آر ایس ایس : ریموٹ کنٹرول کی بیٹری فیل

ایک زمانہ ایسا تھا جب وزیر اعظم نریندر مودی اپنے غیر متوقع بیانات سے لوگوں کو چونکا دیتے تھے ۔ آج کل یہ کام راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کررہے ہیں ۔ ا بھی حال میں جبل پور کے اندر موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا وہ کسی کے تصور خیال میں نہیں تھا ۔ وہ بولے ’’ ہندوستان زبان، تجارتی مفاد، سیاسی طاقت اور سوچ کی بنیاد پر ایک ملک نہیں بنا‘‘۔ یعنی انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس ملک پر کسی ایک فکر و نظریہ کی اجارہ داری نہیں چل سکتی کیونکہ یہاں کوئی فکری ہم آہنگی موجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح کے بیانات تو سنگھ مخالف لوگ دیا کرتے تھے اور وہ ان کی یہ کہہ کر تردید کیا کرتا تھا کہ ہندو، ہندی ، ہندوستان کی بنیاد پر نہ صرف اس ملک بلکہ پورا برصغیر اکھنڈ بھارت ہے۔ اس خطے میں بسنے والے سارے لوگوں کا قومی تشخص صرف اور صرف ہندوتوا ہے ۔ بھاگوت خود بھی ہندوستان میں بسنے والے سارے لوگوں کو ہندو کہہ چکے ہیں لیکن اب وہ کہہ رہے ہیں’’ یہ تنوع میں اتحاد اور وسودھیو کٹمبکم (دنیا ایک خاندان ہے) کی بنیاد پرایک قوم بن گئی ہے‘‘۔

یہ اعلان آر ایس ایس کے نظریہ حیات سے براہِ راست ٹکراتا ہے۔ سنگھ کے نظریہ ساز سربراہ گرو گولوالکر نے اپنی معروف تصنیف ’ہم یا ہماری قومیت کی تعریف‘ کے دیباچہ میں یہ وضاحت کردی تھی کہ وہ قوم کو ایک تہذیبی اکائی اور ریاست کو سیاسی اکائی مانتے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستانی قوم سے مراد صرف ہندو قوم ہے۔ گولوالکر کے مطابق ہر قوم کی تشکیل کے لیے پانچ عناصریعنی جغرافیہ، نسل ، مذہب، تہذیب اور زبان کی یکسانیت لازمی ہے۔ اس لیے وہ ہندوستانی قومیت کی تشکیل کے لیے ہندو نسل، ہندو مذہب ، ہندو تہذیب اور ہندی زبان کو شرطِ لازم قرار دیتے ہیں ۔ گرو گولوالکر نے تو اپنی کتاب میں اصلی قوم یعنی ہندووں کے غیروں کے ساتھ رویہ پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے لیکن اس کو بالائے طاق رکھ کر آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ نےدانشوروں اور عمائدین شہر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندوتوا کا ایک انوکھا تعارف پیش کردیا۔

سر سنگھ چالک نے نہ صرف یہ کہا کہ’’ہندوتوا کا مطلب سب کو اپنانے کا فلسفہ ہے‘‘ بلکہ وہ آگے بولے ’’ ہندوستانی آئین کا دیباچہ ہی ہندوتوا کی اصل روح ہے۔‘‘ سنگھ کے نظریہ ساز گرو گولوالکر اگر آج حیات ہوتے تو موجودہ سربراہ کی زبان سے یہ سن کر بے ہوش ہوجاتے کیونکہ انہوں نے تو کہا تھا’’ہمارا آئین بھی مغربی ممالک کےکئی دساتیر کے مختلف دفعات کو ملا کر(تشکیل دی جانے والی) ایک بوجھل اور متضاد دستاویز ہے۔ اس میں قطعی طور پر کچھ نہیں ہے جسے ہمارا اپنا کہا جا سکتا ہے۔ کیا اس کے رہنما اصولوں میں ایک لفظ بھی ہمارے قومی مشن کی وضاحت کرنے والا اور ہماری زندگی میں کلیدی حیثیت کی حامل چیز کی رہنمائی ہے؟‘‘ اس سوال کے بعد وہ خود جواب دیتے ہیں ’’نہیں!‘‘۔ موہن بھاگوت یہ کہہ سکتے ہیں کہ گروجی کی یہ بات حالاتِ حاضرہ سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن اس معرفت سے قبل سنگھ ملک کو نقصان پہنچا چکا ہے اس کی بھرپائی کیسے ممکن ہوگی؟

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے دستور سازی کے وقت ہندو کوڈ بل کا جومسودہ تیار کیا،اس میں ہندو پرسنل لاکے اندراصلاحات متعارف کروا کر خواتین کے لیے وراثت اور دیگر حقوق کو یقینی بنایا ۔ اس کے خلاف گروگولوالکر نے اعلان کیا تھا کہ خواتین کو حقوق دینے سے مردوں کےاندر "بڑی نفسیاتی ہلچل" پیداہوگی اور وہ "ذہنی بیماری و پریشانی کا باعث بنے گا"۔ امسال دسہرہ میں پہلی بار دو مرتبہ ایورسٹ کی چوٹی کو سر کرنے والی واحد ہندوستانی خاتون کوہ پیما سنتوش یادوکومہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی اور ان کی موجودگی میں موہن بھاگوت نے کہا کہ ’’طاقت امن کی بنیاد ہے اور ہمیں خواتین کے ساتھ مساوی سلوک کرنے اور انہیں اپنے فیصلے خود کرنے کے لیے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ خواتین کے بغیر معاشرہ خوشحال نہیں ہو سکتا‘‘۔ اس خوشگوار تبدیلی سے پتہ چلتا ہے کہ آر ایس ایس حقائق کے اعتراف کی جانب بڑھ تو رہی ہے لیکن اپنی منزل تک پہنچنے میں اس ے کتنا وقت لگے گا اور اس وقت تک کتنا نقصان ہوچکا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا ؟

26جنوری 1950کو ہندوستان کا دستور نافذ تو ضرور ہوا مگر اس کو دوماہ قبل منظور ی مل چکی تھی۔ آئین کے نافذ ہونے سے قبل11 دسمبر، 1949 کو، آر ایس ایس نے دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا، جہاں کئی مقررین نےہندو کوڈ بل کی مذمت کی اور ایک نے تو اسے 'ہندو سماج پر ایٹم بم'قرار دے دیا … اگلے دن آر ایس ایس کے کارکنوں کے ایک گروپ نے ، 'ہندو کوڈ بل کو ختم کریں' کے نعرے لگاتے ہوئے اسمبلی کی عمارتوں پر مارچ کرکے اپنا احتجاج درج کرا نے کی خاطر وزیر اعظم اور ڈاکٹر امبیڈکر کے پتلے جلائے۔ ہندوستان کے آئین کا ہندو کوڈ بل آج بھی موجود ہےاس لیےسوال یہ ہے کہ وہی دستور اب ہندوتوا کی روح کیسے بن گیا ؟

آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان آرگنائزر نےدستور کی منظوری کے فوراً بعد 30 نومبر 1949 کے اداریہ میں شکایت کی تھی ’’ ہمارے آئین میں قدیم بھارت کی منفرد آئینی ترقی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ منو کے قوانین اسپارٹا کے لائکرگس یا فارس کے سولون سے بہت پہلے لکھے گئے تھے۔ منوسمرتی میں بیان کردہ وہ قوانین آج بھی دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو از خود اطاعت کی جانب ابھارتے ہیں اور(حالات سے) مطابقت رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے آئینی ماہرین کےنزدیک اس کا کوئی مطلب (اہمیت ) نہیں‘‘۔ اس تراشے میں جس منو سمرتی کا حوالہ دیا جارہاہے اس کو ڈاکٹر بابا امبیڈکر نے اس لیے نذرِ آتش کیا تھا کیونکہ وہ ذات پات کے امتیاز کا مذہبی جواز فراہم کرکےاس کی تائید کرنے والی کتاب ہے ۔اس کے برعکس موہن بھاگوت اب فرماتے ہیں کہ ’’ ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کرنا ادھرم(لا دینیت ) ہے‘‘۔ انہوں نے بھی کہہ دیا کہ یہ مذہب کے دائرے سے باہر ہے۔ امسال سہرہ ریلی میں انہوں نےسنگھ کے رضاکاروں سے اس کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد کرنے کی اپیل کی۔ موہن بھاگوت نے کہا کہ اگر سنگھ کے رضاکار کوشش کریں تو سماج سے عدم مساوات کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں موہن بھاگوت کا یہ بیان اپنے گرو سے کھلی بغاوت ہے۔

