قوم بنانے کا عمل

ہم مشرقی لوگ توہم پرست نہیں مگر ہماری لوک کہانیوں میں غیبی آوازوں، آسمانی صداوں اور ماوراء عقل واقعات اور پل بھر میں حالات بدل جانے کے واقعات کی بھرمار ہے۔

پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کی جائے تو ایک سال کے عرصے میں ہی قوم بننے کی بجائے لوگ کرپٹ ہو گئے۔ اسی لیے پروڈا

(Public Reresentation Fooce Disqualification Act)

سولہ جنوری 1949کو متعارف کرایا گیا مگر لاگو اگست 1947 سے کر کے لوگوں کو قوم بنانے کا کیمیائی عمل شروع کیا گیا۔یہ پہلی سعی تھی۔

دوسری سعی1954 کا آئین پھاڑ کرڈسٹ بن میں ڈال کر اور تیسری اور کامیاب کوشش 1958 میں ایک شجر تناور کا بیج بو کر کی گئی۔بارہ سال کی نگہداشت اور آبیاری کے بعد1970کے الیکشن میں عوام نے مگراس مشجر مقدس کی جڑوں کو ہی کاٹ ڈالا۔ بنگالی اپنے بنگلہ کو چل دیے توپاکستان میں 1971کے بعد عزم نو پیدا ہو۔ بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت نے پارلیمان کی طاقت سے عوام کو روشناس کرایا ، مختلف طبقات کو اکٹھے ہونے اور بولنے کی آزادی دی۔بولیوں میں سب سے اونچی اواز لاوڈ سپیکر کی ظاہر ہوئی۔ باقی سب اوازیں دب گئیں۔ 1979میں بھٹو کو ٹھکانے لگا کر صاحبان صوت مکبر کے دلائل پر عمل شروع ہوا تو راز کھلا لاوڈ سپیکر مسجد کے مینار پر آسمان سے نہیں اترتا بلکہ بازار سے خریدا جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے لاوڈ سپیکر خرید لیے شور زیادہ بڑھ گیا تو اونچائی پر ٹانگے لاوڈ سپیکر کو گولی سے اڑا کر سکون حاصل کیا گیا۔ گولی کا چلن ہوا تو کلاشنکوف مارکیٹ میں آ گئی۔ کلاشن کوف کی گولی نے شکل دیکھی نہ قابلیت قد ماپا نہ قومیت جانچی۔ سبق مگر یہ حاصل ہوا اس ملک کے باسی سخت جان ہیں۔ جا ن سے مارنے سے بہتر ہے افہام و تفہیم سے کام لیاجائے۔ پارلیمان کھول دی گئی۔1973کے آئین پرلپٹے سبز غلاف کو اتار کر کر چوم لیا گیا۔ کتاب کی شکل پر بنی عدالت کی عمارت کے دروازے پر لگی میزان کو عدل سلیمانی کا استعارہ بتا دیا گیا۔ الیکشن ہو گئے۔ زندگی رواں دوان ہوگئی۔ لوگ تعمیر و ترقی کی باتیں کرنے لگے نوجوان اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا شروع ہو گئے۔ تاریکی روشنی میں بدلنا شروع ہو گئی۔ ذہن کھلنا شروع ہو گئے۔قلب وسیع ہوئے۔ فرقہ بندی، جتھہ سازی اور مردہ باد کو لوگوں نے رد کرنا شروع کر دیا۔

ہم مشرقی لوگ توہم پرست نہیں مگر ہماری لوک کہانیوں میں غیبی آوازوں، آسمانی صداوں اور ماوراء عقل واقعات اور پل بھر میں حالات بدل جانے کے واقعات کی بھرمار ہے۔ ہم شے کو دیکھنے سے پہلے اس کے سائے کا مطالعہ کرتے ہیں اور شے کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے ہی لوگ انگلی منہ میں دبا لیتے ہیں۔ مگر اس بار نقاش اکیلا نہیں تھا۔ کہانی نویس ساتھ تھے۔ ایکٹر تربیت یافتہ تھے۔ ڈائریکٹر صد سالہ تجربہ رکھتے تھے۔ کیمرے جدید تر اور کیمرہ مین اپنے کام کے ماہر تھے، وسائل کا عالم یہ کہ سوچ پیدا ہو تو تعبیر سامنے دکھا دی جائے۔ جب زندہ انسان کو لوگوں کے سامنے مار کر زندہ کر دیا جائے تو کون کافر یقین نہیں کرے گا۔انسان کی فطرت ہے کہ اس کو میسیج کر کے بتایا جائے کہ اس کی دس ملین ڈالر کی لاٹری بغیر ٹکٹ خریدے نکل آئی ہے۔ اس سوٹ کیس کی تصویر بھی دکھا دی جائے جس میں ڈالر رکھے ہیں۔ ڈالروں کی ویڈیو دکھا کر لوگوں کی زندگی میں آئے امیرانہ انقلاب کی کہانی بھی سنا دی جائے تو پچیس سال کے تعلیم یافتہ مگر دولت سے محروم ایم فل کیے نوجوان کی عقل بھی ماوف ہو جاتی ہے اور وہ اٹھ سو ڈالر کے بدلے دس ملین پانے کی خواہش کو دبا نہیں پاتا۔

موجودہ دور میں لوگوں کی محرومیوں، خواہشوں، امنگوں، خوابوں اور جذبات کو خریدا جاتا ہے۔ بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ انسان شناخت ظاہر کیے بغیر دل و ماغ کھول کر ایسے کھیل میں شامل ہوجاتا ہے جہاں سامنے والا کھلاڑی ماہر ہوتا ہے۔ اس کی پشت پر علم و ہنر کی بہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ وسائل کی چپ اس کے کارڈ نمبر سے منسلک ہوتی ہے۔ وہ اکیلا نہیں ہوتا اس کو پروموٹ کرنے والے غیر ہی نہیں آپ کے جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات آپ جو کچھ کرتے ہیں وہ صیغہ راز میں ہی رہتا ہے۔

ہر وہ کام جو راز میں رکھا جائے غلط نہیں ہوتا مگر ہر غلط کام کو راز میں رکھاجاتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ کیا ہوا

٭ وہ پارلیمان جس کو قائد اعظم نے عزت دی تھی اس پر چار حرف بھیجے گئے۔

٭ میزان عدل کو پیاز تولنے والی (ترکڑی) بنا ڈالا گیا۔

٭خبر نکالنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ گولیاں کھانے والے لفافہ بتائے گئے

٭سیاستدان جنھوں نے مالی اور جانی قربانی دے کر آئین کو بچایا کرپٹ مشہور کر دئے گئے۔

٭وہ آئین جو ملک کو متحد رکھے ہوئے ہے اس کو مولفوں کے حوالے کردیا گیا

٭وہ جج جنھوں نے اپنے حلف کی پاسداری کی ان کو بے توقیرکرنے کی کوشش کی

٭ قابل اور تربیت یافتہ پرعزم پولیس آفیسران کو دارلحکومت کے وسط میں پھینٹا لگایا گیا

٭ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کو ممکن بنانے والوں کو ڈاکو کہا گیا

٭ نوجوانوں میں علم کی پیاس جگا کر نادار او ر لائق طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والوں کو چورکہا گیا

٭ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فیصل مسجد کے صحن میں عوام کی بنائی قبر میں اتارنے سے روک دیا گیا

٭ ملکی ترقی کے لیے تن من سے کام کرنے والوں کے خلاف بدنامی کے ڈھول پیٹے گئے

٭نوجوانوں سے امید چھین کر مایوسی بانٹی گئی

اب عوام پر راز کھل چکا ہے کہ یہ وہی تجربہ کار ٹولہ ہے جو کبھی ترکی میں خلافت گراتا ہے۔ کبھی اسرائیل کی شکل میں مسلمانو ں کے قلب میں چھرا گھونپتا ہے۔ کبھی لیبیا، و عراق اور شام میں خون کی ہولی کھیلتا ہے۔ مرسی کو لوہے کے پنجرے میں بند کر کے بھوکا رکھتا ہے۔ مگر اپنے مہروں کے لیے جنتی ارضی کا انتظام کرتا ہے۔ حکیم سعید کی شہادت کے شوائد اس لیے چھپا کر رکھتا ہے کہ وہ ان کی سازشوں کو جان گیا تھا۔

پاکستان میں فرعون اور موسی کو سیاسی بیانات میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اور بتایا جاتا ے کہ ہے کہ موسی

(1271-1300 BC )

نے ایک قوم بنائی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسی نے قوم نہیں بنائی قوم پہلے سے موجود تھی۔ انھوں نے تو ایک غیر انسانی فعل بند کرایا تھا۔ اور غیر انسانی فعل یہ تھا کہ فرعون

(ان کے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کوزندہ چھوڑ دیتا تھا)

پاکستان میں لوگوں کو ایک قوم بنانے کا عمل جاری ہے ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کر دی گئی تھی۔مگر اج پاکستانی سمجھ چکا ہے۔ قبیلہ اور خاندان اللہ تعالی کی عطا کردہ پہچان ہے۔ سارے پاکستانی محب وطن ہیں۔ پنجابی کو بلوچی پر اور سندھی کو پٹھان پر برتری حاصل نہیں ہے۔اردو ہو کہ سندھی، پنجابی ہو کہ بلتی، بلوچی ہو کہ ہندکو سب زبانیں پاکستانیوں کی ہیں۔ فرقہ بندی اور جتھہ سازی ہماری کمزوریاں ہیں اور سب سے بڑی کمزوری ڈوبتی معیشت ہے۔

دلپذیر
About the Author: دلپذیر Read More Articles by دلپذیر: 135 Articles with 169340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.