اکتوبر کے اواخر میں وزیر اعظم گجرات کے دورے پر آتے ہیں
اور یکم نومبر کو موربی کا دورہ کرکے دہلی لوٹ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ۵؍نومبر
کو ہماچل پردیش کی انتخابی مہم پر نکل جاتے ہیں ۔ وہاں سے لوٹ کر بحالتِ
مجبوری بالی کے اندر جی ٹوینٹی کی نشست میں جانا پڑجاتا ہے اور واپسی کے
بعد دودن نہیں گزرتے کہ پھر تین دن کے لیے گجرات پہنچ جاتے ہیں۔ پرچار
منتری کی اس بھاگ دوڑ کو دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر وزیر اعظم کے
طور پر جو ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے اس کو وہ کب اور کیسے ادا کرتے ہوں
گے؟بی جے پی کیڈر والی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے ۔ اس میں بیک وقت کئی
اسٹار پرچارک ہیں ۔ اس کے پیچھے سنگھ کا دماغ اور طاقت ہے۔ پچھلے ستائیس
سال سے وہ گجرات میں حکومت کررہی ہے۔ اس کے باوجود ایک سابق کانگریسی
ہیمنتا کماربسوا کو آسام سے بلانا پڑتا ہے۔ وزیر داخلہ قدم رنجا فرماتے
ہیں اور ان سے بھی بات نہیں بنتی تووزیر اعظم کو خود وارد ہوجاتے ہیں ۔ کیا
اس ’جل بن مچھلی ‘والی کیفیت کی وجہ انتخابی ناکامی کا خوف نہیں ہے؟وزیر
اعظم جانتے ہیں کہ اگر گجرات ہار گئے تو دلیّ کی ہاد دور نہیں ہوگی ۔ ان کی
حالت پر تو فی الحال یہ شعر صادق آتا ہے؎
چین اک پل نہیں اور کوئی حل نہیں
دل ہے گھائل مگرآنکھ جل تھل نہیں
گجرات میں بی جے پی کو مسائل درپیش ہیں ان بغاوت کا معاملہ سب سے زیادہ
سنگین ہے۔ یہ مسئلہ ہماچل پردیش میں بھی تھا مگر وہاں ں صرف ایک چوتھائی
ارکان اسمبلی کے ٹکٹ کٹےتھے جبکہ گجرات میں یہ تناسب پچاس فیصد ہے۔ پچھلی
مرتبہ بی جے پی کے کل ۹۹ ؍ ارکانِ اسمبلی کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار ان میں
سے پچاس کا ٹکٹ کٹ گیا ہے۔ جن لوگوں کا ٹکٹ کٹا ان میں سابق وزیراعلیٰ وجئے
روپانی اور سابق نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل بھی شامل ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ
آنندی بین سے لڑائی کرکے پارٹی کے سابق صدر امیت شاہ نے پٹیل تحریک کا
بہانے اپنے خاص آدمی وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کردیا تھا
۔ یہ نہایت احمقانہ فیصلہ تھا کیونکہ پٹیل برادری احتجاج کررہی تھی ایسے
میں ان کے زخموں پر نمک ڈالنے کے لیے حریف برادری کے نہایت نااہل وجئے
روپانی کو وزیر اعلیٰ بنانا سیاسی خودکشی تھا ۔ امیت شاہ اور نریندر مودی
کی بیجا خود اعتمادی نے ان سے یہ حماقت کروائی تھی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا
کہ گزشتہ انتخاب سے 15 سال قبل جو بی جے پی 127 پر تھی وہ گھٹ کر 99پر
آگئی۔ عوام نے ان دونوں کا غرورتوڑ دیا ۔
بی جے پی کو اپنی اس غلطی کا احساس پانچ سال بعد ہوا ، اس لیےحالیہ الیکشن
سے سواسال قبل وجئے روپانی کو ان کے نائب سمیت فارغ کردیا گیا۔ گجرات میں
پھر سے پٹیل برادری کے بھوپیندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ یہ انتخاب
بڑی مشکل سے ہوا کیونکہ پچھلے بیس سالوں میں نریندر مودی نے بی جے پی کے
اندر کسی لیڈر شپ کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ اس لیے نہایت جونیر رہنما کو وزیر
اعلیٰ کا عہدہ سونپنا پڑا ۔ اس بار جن کے ٹکٹ کٹے ہیں ان میں سے تین درجن
