|
|
آج کے اس تیز رفتار دور میں جب کہ سب یہ بات جانتے ہیں
کہ سوشل میڈيا نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے اور دنیا کے
کسی بھی حصے میں ہونے والے واقعہ کی خبر دنیا میں نہ صرف لمحوں میں پھیل
جاتی ہے بلکہ کسی بھی ادارے کی ساکھ کے بننے اور بگڑنے میں بھی سوشل میڈيا
کا بہت اہم کردار ہے- |
|
گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈيا کے ایک صارف ڈاکٹر ساجد
محمود اشرف کی جانب سے ایک پوسٹ کافی وائرل ہو رہی ہے جس میں انہوں نے
راولپنڈی کے برین سرجری ہسپتال میں ہونے والی ایک سرجری کا ذکر کیا ہے- |
|
برین ٹیومر کی سرجری کا سانحہ |
ڈاکٹر ساجد محمود اشرف کے مطابق یہ واقعہ محمد زبیر نامی مریض کے ساتھ ہوا
جو کہ برین ٹیومر کا مریض تھا اور لاہور کا رہائشی تھا۔ برین سرجری نامی
ہسپتال کے مالک ڈاکٹر عارف ملک ہیں جن کے ساتھ ان کا بیٹا ڈاکٹر عثمان ملک
بھی موجود ہوتا ہے۔ |
|
محمد زبیر نامی اس مریض کو ڈاکٹرز نے دماغ کے آپریشن کا تجویز کیا جو کہ
ایک انتہائی حساس آپریشن ہوتا ہے۔ 19 نومبر کو اس آپریشن کے لیے محمد زبیر
خود گاڑی ڈرائيو کر کے لاہور سے راولپنڈی صبح آتا ہے- جہاں پر ڈاکٹر عارف
ملک تین لاکھ آپریشن کی مد میں وصول کر کے مریض کو فوری طور پر داخل کر کے
دوپہر دو بجے تک آپریشن تھیٹر بھجوا دیتے ہیں- |
|
|
|
بغیر کسی تیاری کے
آپریشن |
جب کہ اس حوالے سے ڈاکٹر ساجد کا یہ کہنا تھا کہ اس حساس
آپریشن سے قبل تقریباً 24 گھنٹے قبل تک مریض کو آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے
اور اس کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں- مگر ڈاکٹر عارف نے ایسا کچھ کرنے کے
بجائے صرف چند ہی گھنٹوں میں مریض کو آپریشن تھیٹر میں بھجوا دیا- |
|
آپریشن کے
فوری بعد رویہ |
آپریشن کے فوراً بعد محمد زبیر کے لواحقین کے مطابق شام
7 سے 8 بجے جب آپریشن کے بعد محمد زبیر کو باہر لایا گیا تو اس کو ریکوری
روم میں رکھنے کے بجائے فوری طور پر روم میں شفٹ کر دیا گیا جہاں اس کو
شدید جھٹکے لگنے شروع ہو گئے- |
|
وینٹی لیٹر اور
بے ہوشی |
عام طور پر ایسے مریضوں کو آئی سی یو یا وینٹی
لیٹر پر رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد رفتہ رفتہ اس کی کنڈيشن دیکھتے ہوئے
ریکوری کے ساتھ مریض کو روم میں منتقل کیا جاتا ہے- |
|
لیکن اس ہسپتال کے ڈاکٹر عارف ملک تو آپریشن
کرنے کے فوراً بعد غائب ہو گئے جبکہ مریض کو ایک وارڈ بوائے اور سیکیورٹی
گارڈ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور مریض کو لگنے والے جھٹکوں اور دوروں
کے سبب اس کو پٹیوں سے باندھ دیا گیا جس سے اس کے بازو میں زخم پڑ گئے- |
|
ہسپتال میں کوئی وینٹی لیٹر خالی نہ ہونے کے
سبب اس کو اس طرح روم میں رکھا گیا جس کے سبب مریض کی سانس میں تنگی کا
مسئلہ پیدا ہو گیا- |
|
بالآخر ایک مریضہ کے مرنے کے بعد مریض کو وینٹی
لیٹر پر شفٹ کیا گیا مگر اس کی حالت بہتر نہ ہو سکی مریض 18 دن تک ہسپتال
میں شدید اذیت میں وقت گزارتا ہے- مگر ڈاکٹر عارف ملک ایک بار بھی اس کے
معائنے کے لیس نہیں آتے ہیں- |
|
|
|
ڈاکٹر ساجد کے مطابق ہسپتال میں آئی سی یو نامی
سہولت کا کوئی وجود نہ تھا اس کی جگہ پر ایک وارڈ میں چند مشینیں لگا کر اس
کو آئی سی یو کا نام دے دیا گیا- |
|
تین لاکھ کے
بجائے 26 لاکھ کا بل |
ڈاکٹر ساجد کے مطابق جب مریض کے لواحقین نے بار
بار مریض کی حالت کو دیکھ کر کسی دوسرے ہسپتال منتقلی کی خواہش کا اظہار
کیا تو اس کی راہ میں بھی طرح طرح کے روڑے اٹکائے گئے اور بالآخر 26 لاکھ
کا بل بنا کر مریض کے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا- جس میں تین لاکھ کے
آپریشن کے ساتھ ساتھ ساڑھے سات لاکھ کی ادویات اور پانچ لاکھ کے ٹیسٹ بھی
شامل تھے- |
|
زبیر اکیلا
نہیں |
اس پوسٹ کے سوشل میڈيا پر وائرل ہونے کے بعد
کمنٹ سیکشن میں اور بھی بہت سارے لوگ سامنے آئے جو کہ اس ہسپتال کے عملے کی
بد انتظامی کے سبب نہ صرف اپنے قریبی رشتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے بلکہ اس
کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی اٹھا چکے تھے- |
|
ان تمام افراد نے مشترکہ طور پر محکمہ صحت سے
اس ہسپتال کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ محمد زبیر جیسے لوگ جو کہ
آپریشن کے اتنے دن بعد بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں محفوظ رہ
سکیں- |