میں اپنے ساتھ والدہ کی قبر کی مٹی بھی لے گیا٬ گوگل کی مدد سے والد کی قبر تلاش کرنے والا شخص جس نے کبھی والد کو دیکھا بھی نہیں

image
 
اگر آپ مسٹر تھیرومرن (جن کا بس یہ ایک ہی نام ہے) سے ان کے والد کے ساتھ بچپن کی یادوں کے بارے میں پوچھیں گے تو ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہو گا۔ انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کیسے نظر آتے تھے۔
 
دراصل صرف چھ ماہ کی عمر میں وہ اپنے والد سے بچھڑ گئے تھے۔ اپنے والد کی آخری آرام گاہ کی تلاش میں تھیرومن نے کئی میل کا سفر طے کیا اور انھیں انڈیا سے دور ایک دوسرے ملک جانا پڑا۔
 
ان کے والد کے راماسندرم ملائیشیا میں ایک سکول ٹیچر تھے۔ اپنے بیٹے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد 1967 میں ان کی موت نمونیا سے ہوئی۔
 
تھیرومرن اور ان کی والدہ اسی سال انڈین ریاست تمل ناڈو واپس آ گئے۔ 1987 میں جب تھیرومرن 22 سال کے تھے تو ان کی والدہ کی بھی وفات ہوگئی۔
 
مگر کئی برس تک تھیرومرن نے اپنے والد کے لکھے گئے کچھ خط سنبھال کر رکھے ہوئے تھے جو انھیں ان کی والدہ کے سامان سے ملے تھے۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ ان کے والد ’انسانی خدمت‘ اور ’اچھی گلوکاری‘ کے لیے مشہور تھے۔
 
ان کی والدہ نے 35 سال قبل اپنی وفات سے قبل اپنے شوہر سے متعلق ایک اور اہم معلومات دی تھی: ملائیشیا میں ان کی قبر کی لوکیشن۔ وہ کرلنگ نامی گاؤں میں رہتے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔
 
ایک دن 55 برس کے تھیرومرن نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے والد سے رشتے کو بحال کیا جائے۔ وہ تمل ناڈو میں بچوں کا ایک سکول چلاتے ہیں۔ یہاں مزدوری میں قید بچوں کو چھڑوا کر لایا جاتا ہے۔
 
تھیرومرن نے فیصلہ کیا کہ وہ نومبر میں ملائیشیا جائیں گے اور اپنے والد کی قبر تلاش کریں گے۔
 
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میں اکثر کہتا تھا کہ مجھے اپنے والد سے ضرور ملنا چاہیے لیکن اب تک کبھی سنجیدگی سے اس بارے میں نہیں سوچا تھا۔‘
 
image
 
تو بات شروع ہوئی گوگل پر ایک سرچ سے
تھیرومرن نے گوگل پر سب سے پہلے اپنے والد کا سکول ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر اس کے نام کے علاوہ انھیں اس تعلیمی ادارے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔
 
راماسندرم کرلنگ میں تمل برادری کے ایک چھوٹے سے سکول (Thotta Thesiya Vakai Tamil Palli ) میں انگریزی پڑھاتے تھے۔
 
تو تھیرومرن نے اپنے طلبہ سے کہا کہ وہ گوگل پر اسے سرچ کریں۔ ’مجھے کمپیوٹر چلانا نہیں آتا تھا۔ میرے طلبہ نے اسے تلاش کیا اور مجھے سکول کی تصویر دکھائی۔ میں دنگ رہ گیا۔‘
 
انھیں معلوم ہوا کہ یہ سکول کسی دوسرے مقام منتقل کر دیا گیا ہے۔ پھر انھوں نے مدد کے لیے سکول کے پرنسپل کو ای میل کر دی۔
 
سکول کی انتظامیہ کی مدد سے ان کا رابطہ اپنے والد کے سابق طالب علموں سے ہو گیا۔ ان میں کئی اب بھی ملائیشیا میں رہتے ہیں۔
 
آئندہ دنوں میں ان میں سے کئی لوگوں نے ان کے سوالوں کے جواب دینا شروع کر دیے۔ انھوں نے کہا کہ وہ قبر کی تلاش میں ان کی مدد کریں گے۔
 