کی بغاوت ظاہر ہوگئی ہے باقی خاموشی سے کچھ نہ کچھ کارستانی کررہے ہیں ۔
پچھلی بار پٹیل تحریک نے جس طرح نقصان پہونچایا اس بار وہ باغیوں سے ہوگا۔
ان کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ انہوں نے وزیر داخلہ کی موجودگی میں پارٹی
صدر دفتر ’کم لم‘ کے باہر زبردست مظاہرہ کیا ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ دفتر
کو تالہ لگا کر میٹنگ کرنے کے لیےمیڈیا سینٹر جانا پڑا ۔ اس واقعہ نے
چانکیہ کا رعب داب خاک میں ملا دیا ۔
مودی اور شاہ کی مرعوبیت کا شکار لوگ پریشان ہیں کہ آخر گجرات جیسے صوبے
میں اس قدر بغاوت کیوں ہے؟ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ ان
کے نااہل رہنما انتخاب جیتنے کے بعد کمانے دھمانے لگ جاتے ہیں۔ عوامی فلاح
وبہبود کا چونکہ کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے لوگوں میں ناراضی پھیل جاتی ہے
اور اس امیدوار کا دوبارہ کامیاب ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔یہ انفرادی لالچ کا
معاملہ ہے لیکن بی جے پی میں بغاوت کی دوسری وجہ اس کی اجتماعی حرص و ہوس
ہے ۔ وہ لوگ اپنی انتخابی ناکامی کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے بعد چور
دروازے سے سازش کرتے ہیں یعنی دیگر جماعتوں کے کامیاب ارکان اسمبلی کوخرید
کر اپنی پارٹی میں شامل کرلیتے ہیں ۔ اس سے عارضی طور پر فائدہ ہوتا ہے اور
ایوان اسمبلی میں مخالفین کمزور ہوجاتےہیں۔ بی جے پی کو من مانی کا زیادہ
موقع مل جاتا ہے لیکن الیکشن کے وقت ایسے حلقۂ انتخاب میں دو دعویدار پیدا
ہوجاتے ہیں۔ ایک تو وہ جو دیگر جماعت سے جیت کربی جے پی میں آیا اور دوسرا
اپنی پارٹی کا وفاداررہنما جو پچھلی بار کسی وجہ سے ہار گیا تھا ۔ اب دونوں
کو ٹکٹ دینا توممکن نہیں ہوتا اس لیے جس کو نہیں ملتا وہ بغاوت کرجاتا ہے۔
مہاراشٹر میں اسی سبب سے شیوسینا سے الحاق کے باوجود بی جے پی کی دس نشستیں
کم ہوگئی تھیں۔
گجرات میں بغاوت کے معاملہ کو بڑودہ کے پادرہ کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔
وہاں کی تعلقہ پنچایت میں جملہ 28 میں سے 16 بی جے پی کے تھے ۔ پادرہ کے
مقامی رہنما دنیش پٹیل کو بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو پنچایت کے سارے
ارکان کے ساتھ انہوں نے پارٹی چھوڑ دی اور وہ صفر پر آگئی۔ پٹیل نے آزاد
امیدوار کی حیثیت سے 2007 میں انتخاب جیتا اس کے بعد 2012 میں وہ بی جے پی
کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ۔ پچھلی بارپادرہ کے چیتنیا زالا نامی بی جے پی
رہنما پارٹی سے بغاوت کرکے کانگریس میں جاکر اس کے جسپال سنگھ ٹھاکور کو
کامیاب کردیا ۔ اس بار بی جے پی نے چیتنیا کو پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ دے
دیا ۔ اس داخلی مہا بھارت کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے ۔
آگے جو ہوگا سو ہوگا فی الحال ایک میونسپل کارپوریشن سے بی جے پی کا سپڑا
صاف ہوگیا۔ بی جے پی اگر اس بار ہار جائے تو نہ جانے دنیش پٹیل جیسے کتنے
لوگ بی جے پی کو رام رام کہہ کر اس کا رام نام ستیہ کردیں گے۔
بی جے پی اپنے آپ کو نظریاتی جماعت اور کیڈر والی پارٹی کہتی ہے لیکن اس
کی سیاست پوری طرح ابن الوقتی اور موقع پرستی پر منحصر ہے ۔ اس کی بہترین
