مجھے رسول پاک ﷺ نے فرمایا تم ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاؤ، ایک اسکول ٹیچر کی ایسی فریاد جس نے ڈپٹی کمشنر اور صدرِ پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا

image
 
قدرت اللہ شہاب کا شمار پاکستان کی بیوروکریسی کے ان افراد میں ہوتا ہے جنہیں اشفاق احمد ایک اللہ والا قرار دیتے تھے- انہوں نے اپنی جاب کے دوران ہونے والے واقعات پر شہاب نامہ نامی ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس میں بہت سارے ایسے واقعات تھے جو انسان کی آنکھیں کھول دینے والے تھے-
 
شہاب نامہ سے ماخوذ ایک واقعہ
آج ہم آپ کو شہاب نامہ میں تحریر کیا گیا ایک واقعہ بتائيں گے یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قدرت اللہ شہاب جھنگ میں بطور ڈپٹی کمشنر کام کر رہے تھے- ان کا کہنا تھا کہ ایک دن جب وہ دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے ملاقات کے لیے ایک پرائمری اسکول کے ٹیچر رحمت الہی آئے جو کہ چند ماہ میں ریٹائر ہونے والے تھے-
 
استاد رحمت الہی اور قدرت اللہ شہاب
رحمت الہی نے بہت جھجکتے ہوئے قدرت اللہ شہاب کو اپنا مسئلہ بتایا ان کا کہنا تھا کہ ان کی تین بیٹیاں ہیں اور ان کے پاس رہائش کے لیے کوئی مکان نہیں ہے چند ماہ بعد جب وہ ریٹائر ہو جائيں گے تو ان کو پنشن کی مد میں بہت کم رقم ملے گی۔
 
ان کے پاس سر چھپانے کو کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا دوسری طرف ان کو اپنی تینوں بیٹیوں کی شادی بھی کرنی ہے ان تمام باتوں نے ان کو بہت پریشان کر دیا ہے کہ آنے والے وقت میں وہ کیسے زندگی کے مسائل کا سامنا کریں گے-
 
image
 
تہجد میں اللہ سے مدد
استاد رحمت الہی نے قدرت اللہ شہاب جو اس وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر تھے ان کو بتایا کہ ان تمام فکروں نے ان کی نیندیں اڑا دی ہیں اور وہ کئی ماہ سے ہر روز تہجد میں بیٹھ کر اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں گڑگڑا کر مدد مانگتے ہیں-
 
استاد رحمت الہی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ان کو خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زيارت ہوئی اور انہوں نے ارشاد فرمایا کہ تم یعنی استاد رحمت الہی جھنگ جا کر وہاں کے ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاؤ وہ تمھاری مدد کر دے گا-
 
قدرت اللہ شہاب کا تذبذب
اس موقع پر قدرت اللہ شہاب کو محسوس ہوا کہ جیسے یہ شخص جھوٹا خواب سنا کر ان کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہ رہا ہے لیکن جب استاد رحمت الہی نے ان کو شش و پنج میں دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے- اس نے کہا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے اور اتنی عظیم ہستی کے نام پر تو جھوٹ بولنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے-
 
جس پر قدرت اللہ شہاب نے سوچا کہ جس شخصیت کا نام لے کر یہ بندہ مدد مانگ رہا ہے اس کے نام کی لاج رکھنا ان پر فرض ہے اس وجہ سے انہوں نے استاد کو کہا کہ وہ تین ہفتے بعد آئے وہ تب تک کچھ کرتے ہیں-
 
اس دوران قدرت اللہ شہاب نے اپنے ذرائع سے استاد رحمت الہی کے حالات کے حوالے سے تحقیق کی تو ان کو پتہ چلا کہ اس شخص نے جو حالات بیان کیے ہیں وہ بالکل درست ہیں-
 
قدرت اللہ شہاب کی جانب سے مدد
ان دنوں حکومت کی طرف سے ڈپٹی کمشنر کے پاس یہ اختیار موجود تھا کہ وہ حکومت کی غیر آباد زرعی زمین میں سے آٹھ ایکڑ تک کسی غریب کو طویل المعیاد عرصے کے لیے دے سکتے تھے تاکہ وہ اس زمین کو آباد کرے اور یہاں پر فصل وغیرہ لگائے-
 
تین ہفتوں بعد جب استاد رحمت الہی آیا تو انہوں نے استاد رحمت الہی کے حوالے سڑک کنارے ایسی آٹھ ایکڑ زمین کے کاغذات کر دیے اور اس کو کہا کہ وہ اس زمیں پر فصل لگا کر اپنا گزارا کرلے-
 
image
 
نو سال بعد استاد رحمت الہی کا خط
اس واقعہ کو نو برس گزر گئے ان دنوں قدرت اللہ شہاب کی ڈیوٹی اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان کے ساتھ تھی کہ ان کو ایک رجسٹری وصول ہوئی جس میں ایک خط تھا جو استاد رحمت الہی کی جانب سے تھا- جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ گزشتہ نو سالوں میں اس زمین کی آمدنی سے انہوں نے اپنی تینوں بیٹیوں کی شادی کر دی اس کے علاوہ انہوں نے اور ان کی بیوی نے حج بھی کر لیا اور ایک چھوٹا سا گھر بنا کر اپنے گزارے کے لیے زمین بھی خرید لی ہے- اس وجہ سے ان کو اب ان آٹھ ایکڑ کی ضروت نہیں ہے لہٰذا یہ واپس لے لیں اور کسی اور ضرورت مند کو دے دیں-
 
صدر ایوب خان کی بڑی آفر
قدرت اللہ شہاب کا یہ کہنا تھا کہ یہ خط پڑھ کر وہ سکتے کے عالم میں رہ گئے اسی دوران صدر ایوب خان کسی کام سے ان کے کمرے میں آئے اور ان کو اس حالت میں بیٹھے دیکھ کر ان سے وجہ دریافت کی-
 
قدرت اللہ شہاب نے جب ان کو یہ سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی بہت حیران ہوئے اور انہوں نے قدرت اللہ شہاب کو آفر کی کہ وہ یہ زرعی زمین ان کے نام کروا دیتے ہیں- مگر چونکہ قدرت اللہ شہاب ایک اللہ والے انسان تھے تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسی زمین کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ انسان کو صرف دو گز زمین کی ضرورت ہوتی ہے جو مرنے کے بعد اس کو مل ہی جانی ہے تو وہ باقی زمین اپنے نام کروا کر کیا کریں گے-
 
ماضی کے یہ واقعات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے دور میں سرکاری ملازم ہوں یا عام آدمی دوسروں کی زمین پر قبضے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور کیسے بھلے لوگ تھے جو کہ ہاتھ آئی چیز کو بھی آخرت کے خوف سے واپس کر رہے تھے-
YOU MAY ALSO LIKE: