پاکستان! اللہ ہی اس کی حفاظت
کرے اور مجھے یقین ہے کہ و ہی اس کی حفاظت کرے گا۔اس کی حفاظت کے وسائل تو
نظر نہیں آتے لیکن میرا مالک تو وسائل کا محتاج نہیں کہ وہ عد م کووجود میں
لانے کی طاقت رکھتا ہے۔پاکستانی ریاست اب لولی لنگڑی ہی سہی موجود تو ہے۔ہم
نے کیا ہمارے بزرگوں اور بزرگوں نے بھی کیا بس قائد و اقبال کے پاکیزہ ویژن
اور اللہ کی خصوصی رحمت اور آقائے دوجہاں ﷺ کی خاص دعاؤں کا یہ ثمر
ہے۔زرداری، نواز شریف ،شجاعت یا فضل الرحمٰن جیسے کسی لیڈر ، جو اپنے
اقتدار کے آگے کچھ دیکھنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے،کی مہربانیاں اور
قلابازیاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی
پاکستان کو نقصان پہنچایا۔قدرت نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔یہ شہیدوں کا
کمال نہیں ہوتا بلکہ ان کے لواحقین انہیں شہادت کا مرتبہ عطا کرتے ہیں۔
لواحقین جتنے تگڑے ہوتے ہیں۔شہادت کا غلغلہ بھی اتنا ہی بلند آہنگ ہوتا ہے
ورنہ ان زبردستی کی شہادتوں کا حال سبھی جانتے ہیں۔بنگلہ دیش کی حسینہ اور
ہندوستان کی سونیا گاندھی دونوں ہی اب شہادت کی وارچہیں لیکن جہاں سے شہادت
کی شہادت آتی ہے وہاں سے تو اس ڈگری کا اجرا ہی بند ہو چکا۔ اب تو دونوں ہی
فریق ظالم ہیں اور ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے۔شہادت کا یہاں کیا ذکر۔
مرشدی ہارون الرشید عمران خان کی سیاست کا ڈنکا کچھ یوں بجاتے ہیں اور پھر
اس پہ صاحبان نظر کی ایسی گواہیاں لاتے ہیں کہ ہم جیسے کمزور عقیدہ لوگوں
کو یقین نہ کرنے کی صورت میں اپنا ایمان جاتا نظر آتا ہے۔ان کی تحریریں
بلاشبہ کسی کو بھی ماورائی حیثیت دلاسکتی ہیں۔استاذی کا قلم اتنا خوش رو ہے
کہ اگر کچرے کی تعریف میں رواں ہو تو اسے مشک وعنبر کا کوہسار نہ صرف ثابت
کر سکتا ہے بلکہ لوگ اس سے اپنی زندگی کی بہترین خوشبو کشید کر سکتے
ہیں۔سیدی کا قلم قارئین کے لئے ،ان قارئین کے لئے جو اردو سے لگاؤ رکھتے
ہوں معجزے تراشتا ہے لیکن مرشد کا مزاج ایسا ہے کہ جو ان کے سیدھے ہاتھ
آگیاآسمان کی رفعتیں اس کے نصیب پہ رشک کرتی رہ گئیں اور جو بدنصیب زندگی
کے کسی حصے میں الٹے ہاتھ جا بیٹھااستاذی نے اپنے کمال فن سے اسے یوں راندہ
درگا کیا کہ اس کے گھر والوں نے بھی اس پہ شک کا اظہار شروع کر دیا۔اسی
تناظر میں جب وہ عمران پہ اپنی محبتیں اور شفقتیں لٹاتے ہیں تو دل دھک سے
رہ جاتا ہے۔وہ اڑیل آدمی ہے۔من مانی کرنے والا۔کل کو اگر اس نے مرشدی کی نہ
مانی تو کیا وہ بھی اور بہت سوں کی طرح راندہ درگاہ قرار پائے گا۔کیا
صاحبابن نظر بھی پھر اس کے مستقبل کا تیا پانچہ کر ڈالیں گے۔اسی لئے کہتے
ہیں کہ مرشد جیسے نہ دوست اچھے نہ دشمن۔دوست ہوں تو چوم چوم کے مار دیں اوع
خدا نخواستہ دشمنی ہو جائے تو ایک نگاہِ غلط انداز ہی ممدوح کو پاتال میں
اتارنے کو بہت ہے۔
عمران خان ایک بگڑا ہوابچہ ،سونے کا نہیں تو چاندی کا چمچ منہ میں لے کے
پیدا ہونے والا،فلمی ایکٹرسوں کی محبت میں دیوانہ،کسی زمانے میں سیکس سمبل
کہلانے والاعمران ،کم از کم میں تو اسے فرشتہ نہیں سمجھتا۔وہ ایک انسان ہے
غلطیوں اور گناہوں کا پتلا۔جس کا ماضی قطعاَمثالی نہیں۔لیکن کہتے ہیں کہ ہر
ولی کا ایک ماضی بھی ہوتا ہے اور ہر گناہ گار کا ایک مستقبل۔عمران نے ورلڈ
کپ جیتا تو اس کی کپ وصول کرتے ہوئے تقریر اس کے اپنے ساتھیوں کے لئے بھی
مایوسی کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔خود پسندی کا یہ حال کہ اس جیت میں اس نے
اپنے علاوہ اپنے کسی ساتھی کا ذکر تک نہیں کیا۔پھراس کے دماغ میں اپنی
والدہ محترمہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کا سودا سمایا۔اس وقت وہ شہرت
کی بلندیوں پہ تھا۔اس نے اسی شہرت کو کیش کروایا۔پاکستان میں اس نے دنیا کی
بہترین کینسر ہسپتال قائم کر کے دکھا دی، سنا ہے جہاں کے نظم و نسق کی دشمن
بھی تعریف کرتے ہیں۔اسے سیاست کی نہ تو سمجھ تھی نہ چسکا ۔ کسی محبت کرنے
والے نے اسے اس میدان میں گھیر گھار کے دھکا دے ڈالا۔وہ آتے ہی مشرف کے
چرنوں میں سجدہ ریز ہو گیا۔اس کی سیاست کا پہلا فیز وہیں دفن ہو گیا۔سیاست
اس کے گھر کو اجاڑنے کا سبب بنی۔اس کے بیوی بچے اس سے اس گندے کاروبار
سیاست کی وجہ سے بچھڑ گئے۔اب وہ ہے اور سیاست۔
اب اس کی خارجی سیاست کا محور اینٹی امریکہ نعرے اورداخلی سیاست کا منتہا
سیاسی طور پہ مردہ نواز شریف ہے۔ابھی وہ زرداری کے شکنجے سے باہر ہے لیکن
دیکھا جائے تو زرداری کے حریفوں میں ہوتے ہوئے بھی وہ زرداری ہی کے مطلب کی
کہہ رہا ہے۔زبان اس کی ہے لیکن بات زرداری کی۔اس نے بالآخر نواز شریف ہی کے
ووٹ توڑنے ہیں ۔پرویز رشید کو اس بات کا ادراک ہے۔اسی لئے وہ وقتاَ۔
فوقتاََ عمران کے ماضی کو کھنگالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔سیاست میں
فیس بک پہ چند ممی ڈیڈی ٹائپ لوگوں کو چھوڑ کے(عمل کی دنیا سے جن لوگوں کا
دور کا بھی واسطہ نہیں کہ سیاست میں تو ہمارے ہاں پولیس کی لا ٹھیاں بھی
کھانا پڑتی ہیں اور یہ غریب تو پیاس اور دھوپ برداشت نہیں کر سکتے ( عمران
کی کوئی بڑی کامیابی نظر نہیں آتی۔ابھی حال ہی میں اس نے کراچی کی گورنری
کا سوال کر کے ایک اور بونگی ماری ہے۔عمران کی پارٹی میں عمران کے علاوہ
کوئی ایسا ہے جو کسی جلسے تو کیا جلسی سے بھی مخاطب ہو سکے۔عمران کے مشیر
کون ہیں؟ قوم نے کبھی ان باریاب لوگوں کے نام نہیں سنے۔عمران نے کبھی بھوک
نہیں دیکھی۔اس کی کوٹھی کے لان کی گھاس ہمیشہ سبز رہتی ہے۔اس کی پراڈو کا
ٹائر کبھی پنکچر نہیں ہوا۔اس کے ہاں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں
ہوتی۔اس کے بچے بھلے پھول جیسے ہیں لیکن رہتے وہ ماں کے پاس ہیں اور وہ
خاتون برطانیہ میں براجمان ہے۔وہ اپنا گھر تو سنبھال نہیں پایا اسے ملک کی
باگ دوڑ ہم نے دے دی تو کیا ایک دن اسے بھی وہ جمائما کی طرح چھوڑ نہ دے
گا؟وہ ایزی گوئنگ پرسنالٹی ہے۔مشکل میں اس کا رد عمل کیسا ہو گا؟یہ اور اس
جیسے بہت سے سوال ہیں جو سپورٹرز تو نہیں سوچتے ووٹرز سوچتے ہیں۔پاکستانی
سیاست تو تھانے اور کچہری کی سیاست ہے۔کیا عمران کی سپورٹ اس عفریت کا بھی
کوئی علاج کر سکے گی؟
یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن میرا بیٹا جو فیس بک پہ عمران اور اس کی سیاست کا
فین ہے اور اسے like کرتا ہے۔ ا ن سارے سوالوں کے جواب میںمجھ سے پوچھتا ہے
کہ بابا آپ تو حدیث سناتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا
سکتا۔زرداری ،نواز شریف ،چوہدری شجاعت ،مولٰنا فضل الرحمٰن اور الطاف حسین
سے ڈسوا ڈسوا کے آپ پھانویں ہو چکے ہیںپھر بھی آپ اپنے آپ کو مومن ہی کہتے
ہیں۔اپنے ایمان کے ثبوت کے لئے ایک دفعہ نیا سوراخ ہی ٹرائی کر لیں۔میں
عمران کو فرشتہ بھی نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے کوئی قابل رشک سیاستدان
گردانتا ہوں لیکن اس دفعہ میرے خیال میں نیا سوراخ ٹرائی کرنے میں کوئی حرج
نہیں۔آئیے مل کے یہ ایڈونچر بھی کردیکھتے ہیں۔ |