آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات اور کشمیر کاز سے متعلق آزاد کشمیر حکومت کے کردار کی اہمیت
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
آزاد کشمیر میں 31سال کے طویل عرصے کے بعد بلدیاتی سطح کے انتخابات تین مراحل میں کرائے جا رہے ہیں۔پہلے مرحلے میں 27نومبر کو مظفر آباد ڈویژن کے تین اضلاع ، مظفر آباد، ہٹیاں اور نیلم ویلی میں پولنگ ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے میں 3دسمبر کو پونچھ ڈویژن کے 4اضلاع، باغ، حویلی، رالاکوٹ اور پلندری میںووٹ ڈالے گئے۔ تیسرے مرحلے میں8دسمبر کو میر پور ڈویژن کے 3اضلاع ، میر پور، بھمبر اور کوٹلی میں پولنگ ہو گی۔جماعتی سطح پہ ہونے والے ان انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ محدود پیمانے پہ مسلم کانفرنس، جماعت اسلامی اور جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے امیدوار شامل ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے چند دن پہلے تک ایسی غیر یقینی صورتحال قائم رہی کہ جس سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید بلدیاتی انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کے مطابق حکومت اپنے اپنی جماعت کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے سرکاری وسائل کو استعمال کر رہی ہے۔الیکشن کمیشن نے اس پر انتباہی بیانات تو جاری کئے لیکن کوئی تادیبی کاروائی عمل میںنہ لائی جا سکی۔آزاد کشمیر میں بلدیاتی نظام کی بحالی کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ بلدیاتی نظام کومزید اختیار ات دینے کے لئے قانون سازی اور ان کے لئے وافر فنڈز کی فراہمی پہ بھی توجہ دی جائے تا کہ بلدیاتی نظام کے قیام کے مقاصد پورے کئے جا سکیں اور اس سے مقامی سطح پہ عوام صحیح طور سے مستفید ہو سکیں۔ ان بلدیاتی انتخابات میں عوامی سطح پہ بہت جوش و خرو ش کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور پہلے دونوں مراحل کے انتخابات بہت پر امن طور پر منعقد ہوئے۔عوامی سطح پہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مقامی نوعیت کے بہت سے کام ہونے سے رہ جاتے ہیں اور منتخب بلدیاتی اداروں کی بدولت مقامی سطح کے تعمیر و ترقی کے علاوہ عوامی مشکلات کے دیگر امور کو حل کیا جاسکتا ہے۔بلدیاتی انتخابات سے سیاسی تربیت کا ایک نظام تشکیل پاتا ہے جس سے براہ راست عوام سے منسلک نمائندے سیاست کی اگلی سطح کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے دو مراحل میں کافی تعداد میں آزاد امیدوا ر بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ان میں غالب ترین تعداد ایسے امیدواروں کی ہے جنہوں نے اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے پہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔بلدیاتی الیکشن کے پہلے دو مراحل میں آزاد کشمیر کے 7اضلاع میں ہونے والے انتخابات میں خود مختار کشمیر کے حامی امیدواروں کی تعداد، آزاد امیدوار کے طور پر، نہ ہونے کے برابر ہے۔ان بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے الحاق پاکستان کی شرط عائید ہونے پر اعتراض کی بات سامنے آئی۔آزاد کشمیر میں خود مختار کشمیر کی حامی چند مختلف نوعیت کے گروپوں میں تقسیم ہیں اور ان میں مختلف امور کے حوالے سے فرق بھی نمایاں ہے۔ان تمام گروپوںمیں مرکزی حیثیت یاسین ملک کی قیادت والی لبریشن فرنٹ کو حاصل ہے۔آزاد کشمیر میں کبھی بھی خود مختار کشمیر کی حامی تنظیموں کی انتخابات میںکبھی کوئی نمایاں، قابل ذکر پوزیشن نہیں رہی۔خود مختار کشمیر کے ایک بڑے علمبردار کے طور پر مقبول بٹ شہید کا نام نمایاں ہے اور یہ ابھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر کے ایک انتخابات میں مہاجرین مقیم پاکستان کی ایک نشست سے الیکشن لڑتے ہوئے مقبول بٹ نے اتنے کم ووٹ لئے کہ ان کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ، جس کی قیادت یورپ میں مقیم ہے ، کے متعلق عمومی تاثر ہے کہ وہ ہندوستان کے مفادات کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔تاہم باقی گروپ خود کو اس گروپ سے سختی سے الگ قرار دیتے ہیں۔آزاد کشمیر کے باشندوں میں یہ بات وسیع پیمانے پہ سمجھی جاتی ہے کہ اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل، اقوام متحدہ کے منشور اور قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر رضامند کرنے کے لئے آزادی کی مزاحمتی تحریک جاری ہے اور اس وقت کشمیریوں کو نظریات کے نام پر تقسیم کرنے کا مطلب ہندوستان کے ہاتھ مضبوط بنانا ہی ہو سکتا ہے۔۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے جارحانہ طرز عمل اپنا یا ہو اہے، اس کی وجوہات پہ بات ہو سکتی ہے اور یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ہماری خامیوں اور خرابیوں کی وجہ سے ہندوستان کو جارحانہ انداز اپنانے میں مدد ملے ہے۔ کشمیریوں کی تاریخی قرار داد الحاق پاکستان میں ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان کے ساتھ بطور ایک ریاست خصوصی حیثیت میں الحاق کی بات کی گئی ہے جس کے مطابق دفاع، خارجہ امور، کرنسی ، مواصلات کے چند شعبوں کے علاوہ باقی تمام داخلی امور کے اختیارات مقامی اسمبلی کو حاصل ہو ں گے۔اسی حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کا ڈھانچہ بھی تشکیل دیا گیا کہ جہاں دفاع ، خارجہ امور، کرنسی ، مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور مقامی اسمبلی کے پاس موجود ہیں۔ تاہم آزاد کشمیر میں وسیع پیمانے پہ یہ مطالبہ پایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کی ہٹ دھرمی ، بدترین مظالم اور جارحانہ پالیسی کے پیش نظر آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے سے خصوصی حیثیت اور اختیارات تفویض کئے جائیں۔کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کے کردار کی غیر موجودگی میں قبیلائی اور اضلاعی مفادات کی سیاست حاوی ہو جاتی ہے اور اس سے منفی عناصر کو موقع ملتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو اہم مسائل و امور کے حوالے سے کشمیر کاز اور ریاست جموں و کشمیر کے خطے اور اس کے عوام کے مفادات کے برعکس سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔ مملکت پاکستان کے ساتھ ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی گہری وابستگی تاریخی حقیقت اور مسلمہ امر ہے۔حکومتوں کی پالیسیوں پر اعتراضات اور شکایات بھی پاکستان اور جموں وکشمیر کے گہرے انمٹ تعلق کے حوالے سے ہی کئے جاتے ہیں۔ اب جبکہ آزاد کشمیر میں بلدیاتی نظام بحال ہو رہا ہے، اس صورتحال میں بھی آزاد کشمیر حکومت کے کردار کو کشمیر کاز کے حوالے سے کردار تفویض کیا جانا بہت اہم ہے تا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان مقامی امور و مقامی نوعیت کے عمومی مفادات سے بالا تر ہوتے ہوئے اپنے اس کردار پر توجہ دے سکیں جس کے لئے آزاد کشمیر میں آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
|