امریکہ کا پہلا اسپتال؛ جہاں مریضوں کو بھی عملے کا ہاتھ بٹانا پڑتا تھا
|
|
یہ اس وقت کی بات ہے جب پینسلوینیا برطانوی سلطنت کے
قبضے میں تھا۔ یہاں دو دوستوں نے ایک ایسے منصوبے پر کام شروع کیا جو تاریخ
میں رقم ہونے والا تھا۔
ان دوستوں میں سے ایک بینجمن فرینکلن کئی علوم کے ماہر، موجد اور سیاست دان
بھی تھے اور دوسرے دوست ڈاکٹر تھامس بانڈ اپنے وقت کے ممتاز معالج تھے۔
ڈاکٹر تھامس بانڈ کا خیال تھا کہ پینسلوینیا میں غریب، نادار اور بیمار
لوگوں کے لیے ایک ادارہ ہونا چاہیے۔ پینسلوینیا کا شمار اس وقت شمالی
امریکہ میں برطانیہ کی ان کالونیز میں ہوتا تھا جہاں بہت تیزی سے آبادی
بڑھ رہی تھی۔
اس کی آبادی 1730 میں ساڑھے 11 ہزار تھی جو صرف 20 برس میں ساڑھے 17 ہزار
تک جا پہنچی تھی اور ایسے کسی ادارے کی فوری ضرورت تھی جہاں لوگوں کی دیکھ
بھال اور علاج ہوسکے۔
یہ وہ دور تھا جب شمالی امریکہ میں برطانیہ اور فرانس کے زیرِ تسلط نو
آبادیات آزاد ہو کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ نہیں بنی تھیں۔
تھامس بانڈ نے ایک دن بینجمن فرینکلن کو مشورہ دیا کہ فلاڈیلفیا کی سڑکوں
پر گھومنے والے بیماروں، غریبوں اور دماغی مسائل کے شکار افراد کے لیے ایک
اسپتال ہونا چاہیے۔
فرینکلن کو یہ مشورہ پسند آیا اور انہوں نے پینسلوینیا کی اسمبلی سے
اسپتال تعمیر کرنے کی منظوری لینے کے لیے ایک اپیل کا مسودہ تیار کرنا شروع
کردیا اور کچھ دنوں بعد ہی اسے اسمبلی میں اپیل کے طور پر پیش کردیا۔ لیکن
اسمبلی کے سبھی ارکان نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔
قیام کی منظوری
پینسلوینیا کی اسمبلی کے دیہی ارکان اس مںصوبے سے متعلق شبہات رکھتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ اسپتال صرف فلاڈیلفیا شہر کے لوگوں کے لیے ہوگا اس لیے
انہوں نے اس کی حمایت سے قدم پیچھے ہٹا لیا تھا۔
اس اختلافِ رائے کی وجہ سے جب فرینکلن کو یہ محسوس ہوا کہ منصوبہ ٹال مٹول
کا شکار ہو سکتا ہے تو انہوں نے یہ تجویز دی کہ اسپتال کے قیام کے لیے
شہریوں سے دو ہزار پاؤنڈ چندہ جمع کیا جائے اور اگر اتنی رقم کا انتظام ہو
جاتا ہے تو اسمبلی اس کے برابر رقم جاری کردے۔ |
|
|
امریکہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا جس میں سرکاری طور پر عوامی
عطیات سے جمع ہونے والی رقم کے برابر فنڈز فراہم کیے گئے اور مئی 1751 میں
اس کے لیے قانون سازی مکمل ہو گئی۔
مںظوری کے بعد 1752 میں ایک مکان میں عارضی اسپتال بنایا گیا تھا جس کے لیے
رچرڈ پین اور تھامس نے زمین عطیہ کی تھی۔
پینسلوینیا میں قائم ہونے والے اس اسپتال نے سماجی ذمے داری کا جو تصور
متعارف کرایا تھا اسے بعد میں دیگر جگہوں پر بھی اپنایا گیا۔
امریکہ کی جنگِ آزادی کے دوران بھی اس اسپتال نے ایک بڑا کردار ادا کیا
اور علاج کرتے ہوئے برطانویوں اور دیگر فوجیوں میں کوئی تفریق نہیں کی۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ اسپتال طب کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کا ادارہ بن گیا۔
اس طرح پینسلوینیا میں بننے والا یہ اسپتال امریکہ میں اپنی نوعیت کا ادارہ
بن گیا۔ اسے بنانے والی ددنوں شخصیات میں سے فرینکلن سیاسی مدبر کی شہرت
رکھتے تھے جب کہ ڈاکٹر تھامس بانڈ کو امریکہ میں بابائے طب بھی کہا جاتا ہے۔
ان دونوں کی کوششوں سے اس اسپتال کی تعمیر مکمل ہوئی اور انسائیکلو آف
برٹینیکا کے مطابق اسے امریکہ کا پہلا اسپتال ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور
یہاں 11 فروری 1753 کو پہلا مریض داخل ہوا۔
سن 1776 میں امریکہ کی آزادی کے بعد یہ اسپتال قائم رہا اور 1865 میں جب
پینسلوینیا کالج کی بنیاد رکھی گئی تو اسپتال کو طب کی تدریس اور تربیت سے
منسلک کردیا گیا۔بعدازاں اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔
پینسلوینیا یونیورسٹی کے مطابق اس اسپتال کا قیام طب ، علاج معالجے کے
علاوہ امریکہ میں ایک سماجی سنگِ میل بھی تھا۔
قواعد و ضوابط
اس اسپتال کے انتظامات چلانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے یہاں
داخلے اور علاج سے متعلق چند اصول بنائے گئے تھے۔
ان قواعد کے مطابق اسپتال میں کسی ایسے مریض کا داخلہ ممنوع تھا جسے کوئی
ناقابلِ علاج مرض لاحق ہو۔ اسی طرح ذہنی جنون کا شکار افراد کو بھی اسپتال
میں نہیں رکھا جاتا تھا۔
اسپتال میں خسرہ، خارش اور دیگر وبائی امراض کے مریضوں کو فوری داخلہ نہیں
دیا جاتا تھا بلکہ ان کے لیے پہلے علیحدہ کمرہ تیار کیا جاتا تھا۔
اسپتال میں مریضوں کے ساتھ بچوں کو لانے کی اجازت نہیں تھی اور انہیں بچوں
کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال سے باہر خود اپنا انتظام کرنا ہوتا تھا۔
داخل ہونے والے غریب مریضوں کے علاج معالجے کا خرچ تو اسپتال برداشت کرتا
تھا تاہم ایسے مریض جو اپنے ذاتی خرچ پر یہاں داخل ہوتے تھے انہیں اپنے
مرضی کے معالجین سے علاج کرانے کی اجازت تھی۔
اسپتال کے لیے بعض دل چسپ قواعد بھی مقرر کیے گئے تھے۔ مثلاً کسی مریض کو
تاش یا پانسے وغیرہ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔
اسی طرح ایسے زیرِ علاج مریض جو دوسروں کی مدد کے قابل ہوں انہیں نرسنگ
اسٹاف کی مدد کرنے، کپڑے دھونے، صفائی اور دیگر کاموں میں ہاتھ بٹانے کا
پابند بنایا گیا تھا۔
|
|
Partner Content:VOA Urdu |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.