تھیرومرن نے کہا کہ وہ حیران تھے کہ کس طرح سابقہ طالب علموں کو اب بھی ان کے والد اچھی طرح یاد تھے۔
 
’ایک نے مجھے بتایا کہ کیسے میرے والد نے انھیں سکول اور کالج جانے کے لیے سائیکل چلانا سکھایا۔ دوسرے نے کہا وہ پڑھائی میں کمزور تھے تو میرے والد ان کی کارکردگی میں بہتری لائے۔‘
 
’جب میں نے یہ سب سنا تو مجھے احساس ہوا کہ میری زندگی میں انھی چیزوں کی کمی رہی تھی۔‘
 
image
 
جھاڑ کے پاس موجود قبر
ان کے والد کے بعض سابق طلبہ نے ملائیشیا میں ان کی قبر ڈھونڈ لی تھی۔ انھوں نے مسٹر تھیرومرن سے رابطہ کر کے انھیں اس بارے میں بتایا۔
 
آٹھ نومبر کو تھیرومرن ملائیشیا گئے اور اپنے والد کی آخری آرام گاہ کا دیدار کیا۔
 
اس مرطوب صبح کو وہ کرلنگ کے پرانے قبرستان میں داخل ہوئے جو درختوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ انھوں نے کئی کتبوں پر نظریں دوڑائیں اور پھر آخر کار جھاڑ کے قریب ایک کتبے پر انھوں نے دیکھا کہ ان کے والد کا نام درج تھا۔
 
تھیرومرن کہتے ہیں کہ ’یہ قبر خاصی پرانی ہو چکی تھی اور اس کے اردگرد جنگلی گھاس اُگی ہوئی تھی مگر کتبے پر ان کی تصویر بھی موجود تھی۔ اس کے ساتھ ان کے جنم اور موت کی تاریخیں بھی درج تھیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی بھی انھوں نے اپنے والد کی تصویر نہیں دیکھی تھی اور انھیں اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کیسے نظر آتے ہیں۔
 
انڈیا واپسی پر تھیرومرن کی والدہ اپنے شوہر کی قبر کی کچھ مٹی اپنے ساتھ لے آئی تھیں۔ یہی مٹی ان کی والدہ کی قبر پر ڈالی گئی۔ جذباتی انداز میں وہ کہتے ہیں کہ ’اس بار میں اپنی والدہ کی قبر کی کچھ مٹی اپنے ساتھ لایا تھا۔ میں نے اسے اپنے والد کی قبر پر ڈال دیا۔‘
 
’یہ ایسا تھا جیسے موت کے بعد بھی وہ میرے ذریعے آپس میں محبت بانٹ رہے تھے۔‘
 
اگلے دنوں تھیرومرن نے اپنے والد کے سابقہ طلبہ کے ساتھ مل کر قبر کے اردگرد صفائی کی، وہاں موم بتیاں جلائیں اور انڈیا واپسی سے قبل کئی بار وہاں دعا کی۔
 
وہ کہتے ہیں کہ توقعات کے برعکس انھیں اس دورے سے وہ یادیں اور تحائف ملے جن کی کوئی قیمت نہیں۔ ان میں والد کی پرانی تصاویر بھی شامل ہیں۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ’ان کے طلبہ نے بتایا کہ میں ان جیسا نظر آتا ہوں۔ ایک لڑکے کے لیے جو اپنے والد کے بغیر بڑا ہوا، یہ ایسا ہے جیسے زندگی گھوم کر واپس لوٹ گئی ہے۔‘
 
ان کی کہانی نے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن کی بھی توجہ حاصل کی جنھوں نے پھر تھیرومرن کے سفر اور انھیں ملنے والی مدد کے بارے میں ٹویٹ کیا۔
 
وہ کہتے ہیں کہ یہ تمل برادری کی ثقافتی شناخت کا ایک مخصوص حصہ ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ’انسان میں جذبات کا سمندر بہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تھیرومرن کے لیے والد کی قبر کی کھوج میں اپنی خود کی زندگی تلاش کر رہے تھے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: