپورٹ موجود نہیں تھی۔ ریلوے لائنوں کے دوسری جانب ایک فوجی جیپ کھڑی تھی۔ اسی فوجی گاڑی پر چند افراد مختار کو میو ہسپتال لے گئے اور باقی افراد اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔ ابھی ہمیں گھر آئے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میو ہسپتال کی ایمبولینس مختار کی لاش لے کر اس کے گھر پہنچ گئی۔ جونہی مختار کے مرنے کی خبر محلے والوں تک پہنچی کہرام مچ گیا۔ ہر بچہ بڑا مختار کے گھر کی جانب دوڑ پڑا۔ وہاں جا کر عجیب صورت حال سے واسطہ پڑا کہ جو بھی عورت روتی ہوئی میت کی چارپائی کو ہاتھ لگاتی وہ خوف اور دہشت کے مارے بے ہوش ہو جاتی۔ مختار کے بچے جو ابھی خاصے چھوٹے تھے۔ وہ اپنے باپ کی پراسرار موت پر زار و قطار رو رہے تھے۔ اس کی جواں سالہ بیوی سگری اپنے سہاگ کے لٹ جانے پر اپنی قسمت کو کوس رہی تھی‘ اس کا رونا دیکھا نہ جاتا تھا۔ جب دو تین عورتیں مختار مرحوم کی چارپائی کے قریب جا کر بے ہوش ہو گئیں تو کوئی بھی عورت لاش کے قریب جانے کو تیار نہ تھی بلکہ ایک عجیب سا خوف سب کو دامن گیر ہو گیا۔ مجھ جیسے کمزور دل لوگ وہاں سے آنکھ بچا کر کھسک گئے۔ سیانے لوگوں کا کہنا تھا کہ میت پر بھی آسیب کا سایہ ہو چکا ہے۔ اس حالت میں میت کو رات رکھنا مناسب نہ ہوگا۔ میرے والد صاحب‘ فضل دین گینگ مین سمیت چند سخت دل لوگوں نے مختار کا جنازہ رات کے دس بجے اٹھایا تو جنازے میں شرکت کے لئے بہت کم افراد موجود تھے۔ سچ پوچھیں تو مجھے اس کے بعد بھی کئی دن تک ریلوے کوارٹروں میں آتے ہوئے خوف محسوس ہوتا رہا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سارا محلہ ہی آسیب زدہ ہو گیا ہے۔ شام ہوتے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے کوئی بھی شخص اکیلا گھر سے نہ نکلتا۔ محلے میں رہنے والے لوگوں کی یہ کوشش ہوتی کہ مختار کے گھر کے قریب سے بھی نہ گزرا جائے۔ یہاں میں مختار کی بیوہ ’’خالہ سگری‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے نہ صرف اپنے شوہر کی ناگہانی موت کا غم برداشت کیا بلکہ ایک آسیب زدہ گھر میں عرصہ دراز تک رہائش بھی رکھی اور پہاڑ جیسی جوانی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش پر نچھاور کر دی۔ اگر ان کے بچوں میں سے کوئی یہ کہے کہ اس نے ماں کا احسان اتار دیا ہے تو انتہائی غلطہوگا کیونکہ شوہر کی جدائی میں جوانی کا کاٹا ہوا ایک ایک لمحہصدیاں بن کر گزرتا ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اس کی اولاد زندگی بھر اپنی ماں کی خدمت کرے تب بھی وہ اس کے ایک دن کا احسان نہیں اتار سکتی۔

شانی (احسان) اپنے باپ کی طرح طاقت کے لحاظ سے ایک مضبوط انسان کہلاتا تھا لارے لپے لگانا تو اس کے دائیں ہاتھ کا کمال تھا۔ ایک مرتبہ اس کی لڑائی فضل کریم جمعدار کے بیٹے سائیں سے ہو گئی جو فقیرانہ روپ سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا۔شانی کے ہاتھوں سائیں کو ذلیل و خوار ہونا پڑا۔ شانی نے اپنے باپ بابا عبدالحق کی دوکان کے ساتھ ہی لکڑی کے ایک تخت پر لسی کی فروخت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ شانی میرے والد کا معتقد تھا‘ اس لئے دو آنے میں لسی کا گلاس ہمیں دے دیتا۔ یوں یہ سلسلہ ساری گرمیاں چلتا رہتا۔ اُس سے پہلے جب پورے محلے میں کسی کی بھی دوکان نہیں تھی تو ہم نے اپنے گھر ہی میں چھوٹی سی دوکان بنا رکھی تھی جس میں اشیائے ضرورت کے علاوہ املی‘ سگریٹ وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ جس نے بھی سودا یا سگریٹ لینے ہوتے‘ دروازے پر دستک دے دیتا۔ گھر میں موجود کوئی بھی فرد سودا دے دیتا۔ دوکان سے سودا لینے کا سلسلہصبح سویرے سے رات گئے تک جاری رہتا۔ کئی بارتو ایسا بھی ہوا کہ رات کے بارہ بجے جب ریلوے ملازمین ڈیوٹی سے فارغ ہو کر گھر آتے تو وہ سگریٹ وغیرہ لینے کے لئے ہمارے دروازے پر دستک دیتے ۔ چونکہ دوکان کا زیادہ تر چارج میرے ہی پاس تھا اس لئے مجھے گہری نیند سے بیدار ہو کر سودا دینا پڑتا‘ اس پر کئی مرتبہ غصہ بھی آتا ۔ کئی بار نیند کے عالم میں پانچ روپے کا نوٹ لے کر سو روپے کا بقایا دے دیتا جس پر مجھے کئی مرتبہ ڈانٹ بھی پڑتی۔

اُس زمانے میں پورے محلے میں کسی کے پاس ٹیلی ویژن نہیں تھا صرف قربان لائن کی کینٹین میں ٹیلی ویژن موجود تھا جسے قربان لائن کے لوگ ہی دیکھ سکتے تھے‘ باہر سے آنے والے کسی بھی شخص کو ٹیلی ویژن دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ قربان لائن کے کوارٹروں کی طرف کھلنے والے دروازے پر پولیس کا سپاہی کھڑا ہوتا جو باہر سے آنے والے کو روک لیتا۔ ہم کافی دوست جن میں بھولا‘ اختر‘ لطیف‘ لیاقت‘ منیر‘ حکیم زادہ شامل تھے۔ قربان لائن کے اردگرد لگی ہوئی کانٹے دار تاروں میں سے گزر کر وہاں کی کینٹین میں پہنچ جاتے لیکن وہاں بیٹھ کر بھی کہاں سکون میسر تھا۔ ہیڈ کانسٹیبل ’’واحد‘‘ کہیں نہ کہیں سے آ جاتا اور آتے ہی باہر سے آنے والوں کو چن چن کر نکال دیتا۔ کئی بار تو ایک دو تھپڑ بھی ٹیلی ویژن دیکھنے کے عوض کھانا پڑتے۔ تھپڑ کھانے کے بعد بھی ہمارا شوق کم نہ ہوتا۔ دوسرے دن نئے جذبے کے ساتھ ٹی وی دیکھنے کے لئے جاتے۔

جب ٹیلی ویژن پر انڈین چینل بھی آنے لگا تو ٹی وی دیکھنے والوں میں بہت جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ ریلوے کوارٹروں کے وہ لڑکے بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے جو پہلے ٹیلی ویژن دیکھنے کے لئے نہیں جایا کرتے تھے حالانکہ ان دنوں مشہور پاکستانی ڈرامہ الف نون لگتا تھا جسے ہر چھوٹا بڑا پسند کرتا تھا۔ سب سے پہلی انڈین فلم ’’پاکیزہ‘‘ لگی جسے دیکھنے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی ہونے لگی اور قربان لائن پہنچنے کے لئے محفوظ راستوں کی تلاش پر غور ہونے لگا۔ ہمیں اس بات کا مکمل یقین تھا کہ قربان لائن والوں نے ہمارے داخلے کو روکنے کے لئے خصوصی انتظامات کیے ہوں گے۔ دوسری جانب ہم نے بھی تہیہ کر رکھا تھا کہ ہر حال میں انڈین فلم ’’پاکیزہ‘‘ دیکھنی ہے کیونکہ اس فلم کے گانوں کے تو ہم بہت پہلے سے شیدائی تھے۔

قربان لائن کے رکھوالوں کے حفاظتی انتظامات ناکام بنا کر ہم چور راستوں سے قربان لائن داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن جب فلم دیکھنے میں محو تھے تو حوالدار واحد آ گیا اس نے سب کو پکڑ لیا اور بدتمیزی پر اُتر آیا۔ مجھ سے جب اس نے پوچھا کہ تم کون ہو تو میں نے اپنے بڑے بھائی رمضان کا نام بتا دیا جو واحد کے ساتھ والی بال کھیلتا تھا۔ واحد نے مجھے تو چھوڑ دیا لیکن میرے باقی ساتھیوں کو ڈانٹ کھانے کے علاوہ وہاں سے اٹھنا بھی پڑا۔ اس طرح ان کا فلم دیکھنے کا مزا کرکرا ہو گیا۔

ایک اور اچھا ساتھی جو میرے ساتھ فلم دیکھنے کے لئے اکثر جایا کرتا تھا اس کا نام محمدشریف تھا وہ مصطفی علی ہمدانی کا بڑا داماد اور بھانجا تھا۔ وہ کسٹم میں ملازم تھا اور شام کو اپنی ڈیوٹی سے بغیر بتائے ہی ٹیلی ویژن دیکھنے کے لئے گھر آ جاتا تھا‘ میں بھی اس کا منتظر رہتا۔ اس کے آتے ہی ہم دونوں قربان لائن پہنچ جاتے۔ عرصہ دراز تک ہم دونوں اکٹھے ٹیلی ویژن دیکھنے جاتے رہے۔ پھر شریف کراچی چلا گیا اور میں مکہ کالونی آ گیا تو یہ رفاقت اپنے انجام کو پہنچی۔ چند ماہ پہلے وہ شدید علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ بہرکیف دعا ہے کہ اﷲ اسے غریق رحمت کرے اور اس کی لغزشوں سے صرف نظر فرمائے۔

ریلوے کوارٹروں کی مسجد میں ہم جیسے چھوٹے بچے اور نوجوان تو شرارتیں کرتے ہی تھے یہاں پر چند بزرگ جن میں بنارس خاں‘ یحییٰ خاں جیسے عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے‘ اکثر وبیشتر ایک دوسرے سے نماز کے دوران ہی خاصا بڑا مذاق کر جاتے تھے جس سے دوران نماز ہی قہقہوں کی آوازیں آنے لگتیں۔ اس محلے کے چند سنجیدہ نوجوانوں میں فیدر خان‘ وسیم خان‘ بڑے باؤ کا بیٹا محمد اسلم اور میرا بھائی محمد رمضان شامل تھے جو چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کی عزت کرتے تھے۔

مردوں کا تو یہ عالم تھا دوسری جانب ریلوے کوارٹروں کی وہ عورتیں جو ٹی وی دیکھنے کی شیدائی تھیں۔ اے ایس ایم منیر کے گھر داخل ہونے کی کوشش کرتیں کیونکہ ان دنوں صرف انہی کے گھر میں ٹیلیویژن تھا۔ اے ایس ایم منیر کے بیٹے وقار اور مٹھو میرے دوست تھے۔

یہاں پائے جانے والے دیگر عجوبوں کے علاوہ ایک عجوبہ مینے کا بہنوئی اور چاچا علی بخش کا داماد مختار بھی تھا جو گوجرانوالہ میں رہائش پذیر تھا۔ اس کی عادتیں بہت حیران کن تھیں۔ وہ شام کو جس چارپائی پر سوتا صبح اس سے اکثر غائب ملتا۔ خالی چارپائی کو دیکھ کر گھر والے پریشان ہو جاتے کہ ان کا داماد کہاں چلا گیا ہے۔ دو تین دن بعد انہیں پتہ چلتا کہ وہ تو گوجرانوالہ پہنچ گیا ہے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ گھر سے لوٹا لے کر لیٹرین گیا اور لوٹے سمیت ہی غائب ہوگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ لوٹے کے ساتھ ہی وہ گوجرانوالہ پہنچ گیا ہے اس کی ان حرکات سے گھر والوں کے ساتھ ساتھ محلے والے بھی بہت پریشان رہتے۔ کیونکہ سارا سارا دن مختار کو ڈھونڈنے میں انہیں بھی صرف کرنا پڑتا جب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتے تو اس کے گوجرانوالہ پہنچنے کی اطلاع مل جاتی جو آج کل اوکاڑہ چھاؤنی کے نام سے مشہور ہے وہاں ریلوے کی تاریخ کا شدید اور بدترین حادثہ 1957ء میں رونما ہوا۔ اس حوالے سے ان دنوں ایک قصہ بھی چھپا تھا جو بہت مقبول ہوا۔ اس کے چند ابتدائی شعر مجھے آج بھی یاد ہیں۔
سن ستونجا دن اتوار سی
چودہ اسو چن دی تاریخ چار سی
اُدھروں انتی دن سے ستمبروں
چلی سی گڈی لاہوروں چار نمبروں

علی بخش کے گھر میں ہی اس کے چھوٹے بھائی کا ایک بیٹا ’’عاشق‘‘بھی تھا۔ وہ انتہائی شریف اور ملنسارتھا۔ تایا کے علاوہ گھرکے دوسرے افراد اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے والدین 1957ء میں گھمبیر ریلوے اسٹیشن پر سندھ ایکسپریس اور آئل سے بھری ہوئی ٹرین کے درمیان تصادم میں شہید ہو گئے تھے۔ ٹکرانے والی دونوں گاڑیوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور موت نے اپنے پاؤں اس قدر پھیلائے کہ کسی کو بھی وہاں سے بھاگنے کی مہلت نہیں ملی۔ سینکڑوں مسافر اور درجنوں مقامی لوگ اس سانحے میں شہید ہوئے۔ اس سانحے میں محمد عاشق کے والدین بھی لقمہ اجل بنے۔ وہ یہاں اپنی یتیمی کے دن گزار رہا تھا۔ وہ ہم سے خاصا مانوس تھا بلکہ ہمارے درمیان جلد ہی گہری دوستی ہو گئی۔ اس کی یہ خواہش تھی کہ وہ اسی گھرکا داماد بن جائے لیکن حالات اس کے لئے سازگار نہ تھے۔ بہرکیف ایک دن اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ رانو اور عاشق کی شادی ہو گئی۔ اس شادی پر جہاں عاشق خوش تھا وہاں سارے محلے والے بھی خوش تھے کہ چلو ایک یتیم کا توگھر آباد ہوا۔ آج وہ ایک خوشحال گھرانے کے سربراہ کی حیثیت سے حسنین آباد میں باوقار زندگی گزار رہا ہے۔

لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن پر خان صاحب اسٹیشن ماسٹر تھے وہ بہت سخت طبیعت کے مالک تھے ان سے صرف ریلوے ملازمین ہی خوفزدہ نہیں تھے‘ ریلوے کوارٹروں کے بچے بڑے بھی ان سے ڈرتے تھے۔ جب کبھی وہ مسجد میں نماز کے لئے تشریف لاتے تو اخروٹ اور بانٹے (پل گولیاں) کھیلنے والے سب بچے‘ گھروں میں جا کر چھپ جاتے۔ ان دنوں علم دین اسٹیشن ماسٹر کا کلرک تھا وہ بھی خان صاحب سے خوفزدہ رہتا تھا۔ ایک مرتبہ علم دین مسجد میں اذان دے رہا تھا۔ خان صاحب مسجد میں موجود تھے اور وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ علم دین اذان دے رہا ہے۔ خان صاحب نے بے خیالی کے عالم میں علم دین کو آواز دے دی۔ علم دین اذان کے دوران ہی بول پڑا ’’یس سر۔‘‘ جب خان صاحب کو علم ہوا کہ علم دین اذان دے رہا تھا تو انہوں نے علم دین کو ڈانٹا کہ مجھے تو علم نہیں تھا لیکن تم کیوں بول پڑے۔ اس پر علم دین شرمندگی سے خاموش ہو گیا لیکن جو لوگ اذان کی آواز انہماک سے سن رہے تھے۔ وہ علم دین کی اس حرکت پر بہت حیران ہوئے ان میں سے کچھ نے مسجد میں پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔جب اصل واقعے کا علم ہوا تو کسی کی بھی ہنسی نہ رکتی تھی۔ علم دین اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کی روح کو سکون عطا فرمائے۔ آمین۔

ہمارے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر بشیر پانی والا رہتا تھا جس کی بیوی کا نام ’’شیداں‘‘ تھا۔ محلے کے بچے اسے ماسی شیداں کے نام سے پکارتے تھے جبکہ ہمارے کوارٹروں کی لائن کے بالکل پیچھے ایک کوارٹر میں برکت مسیح کی بیوی ’’برکتے‘‘ رہتی تھی ان دونوں کی کوارٹروں میں خاصی دہشت تھی ۔ پورے محلے کے واقعات کی ڈائری ہر لمحے ان کے پاس ہوتی۔ میری والدہ کو جتنی بھی باتوں کا علم ہوتا وہ ان دو خواتین کے حوالے ہی سے ہوتا۔ پورے محلے کی غمی‘ خوشی میں بھی وہ باقاعدگی سے شریک ہوتیں۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ دونوں میں کسی بات پر لڑائی ہو گئی ان دونوں کی زبانیں غلیظ گالیاں اگلنے لگیں۔ جب جذبات اس طرح بھی ٹھنڈے نہ ہوئے تو نوبت ہاتھا پائی پر آگئی۔ ماسی شیداں کے ہاتھ میں کپڑے دھونے والا بیٹ نما ’’تھاپا‘‘ تھا جو اس نے ماسی برکتے کے سر پر دے مارا۔ تھاپا مار کر ماسی شیداں کا غصہ تو ٹھنڈا ہو گیا لیکن ماسی برکتے کا سر پھٹ گیا اور وہ چکرا کر زمین پر گر گئی۔ چونکہ ماسی برکتے کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں تھی۔ اس لئے وہ کوئی جوابی وار کرنے میں ناکام رہی۔ اس معرکے کو دیکھنے کے لئے پورے محلے کی عورتیں اور بچے اکٹھے ہوگئے۔ لڑائیاں تو بہت دیکھی تھیں لیکن یہ اپنی نوعیت کی منفرد لڑائی تھی جس میں زبان کے ساتھ ساتھ اسلحے کا استعمال بھی کھلے عام کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد امن قائم ہو گیا اور کچھ عرصہ ان دونوں کے درمیان بول چال بھی بند رہی۔ اب دونوں بڑھاپے اور بیماری کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے جدا ہو چکی ہیں لیکن کوارٹروں کی تاریخ میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ماسی شیداں کی منہ بولی بیٹی نوری نے ان کی جگہ سنبھال لی ہے اور وہ اثر و رسوخ میں کسی سے کم نہیں اور باتوں میں اس سے کوئی جیت نہیں سکتا۔

جب میں ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا تو میرا بڑا بھائی اکرم جو سکول چھوڑ چکے تھے اور ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ والد صاحب کی کوششوں سے ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ پرکچا پانی والا کے طور پر بھرتی ہو گئے۔ ان کی یہ ملازمت صرف گرمیوں کے چھ مہینوں تک محدود ہوتی تھی جونہی گرمیوں کا موسم بدلتا تو کچے پانی والوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا۔ ابھی ملازمت ملے چند دن ہی گزرے تھے کہ بھائی اکرم سخت بیمار ہو گئے اور علالت کے باعث مسافروں کو پانی پلانے کا فریضہ انجام دینے سے قاصر ہو گئے۔ دوسری جانب مجھے سکول سے دو ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں۔ والدین نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے بھائی اکرم کی جگہ کچے پانی والے کی ڈیوٹی انجام دوں۔ والدین کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے میں نے ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ پر آنے والی گاڑیوں کے مسافروں کو بالٹی میں پانی بھر کر پلانا شروع کر دیا۔ میری ڈیوٹی میں صرف مسافروں کو پانی پلانا ہی شامل نہیں تھا۔ پکے پانی والے چاچا بشیر اور اسٹیشن پر کام کرنے والے کلرک اور اسٹیشن ماسٹر کے گھروں میں مانگا ہوا دودھ پہنچانا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ حالانکہ پانی والا بھی گریڈ ایک کا ملازم تھا لیکن چونکہ پکا تھا‘ اس لئے وہ افسر تھا اور میں اس کا ہر حکم ماننے پر مجبور تھا جبکہ اس سے پہلے میرے بڑے بھائی اکرم کی بشیر پانی والے سے کئی بار لڑائی بھی ہو چکی تھی جس کی شکایت بشیر پانی والا میرے والدین سے کر چکا تھا۔ میری طبیعت چونکہ بڑے بھائی اکرم سے مختلف تھی اور میں جھگڑنے کی بجائے صلح آشتی پر زیادہ یقین رکھتا تھا‘ اس لئے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو برداشت کر لیتا اور اسی صبر کی بناء پر دو ماہ کی چھٹیاں ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کو پانی پلانے میں صرف کر دیں۔ بہرکیف یہ میری زندگی کا اہم واقعہ ہے جس نے سکول کے زمانے ہی میں مجھے ملازمت کے رموز و اسرار سکھا دیئے۔

ریلوے کوارٹر تو آج بھی قائم ہیں لیکن نہ صرف ان کی خستہ حالی میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے بلکہ ان کوارٹروں میں رہنے والوں میں وہ الفت اور محبت بھی موجود نہیں جو ہمارے دور میں ہوا کرتی تھی۔ آج جب مجھے زندگی کی ہر نعمت حاصل ہے تو نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں چارپائی بچھا کر لیٹنا‘ امرودوں والے سے امرود کھانا‘ چاچا ابراہیم سے دو روپے گز کپڑا لینا اچھا لگتا تھا‘ وہ پانی کے نلکے اور مسجد کے غسل خانے جہاں ہم گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ ذہن سے اوجھل نہیں ہوتے۔ میری والدہ کی پکی سہیلیوں ماسی شیداں‘ ماسی برکتے‘ مینے کی امی‘ ماسی سلمیٰ‘ ماسی صغراں‘ ماسی سگری‘ ماسی خورشید کی پیاری باتیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ وہ مجھے جہاں بھی ملتی ہیں محبت بھرے لہجے میں سر پر ہاتھ پھیر کر ڈھیروں دعائیں دیتی ہیں۔ مردوں میں ولی کامل بابا عرفان‘چاچا عبدالحق‘ چاچا رفیع خاں‘ امتیاز احمد‘ عبدالواحد‘ یحییٰ خان‘ روزی خان‘ماما پیندے خاں‘ محمد حسین‘ عبدالستار‘ مصطفی علی ہمدانی‘ گرائیں (مسور کی دال) چاچا صادق مسیح جو جھاڑو پھیرنے کے ساتھ ساتھ پوری غزل اشعار میں کہہ جاتا تھا۔ چاچا کا ایک بیٹا جیمی بہت سریلی آواز کا مالک تھا‘ اس نے میری شادی پر ذاتی میوزک پر کئی گانے گائے۔ ان میں سے ایک گانا مجھے آج تک یاد ہے ’’پل پل دل کے پاس تم رہتی ہو‘‘ یوں تو ڈالی‘ چتاں اور صوبے کے بیٹے شوکے کی آواز بھی بہت سریلی تھی لیکن سُر کے اعتبار سے جیمی ہی سب سے آگے تھا۔ چاچا نذیر اور صوفی محمد رفیق کو بھی نہیں بھولتا ان میں سے ہر ایک منفرد کردار کا مالک تھا۔ دوستوں میں منیر حسین‘ اختر حسین‘ حکیم زادہ‘ محمد عاشق‘ محمدسلیم‘ محمد طارق‘ محمد اسلم‘ انور شاہ‘ بالی شامل تھے۔ کوارٹروں میں میری زندگی کے 20سال جو بہت خوب تھے۔ یہاں رہتے ہوئے میں نے پیپل کا ایک درخت بھی لگایا تھا جو آج بھی اپنے نیچے بیٹھنے والوں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔ میں اسے اپنا سب سے بڑا بیٹا ہی تصور کرتا ہوں جس سے مجھے بے پناہ محبت ہے۔ اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے اور درختوں کی چھاؤں میں دوپہر گزارنے کی بجائے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں‘ پیپل کی چھاؤں کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ بدقسمتی سے ہم انسانوں کی قدر نہیں کرتے‘ درختوں کی کیا کریں گے۔

ریلوے کوارٹروں میں قیام کے دوران ہم نے انجمن پٹھاناں کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی۔ میں قربان لائن تنظیم کا نائب صدر تھا جبکہ اس تنظیم کا مرکزی دفتر ارشد خاں لودھی کونسلر دھرم پورہ کے گھر پر قائم تھا۔ یہاں ہر جمعرات کی شام سارے لاہور کے نمائندے اکٹھے ہوتے‘ جہاں عنصر خاں کاکڑ جیسے شفیق بزرگ بھی اپنا قیمتی وقت نکال کر آتے بہت عرصے تک انجمن پٹھاناں کے اجلاس جاری رہے لیکن ارشد خاں لودھی کی رحلت کے بعد یہ تنظیم اپنی افادیت برقرار نہ رکھ سکی۔ حالانکہ آج بھی نہ صرف لاہور بلکہ پورے ملک میں پٹھان برادری کے لاکھوں خاندان آباد ہیں لیکن ان میں رابطے کا فقدان ہے۔ ان لمحات میں عنصر خاں کاکر کا سایہ شفقت پٹھان برادری کے لیے باعث رحمت ہے جو آج بھی اپنی زندگی کا زیادہ وقت پٹھان برادری کے درمیان رابطوں اور ان کی فلاح وبہبود پر صرف کر رہے ہیں۔ ان کی اس کاوش پر میں اور میرے دوست حامد رضا جناب عنصر خاں کاکڑ کے سپاس گزار ہیں۔

بہرکیف اجلاس میں شرکت کا اعزاز مجھے حاصل تھا۔ اس تنظیم میں عبد اﷲ خاں‘ تاج خان‘ عبدالرحمان‘ امیر حسین‘ محمد اسمٰعیل اور لال خان شامل تھے۔ خدا کے فضل و کرم سے مجھے پشتو اور شکر گڑھ سے تعلق رکھنے والے پٹھانوں کا یکساں اعتماد حاصل تھا۔ آج بھی اعتماد کا یہ رشتہ اسی طرح قائم ہے۔

(یہ کہانیاں میری سوانح عمری "لمحوں کا سفر" میں موجود ہیں ۔اس کے باوجود کہ میں اب بڑھاپے کی دہلیز پر آکھڑا ہوا ہوں اﷲ تعالی کے فضل وکرم سے میں نہ صرف ایک جوان بیٹی دو جوان بیٹوں کا باپ ہوں بلکہ میرے آنگن میں پوتے پوتیاں اور نواسے بھی کھیل رہے ہیں ۔ایک نواسہ حاشر محمود حافظ قرآن اوردوسرا نواسہ عالم دین بن رہا ہے ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کہانی کے بے شمار کردار اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ تیاری کے مراحل میں ہیں ۔


 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 669666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.