افضال احمد کو دوسرے مریض کے ساتھ بیڈ پر کیوں ڈالا گیا اور کیا اداکار واقعی غربت کا شکار تھے؟ حیران کن انکشافات

image
 
گزشتہ دنوں پاکستانی شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے معروف اداکار افضال احمد انتقال فرما گئے- جس کے ساتھ ہی ان کی ایک ایسی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آئی جس میں دیکھا گیا کہ افضال احمد کو آخری وقت میں اسپتال میں دوسرے مریض کے ساتھ بیڈ پر ڈالا گیا تھا یعنی تصویر سے یہ ظاہر کیا گیا کہ اداکار ان افسوسناک لمحات میں بیڈ بھی میسر نہیں- اس تصویر اور اس کے بعد آنے والی خبروں سے یہ ظاہر ہوا کہ اداکار کا آخری وقت انتہائی غربت اور بےکسی میں گزرا- تاہم سوشل میڈیا پر پر جاری اس تصویر اور افضال احمد کے حالات کی خبروں میں کتنی صداقت ہے یہ کسی نے جاننے کی کوشش شاید ہی کی ہو- لیکن اب افضال احمد کے حالاتِ زندگی سے متعلق ایک اور پوسٹ سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ہے جس نے خود سوشل میڈیا صارفین اور ان کی اخلاقیات پر کئی سوال اٹھا دیے ہیں- ہم مندرجہ ذیل میں یہ پوسٹ بغیر کسی تبدیلی کے آپ کے لیے پیش کررہے ہیں جسے پڑھنے کے بعد یقیناً آپ کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور آپ خود سے یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا خبر کی تحقیق ہمارا فرض نہیں؟
 
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔
ماضی کے مشہور ہر دلعزیز اداکار افضال احمد انتقال فرما گئے اور ہمارے سوشل میڈیا کو ان کی عبرت ناک بے کسی کی موت پہ ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع مل گیا۔ جبکہ حقیقی امر یہ ہے کہ افضال احمد جو تماثیل تھیٹر کے بانی اور انتہائی امیر اور کھاتے پیتے شخص تھے اکیس سال سے فالج کے مرض میں مبتلا رہے اور مرتے دم تک وہ شاہانہ زندگی ہی بسر کرتے رہے-
 
جی ہاں میں اسے شاہانہ زندگی ہی کہوں گی کہ فالج کے باوجود انہیں سنبھالنے والے ان کے سگے اور ملازمین موجود تھے ان کے ملازم انکو صاف ستھرا کر کے وہیل چئیر پہ باقاعدہ روازنہ ٹہلاتے تھے۔ گھر میں ان کی بہن باقاعدگی سے انکی دیکھ بھال کرتی تھیں- مین رائے ونڈ روڈ پہ 0PF سوسائٹی میں دس بارہ کنال کا ان کا فارم ہاؤس جو سونے کے مول پہ ہے برابر میں تین چار کنال زمین انہوں نے ایک نرسری کو کرایہ پہ دے رکھی ہے۔ تماثیل تھیٹر ہے جو ان کا منیجر سنبھالتا ہے۔
 
انہیں تین روز پہلے برین ہیمرج ہوا لاہور کے رہائشی جانتے ہیں کہ برین ہیمرج کے لئے سب سے بہترین اور جدید علاج جنرل ہاسپٹل میں ہوتا ہے- انہیں فوری طور پہ وہیں لے جایا گیا شہری یہ بھی جانتے ہیں کہ ہسپتال میں کتنا رش ہوتا ہے مریض تو مریض ہے بے پناہ رش کی وجہ سے دو دو پیشنٹ ایک ایک بیڈ پہ ڈالنے پڑتے ہیں- بس ایسی ہی کوئی گھڑی تھی جو کسی نے انک ی کسمپرسی کی حالت والی وہ تصویر اپنے کراماتی موبائل سے اتار لی اور سوشل میڈیا پہ ترس کھانے اور عبرت دلوانے کے لئے ڈال دی جسے ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بنا تحقیق وائرل کر دیا اور ہم عوام ان پہ ترس کھانے لگے-
 
image
 
عوام نے ان کے گناہ گار ہونے اور عبرتناک و بھیانک انجام ہونے پہ کیسی کیسی مہریں لگائیں پڑھ کے عقل دنگ رہ گئی کیونکہ وہ ایک اداکار تھے اس لئے لازمی ہے کہ وہ گناہ گار بھی ہیں- لیکن ہم ناظرین جو یہ اداکاریاں دیکھتے اور صدا کاریاں سنتے ہیں ہمیں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ ہم یہ سب انکے فن دیکھ سن کر بھی جنتی ہی رہتے ہیں۔۔
 
یہ بھی سچ ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں پَر ہوتے ہیں۔ یہ تمام تفصیلات ہمیں رات گئے ان کی پڑوسن نے دیں جو اس تمام صورت حال سے شدید رنجیدہ تھیں کہ زارا جو حقیقت ہے اسے لکھ کے لوگوں کو آگاہ کریں۔ فالج کی وجہ سے افضال احمد اپنے اعضاء کو حرکت دینے سے قاصر تھے لیکن ان کا دماغ مکمل حواس میں تھا- ہماری دوست کی فیملی سے اکثر گپ شپ لگاتے تھے اشاروں سے اپنی بات سمجھا لیتے تھے خوش بھی ہوتے تھے ہنستے بھی تھے فالج کے ساتھ پوری سوسائٹی میں گھومتے پھرتے تھے اور اچھے جی رہے تھے- یہ دونوں تصاویر ہماری دوست کے لان کی ہیں جو انہوں نے چائے پیتے ہوئے اپنے موبائل سے بنائی ہیں-
 
فالج کے باوجود دیکھ لیجیے کتنے صاف ستھرے نظر آرہے ہیں بلکہ آثار بتا رہے ہیں کہ بال بھی ڈائی کئے جاتے ہیں۔ ہماری دوست نے ایک بار تجسس میں ان کے نوکر سے گفتگو کے دوران کافی معلومات حاصل کیں کہ ان کے گھر والے روٹین میں وزٹ کرتے ہیں (ان کی تین بیٹیاں ہیں جو فارن کنٹریز میں ہیں) باقاعدہ انہیں فون کرتی ہیں ملازمین کو ہدایات دیتی ہیں- ان کی بہن ہیں جو اپنے بھائی کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں شریک حیات کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں کہ داغ مفارقت دے گئی ہیں یا داغِ جدائی- بہرحال اب ان کی زندگی میں نہیں تھیں۔
 
image
 
دنیا بھی عجیب جا ہے اور سوشل میڈیا عجیب تر ۔۔ فیس بک اور الیکٹرانک میڈیا پہ نیگیٹیوٹی مایوسی بیچارگی کو خوب خوب پروموٹ کیا جاتا ہے ۔۔ زبانی ترس کھا کے ہمیں تسکین ملتی ہے ۔۔۔ یہ جتنوں نے ترس کھاتی پوسٹ لکھی عملی طور پہ انہوں نے کیا کیا؟
 
ہمارے ہاتھ میں قلم ہے تو کیا ضروری ہے ہر موضوع پہ اور بنا تحقیق کے ہم کچھ بھی لکھ ماریں ۔۔ ذرا سوچئے ۔۔۔
 
 ۔۔۔۔ ز ۔ م
٤ دسمبر ٢٠٢٢ء
YOU MAY ALSO LIKE: