جب میں ایک ٹرک میں پھنس گیا تھا

میں رینالہ خورد گاؤں کے ایک متوسط طبقے کے لوگوں کے رہائشی علاقے میں رہتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی آپ بیتی تیتیس سال بعد سنانے جارہا ہوں جب میں چھوٹا تھا۔ ایک دن میری ماں نے مجھے گھر کے سامان کے بارے میں جو میرے ماموں دبئی سے لائے تھے معلومات لینے کے لیے بھیجا۔ میں ویگن میں بیٹھ کر اپنے ماموں کے پاس لاہور کوٹ لکھپت انکے گھر پہنچا۔ وہاں سے گھر کے سامان کے بارے میں دریافت کیا۔ میرے ماموں کوٹ لکھپت کی ایک مل میں کام کرتے ہیں۔ سامان کے بارے میں پوچھنے کے بعد میں وہیں سے سیدھا اپنی نانی کے گھر چلا گیا۔ وہ بھی کوٹ لکھپت میں رہتی ہیں۔ نانی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ ایک دن نانی کے گھر رکنے کے بعد میں اپنے گھر رینالہ خورد جانے کے لیے باہر نکلا۔ باہر نکل کر میں نے سوچا کہ بس کا کرایہ بچانے کے لیے کسی کار سے لفٹ لینی چاہیے۔ چونکہ سفر بس والوں کے حساب سے بہت لمبا تھا اسی لیے میں نے ایک کار سے لفٹ مانگی۔ ڈرائیور نے مجھے بچہ دیکھ کر گاڑی میں بربٹھا لیا۔ ہم کوٹ لکھپت سے ملتان روڈ ملسم ٹاؤن کے علاقے سے وحدت روڈ کے ذریعے پہنچے اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ ملتان روڈ پر پتوکی کراس کرنے کے بعد بدقسمتی سے ہماری گاڑی سامنے سے موڑ کاٹ کر آنے والے ایک بڑے ٹرک سے ٹکرا گئی۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ گاڑی کے ڈرائیور کا تو کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ زندہ بچا یا نہیں۔ ٹرک چونکہ گاڑی سے بڑا ہوتا ہے اسی لیے اس کا پورا بانٹ انجن سمیت کار میں گھس گیا اور میں ایک زوردار جھٹکے سے اچھل کر ٹرک کے انجن میں چلا گیا۔ گاڑی ٹرک کے بونٹ میں بری طرح پیوست ہوگئی۔ اس وقت ملتان روڈ یک طرفہ ہوا کرتی تھی۔ ٹرک ڈرائیور موقع سے ٹرک سمیت فرار ہوگیا۔ گاڑی تو وہیں رہ گئی لیکن میں انجن سے باہر نہ نکل سکا۔ اب پتا نہیں ٹرک کس سمت میں جارہا تھا اور مجھے کس سمت جانے تھا، کچھ ہوش نہیں رہا۔میں نے سوچا شاید ٹرک ڈرائیور نے اسکا رخ تبدیل کرلیا ہے تاکہ بھاگ سکے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں لاہور کی آبادی برائے نام ہی تھی۔ ہر طرف سنسان ہی سنسان رہتا تھا۔ اس وقت کوٹ لکھپت بھی ایک گاؤں کی طرح تھا۔