آر ایس ایس سربراہ نے دھرم یعنی دین کی بابت فرمایا کہ’’ دھرم کا مطلب مذہب یا عبادت کا نظام نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب نظم و ضبط کے ساتھ فرائض کی انجام دہی ہے‘‘۔ ان فرائض کا تعین کون کرے گا اس موضوع پر وہ کچھ نہیں بولے لیکن پہلے چونکہ ہندوستانی آئین کی دہائی دے چکے تھے اس لیے اس کے معنیٰ آئینی فرائض ہی لیے جائیں گے الاّ یہ کہ وہ آگے چل کر اس کی تردید کردیں ۔ موہن بھاگوت کی جانب سے کی جانے والی کچھ تبدیلیاں تو علامتی نوعیت کی ہیں مثلاً سنگھ کی پہچان خاکی نیکر کو انہوں نے نیلی پتلون سے بدل دیا مگر تحریک کے نظریات کو وہ جس طرح ایک ایک کرکے از خود مسمار کررہے ہیں ایسا تو ان کے کسی دشمن نے بھی نہیں کیا۔ یہ سب اگر ایمرجنسی کے زمانے میں ہوتا تو لوگ سوچتے کہ قیدو بند کی سختیوں سے خوفزدہ ہوکر سنگھ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت یہ کررہا ہے لیکن مودی یُگ میں تو ایسا کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔

اس کےفاسد نظریات کے علی الرغم سنگھ کے نظم و ضبط کا اعتراف تو اس کے دشمن بھی کرتے تھےلیکن سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے اپنے جبل پور کے خطاب اس کی بھی دھجیاں اڑا دیں ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سنگھ تو صرف شاکھا کو منظم کرکےلوگوں کو ملک کیلئے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔’’سنگھ کا کام ہے عادت ڈالنا‘‘ ۔ ایک خود ساختہ انقلابی تنظیم کی اس کسمپرسی کا ایک خاص تناظر جو انہوں نے آگے بیان کیا۔ بھاگوت بولے جب بھی سنگھ کا نام آتا ہے، آپ مودی جی کا نام لیتے ہیں۔ ہاں مودی جی سنگھ کے پرچارک اور سویم سیوک بھی رہے ہیں ۔ وی ایچ پی کو بھی ہمارے سویم سیوک چلاتے ہیں۔ لیکن سنگھ ان پر براہ راست یا ریموٹ کنٹرول نہیں کرتا، وہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں، لیکن ان کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ کہاں ڈسپلن کا بلند بانگ دعویٰ اور کہاں یہ لاچاری؟ ساری دنیا سمجھتی ہے کہ دہلی دربار ناگپور کے اشارے پر چلتا ہے لیکن بھاگوت نے اعتراف کرلیا کہ اس ریموٹ کنٹرول کی بیٹری فیل ہوچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں مودی جیسے افراد یا وی ایچ پی جیسی ذیلی تنظیمیں اپنی من مانی کرنے لگی ہیں ۔ اس لیے سر سنگھ چالک ن کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے تنگ آکر اپنا پلہ جھاڑ رہے ہیں۔

آر ایس ایس عنقریب اپنی عمر کے سو سال پورے کرنے والی ہے ۔ اس کے جشن کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے لیکن ایسے میں سر سنگھ چالک کا یہ کہہ دینا کہ ’’ ایک شخص یا ایک تنظیم یا ایک سیاسی تنظیم بڑی تبدیلی نہیں لا سکتی‘‘ کوزے میں سمندر سمانے جیسا ہے۔ اس میں نہ صرف مودی جی کے نعرہ’مودی ہے تو ممکن ہے کو مسترد کردیا ہے بلکہ آر ایس ایس کو بھی لپیٹ لیا گیا ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اگر اقتدار میں آنے بعد بھی تبدیلی لانے سے قاصر ہے تو کب لائے گا ؟ یہ تو مایوسی کی انتہا ہے۔ اس تنظیم کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو اسے موہن بھاگوت سے قبل اور اس کے بعد کے ادوار میں تقسیم کیا جائے گاکیونکہ اس عرصے میں جملہ ۶؍ لوگوں کو سربراہی کا موقع ملا اوردرمیان میں ایک سال کے لیےلکشمن واسودیو پرانجپے کارگزار سربراہ بنائے گئےلیکن کسی نے آر ایس ایس کے تعلق سے اتنا کنفیوژن نہیں جتناموہن جی بھاگوت کے حصے میں آیا اور سنچری مکمل کرنے قبل انہوں اپنی تنظیم نظریاتی اور عملی کایا پلٹ کر پول کھول دی ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450730 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.