مثال گودھرا سے بی جے پی رکن اسمبلی سی کے راول جی ہے۔ یہ آدمی زندگی بھر
کانگریس میں رہا لیکن پچھلے الیکشن سے قبل بی جے پی میں آگیا۔ اس کی فتح
کا فرق صرف 253 ووٹ تھا ۔ گجرات میں روپانی اور نتن پٹیل کا ٹکٹ تو کٹ گیا
مگر راول جی کا نہیں کٹا کیونکہ اس نے بلقیس بانو کے اہل خانہ کے قاتلوں کو
رہا کرنے کی حمایت کی اور اس کو بڑی بے حیائی سے جائز ٹھہرایا۔ یہ وہی
نامعقول آدمی ہے جس نے کہا تھا ان سفاک مجرمین کا جیل میں اخلاق بہت اچھا
تھا اور ویسے بھی برہمنوں کے سنسکار بہت اچھے ہوتے ہیں ۔ راول کی اس
بدمعاشی نے بی جے پی کےرہنماوں کو خوش کردیا ۔ اس طرح پارٹی کو احمق بناکر
یہ دوبارہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
گجرات میں بی جے پی کا دوسرا سر درد اروند کیجریوال ہے ۔ اس سےقبل بی جے پی
کانگریس کو فرقہ پرستی کے مسائل میں الجھا کر انتخاب جیت جاتی تھی۔ اس کی
ابتداء گودھرا کے بہانے ہونے والے فسادات سے ہوئی ۔ مودی جی نے فساد کی
مخالفت کرنے والوں کو رام بھکتوں کے قاتلوں کا حامی قرار دے دیا۔ اس کے بعد
سہراب الدین کے ماورائے قانون قتل کی مخالفت کو انڈر ورلڈ کی حمایت کا نام
دے دیا ۔ عشرت جہاں کو پاکستانی ایجنٹ بتاکر اس کے انکاونٹر کی مذمت کرنے
والوں کو پاکستان کا حامی قرار دے دیا اور الیکشن میں کامیابی درج کراتے
رہے ۔ اس بار کیجریوال نے بنیادی مسائل مثلاً بجلی ،سڑک ، تعلیم اور صحت کو
انتخاب کا مرکزی موضوع بنا دیا۔ بی جے پی اب ان پر گفتگو کرنے پر مجبور ہے
لیکن چونکہ ستائیس سالوں میں وہ صرف ایک جعلی گجرات ماڈل بیچتی رہی اور
کوئی ٹھوس کام نہیں کیا اس لیے ان مسائل پر اس کے لیے رائے دہندگان کو
متاثر کرنا مشکل ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے امیت شاہ کا نگریس کو یکساں سیول کوڈ
پربولنے کے لیے اکساتے ہیں لیکن وہ ہوشیار ہوچکی ہے اس لیے ان کے جال میں
پھنسنے سے گریز کررہی ہے۔
راہل گاندھی کی یاترا تو گجرات نہیں آئی ان کا درمیان میں دو دن کے لیے
ریاست میں آنا مودی جی کو بے چین کرگیا ۔ انہوں نے کہا راہل کے ساتھ گجرات
مخالف نرمدا بچاوتحریک کی رہنما میدھا پاٹکر ہیں ۔ جن لوگوں کے گھر ڈوب گئے
کیا وہ گجراتی نہیں تھے ؟ کیا ان کے حقوق کی جنگ گجرات کی مخالفت تھی؟ آخر
کب تک ان افواہوں پر الیکشن لڑا جائے گا ؟ مودی نے کہا پدیاترا اقتدار کا
سفر ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ بار بار دہلی سے گجرات آنا اور دروازے
دروازے جاکر ووٹ مانگنا کیا ہے؟ وزیر اعظم بار بار دوڑ کر گجرات تو آرہے
ہیں لیکن ان کی انتخابی تقریر میں الزام تراشی اور ہمدردی بٹورنے کے سواکچھ
نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے مخالفین مجھے اوقات بتانا چاہتے ہیں ۔ وہ شاہی
خاندان کے لوگ ہیں اور میں ایک خادم ہوں میری اوقات ہی کیا ہے؟ مودی نے یاد
دلایا ماضی میں وہ ان کے لیے نیچ آدمی۔ موت کا سوداگر اور نالی کا کیڑہ
جیسے الفاظ استعمال کرچکے ہیں۔ ستائیس سال حکومت کرنے کے بعد اس طرح ہمدردی
جٹانا شرمناک نہیں تو اور کیا ہے؟ وزیر اعظم کی الزام تراشی اور عوام کی
سرد مہری پر صابر ظفر کی غزل کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
منجمد ہے وجود،کوئی ہلچل نہیں
چھوڑ میری خطا،تُو تو پاگل نہیں
|