قونصل خانہ یا ایکسائز دفتر

جدہ میں پاکستانی قونصل خانہ دیکھ کر مجھے لاہور کا ایکسائز دفتر یاد آگیا جہاں آپ پیدل گذر رہے ہو توں ہر قدم پر ایجنٹ بیٹھا للچائی نظروں سے آپکو دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ کچھ سے تو صبر ہی نہیں ہوتا وہ پوچھ ہی لیتے ہیں کہ بھائی جی کیا کام ہے ایسا ہی کچھ منظر یہاں بھی نظر آتا ہے جدہ سمیت سعودی عرب میں جہاں جہاں پاکستانی کام کررہے ہیں انہیں جب کسی کام کے سلسلہ میں جدہ قونصلیٹ جانا پڑتا ہے تو پھر جو کھجل خواری انکے حصہ میں آتی ہے وہ ناقابل بیان ہے بلکہ وہاں سے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے نکلتے ہیں جدہ میں بہت سے پاکستانیوں سے ملاقاتیں بھی ہوئی کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہمیں اپنے قونصل خانے جاکر بڑی خوشی ہوئی بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس دفتر میں بیٹھے ہوئے افراد کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے ہم دشمن ملک کے باشندے ہوں جدہ میں بہت سے پاکستانی لوگ محنت مزدوری جو پیسہ پاکستان بھجواتے ہیں اس پر ہم ہماری حکومت بغلیں بجاتی ہے کہ باہر سے اتنا زرمبادلہ پاکستان آیا مگر جن کی وجہ سے یہ سارا کچھ ہورہا ہے انہیں ہمارا سفارتی عملہ پانی کا گلاس تو درکنار عزت تک نہیں دیتااسی وجہ سے بعض اوقات بات لڑائی جھگڑے پر ختم ہوتی جب نظام کمپیوٹرائز نہیں تھا اس وقت دور دراز سے آئے ہوئے لوگ ساری ساری رات باہر گذارنے پر مجبور ہوتے اور صبح ہوتے ہی لائن اتنی لمبی لگ جاتی کہ پوری گلی میں لوگ ہی لوگ ہوتے پھر بھی باری نہ آتی اب بہت سے مسئلے سسٹم آن لائن ہونے کی وجہ سے ختم ہوچکے ہیں مگر اسکے باوجود یہاں کے عملہ کا رویہ تبدیل نہیں ہوا قونصلیٹ صاحب کسی سے ملتے نہیں انکے سیکریٹری کسی کی سنتے نہیں اور جو یہاں پر پریس سیکریٹری ہیں وہ خود دفتر سے غائب رہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جدہ کے سفارہ میں سب پاکستان سے سرکاری خرچ پر چھٹیاں منانے آئے ہوئے ہیں اگر کوئی ان سے ملنے کی درخواست لیکر جائے تو انہیں شدید ناگوار گذرتا ہے اس بات کا تو میں خود عینی شاہد بھی ہوں اور انکے بارے میں رہی سہی کسر یہاں موجود پاکستانیوں نے پوری کردی لامحالہ بات ہے کہ جہاں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی رہ رہے ہوں وہاں انکے کچھ نہ کچھ مسائل بھی ہوتے ہے جن کو حل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے خاص کر میڈیا کے لوگوں سے رابطہ پریس سیکریٹری کا کام ہوتا ہے یہاں پر موجود صحافی بھائیوں کے ساتھ انکا رویہ کیسا ہے کچھ کہہ نہیں سکتا مگر پاکستان سے آنے والے میڈیا ورکر کے ساتھ انکا رویہ بلکل ٹھیک نہیں ہے ایسے شخص کو سفارت خانے میں بلکل نہیں ہونا چاہیے پی آئی ڈی میں بہت سے افسران ملنسار اور خوش اخلاق بھی ہیں جو بڑے ہی دوستانہ ماحول میں کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کا اسکے سوا اور کام بھی کیا ہے جب یہ لوگ بطور پی آر او کام کرتے ہیں تو انکا رویہ قابل دید ہوتا ہے مگر جیسے ہی یہ کسی انتظامی ذمہ داری پر آتے ہیں تو ان میں بھی روایتی پاکستانی افسر داخل ہوجاتا ہے جو انہیں اپنے محسنوں سے دور بھاگنے پر مجبور کرتا ہے محسنوں سے میری مراد وہ پاکستانی ہیں جو یہاں پر اپنا خون پسینہ ایک کرکے اپنے لیے اور خاندان کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے سرمایہ بھیجتے ہیں پاکستانیوں کی اکثریت اپنے قونصل خانہ کے ملازمین سے تنگ ہیں یہاں پر آنے والوں سے باہر بیٹھے ایجنٹ بھاری پیسے طلب کرتے ہیں یہ ایجنٹ بظاہر تو فوٹو کاپی رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں مگر مبینہ طور پر انکے وسیع تعلقات ہے بلکل ایسے جیسے میں نے شروع میں لکھا تھا کہ لاہور میں ایکسائز دفتر کے باہر ایجنٹ گھنٹوں کا کام منٹوں میں کروا لاتے ہیں یہاں پر صورتحال مختلف ہے کیونکہ روزی روٹی کی تلاش میں آئے ہوئے افراد ایک پیسہ بھی فضول میں خرچ کرنے کو تیار نہیں پاکستانی سفارہ میں تعینات ہونے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دروازے پاکستانی عوام پر کھول دیں انہیں پیار دیں چند سالوں کی تعیناتی کو یادگار بنائیں انکے جانے کے بعد یہاں کے پاکستانی انہیں یاد رکھیں بلکہ جب وہ تو پاکستانی انہیں پھولوں کے ساتھ رخصت کریں میں جدہ میں جن لوگوں سے بھی ملا ہو ں کسی کو یہاں پر تعینات قونصل جنرل کا نام بھی نہیں معلوم سعودی عرب میں جتنے بھی پاکستانی موجود ہیں وہ جتنا ان سے مایوس ہے اتنا ہی وہ سعودی حکومت سے خوش ہیں یہاں کا قانون سب کے لیے برابر ہے اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں ملاوٹ کا نام و نشان نہیں ہے اور تو اور یہاں پر ایک عام ورکر بھی اپنی گاڑی رکھ سکتا ہے اور اکثریت کے پاس گاڑیاں موجود ہیں پیٹرول انتہائی سستا ہے جدہ سے مکہ 10ریال میں بندہ عمرہ کرکے واپس آسکتا ہے یہاں دن ہو یا رات کسی بھی جگہ ڈکیتی اور چوری کا کوئی خطرہ نہیں پولیس کا رویہ متاثر کن حد تک خوش اخلاقی والا ہے سڑکیں کھلی اور کشادہ تو ہیں ہی صاف ستھری بھی ہیں ہر جگہ بڑے بڑے پلازے اگر دیکھا جائے تو جدہ شہر میں جتنی بڑی بڑی عمارتیں ہیں اتنی تو پورے پاکستان میں نہیں ہونگی اور اب تو دنیا کی سب سے بڑی عمارت کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے سیکیورٹی کا نظام انتہائی پائیدار ہونے کے باعث کوئی واردات نہیں ہو تی سعودی عوام جتنا اپنے حکمرانوں سے پیار کرتی ہے ان سے بڑھ کر پاکستانی لوگ انہیں چاہتے ہیں یہاں پر موجود پاکستانیوں کی اگر کوئی مشکل اور پریشانی ہے تو وہ صرف اپنے سفارت خانے سے ہی ہے جہاں انہیں عزت نہیں دی جاتی حالانکہ یہ سفارت خانے اور قونصل خانے اسی ملک کی عوام کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں جنہیں وہ نظر انداز کیے ہوئے ہیں جدہ میں موجود پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ جو رویہ یہاں کا سفارتی عملہ ہمارے ساتھ رکھتا ہے اور کسی ملک کا سفارتی عملہ اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے شہریوں کو عزت دیتے ہیں کاش حکومت پاکستان دنیا بھر میں بھیجے جانے والے عملہ کی پہلے تربیت کرے کہ انہیں وہاں جاکر اپنے شہریوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے جدہ سمیت مکہ اور طائف میں کام کرنے والے سینکڑوں پاکستانیوں کے پاس کسی سفارتی عملہ کا نمبر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اپنا نمبر کسی کو دیتے ہیں یہاں تک کہ قونصل جنرل کا سیکریٹری عمر زریں بھی اپنا نمبر نہیں دیتا حکومت کو چاہیے کہ جس طرح پنجاب کے تھانوں میں ایس ایچ او کے پاس ایک نمبر مخصوص ہوتا ہے اسی طرح ہر سفارت کار کے پاس ایک نمبر مخصوص ہو اور خود کال اٹھائے تبدیلی کی صورت میں وہی نمبر نئے سفارتکار کے پاس چلا جائے عوام کو دی جانے والی چھوٹی چھوٹی سہولتیں بڑی خوشی کا باعث بنے گی کیونکہ یہاں پر موجود پاکستانی ہمارا خوبصورت سرمایہ اور اثاثہ ہیں جنکی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی مگر ہمارا سفارتی عملہ ناکام ہے وزیر خارجہ کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے-

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612128 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.