یہ جون کا مہینہ تھا۔ شدید گرمی کے دن تھے۔ جتنی گرمی باہر تھی اس سے کہیں زیادہ گرمی ٹرک کے انجن میں تھی۔ میری ناک اور کانوں سے خون بہنے لگا۔ تھوڑی دیر میں میرے کپڑوں میں ناک و کانوں سے نکلا خون بھرنے لگا۔ ٹرک کا ڈرائیور مسلسل ٹرک انتہائی سُست رفتاری سے چلا رہا تھا کیونکہ ٹرکوں کی رفتار اس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ لاہور کی سمت جارہا تھا۔ لیکن مجھے تو اپنے گاؤں رینالہ خورد پہنچنے تھا۔ مجھے کچھ کچھ ہوش آنے لگا۔ میں رینالہ خورد کے ایک بڑے زمیندار کے غریب مزارع کا بیٹا تھا۔ میری ناک و کانوں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو آنے شروع ہوگئے تھے۔ مجھے میرے ماں باپ یاد آنے لگے۔ میں انکا اکلوتا بیٹا ہوں۔ ٹرک کا انجن میرے پھنسنے کی وجہ سے بار بار بند ہونے لگا تھا اور ڈرائیور بھی اسے باربار اسٹارٹ کرنے لگا تھا۔ مجھے اندر پھنسے ہوئے دو دن گزر چکے تھے۔ میں مسلسل دو دن سے بھوکا پیاسا ٹرک کے انجن میں بری طرح پھنسا رہا تھا۔ میری آواز بھی اب دم توڑنے لگی تھی۔ انجن کے اندر بہت شور تھا۔ کانوں کے پردے تو پہلے ہی پھٹ چکے تھے اور ان سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ اب گلا بھی دھواں سے بند ہونے لگا تھا۔ میں چیخنا چاہ رہا تھا کہ ’’مجھے باہر نکالو‘‘۔ میں ہر تھوڑی دیر بعد یہی فقرہ دہراتا تھا کہ ’’مجھے باہر نکالو، مجھے باہر نکالو‘‘ کہ شاید ڈرائیور میری آواز سن لے اور مجھے باہر نکال لے، لیکن آواز انجن کے شور کی وجہ سے باہر نہیں جاپا رہی تھی۔ ڈرائیور نے اونچی آواز میں یہ گانا لگا رکھا تھا ’’ تم سے بنا میرا جیون، سندر سفن سلونا تم مجھ سے خفا نہ ہونا، کبھی مجھ سے جدا نہ ہونا۔ تم سے بنا میرا جیون۔۔۔ ‘‘ اس گانے کی آواز میرے پھٹے ہوئے کانوں کو بری طرح چیر رہی تھی۔ اوپر سے دھواں کی وجہ سے میرا گلا بھی بند ہوچکا تھا۔ ٹرک کا انجن میرے پھنسنے کی وجہ سے اب زیادہ دفعہ بار بار بند ہونے لگا تھا۔ ڈرائیور بھی اسے بار بار اسی طرح اسٹارٹ کرنے لگا تھا۔ جتنی دفعہ ڈرائیور اسے اسٹارٹ کرتا، فین بیلٹ گھومنے کی وجہ سے مجھے اتنی ہی بار شدید تکلیف ہوتی تھی۔ میرا بدن زخموں سے چھلنی ہوچکا تھا۔ آنکھیں زرد پڑ چکی تھیں اور ان سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ مجھے بخار ہونے لگا۔ میری عمر اس وقت صرف سات سال تھی۔

تیسرے دن کی رات ہوگئی۔ آدھی رات کے کسی وقت اچانک ٹرک کا انجن ایک جھٹکے سے بند ہوگیا۔ ڈرائیور اترا اور کسی بس میں سوار ہوکر قریب کے کسی گاؤں سے ایک مستری کو لے آیا۔ اس نے رات کے اندھیرے میں ایک گھنٹے کی کوشش میں ٹارچ کی روشنی میں انجن کھول لیا۔ ٹارچ کی روشنی اندر ڈالی تو اسنے مجھے اندر پھنسے ہوئے دیکھا اور کوشش کرکے مجھے باہر نکال لیا۔

میں تین دنوں سے بھوکا پیاسا ٹرک کے انجن میں پھنسا رہا تھا۔ میری آنکھوں سے ابھی تک مسلسل آنسو آرہے تھے اور آنکھیں پوری طرح زرد پڑ چکی تھیں اور بخار بھی بہت تیز تھا۔ ناک اور کانوں سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا۔ آواز تو گلے کی بالکل ہی بند ہوچکی تھی۔ ٹرک ڈرائیور نے گھبراہٹ کے عالم میں ایک گاڑی سے لفٹ مانگی اور مجھے ہسپتال پہنچا دیا۔ ہسپتال پہنچ کر پتا چلا کہ یہ دینہ گاؤں کا ہسپتال ہے۔ دینہ پنڈی جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پہ ملتا ہے۔ میرا حادثہ پتوکی کے آس پاس ہوا تھا ا اور مجھے تو رینالہ خورد جانے تھا۔ مجھے اب سب کچھ یاد آنے لگا۔ میرا علاج ہوا۔ اسطرح مجھے میری زندگی مل گئی۔ مجھے صحت یاب ہونے میں دس روز لگے۔ بالآخر دس روز بعد مجھے ہسپتال والوں نے اپنی ایمبولینس میں ڈال کر مجھے میرے گھر رینالہ خورد پہنچا دیا۔ ماں باپ نے مجھے دیکھتے ہی اپنے سینے سے لگا لیا۔ میری گمشدگی کی رپورٹ بھی ایک ہفتے قبل درج کرائی گئی تھی۔ میں اپنے گھر واپس لوٹ آیا تھا۔

واقعہ سن 1989 ء جون۔
تحریرِ مقرر: سن 2022ء ۔
مالک و مصنف: کاشف فاروق۔ لاہور سے۔
 

kashif farooq
About the Author: kashif farooq Read More Articles by kashif farooq: 10 Articles with 69534 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.