کو چہ ء دانش/مؤلفہ: گل بانو (تقریظ)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کو چہ ء دانش/مؤلفہ: گل بانو (تقریظ) (انٹر ویوز کا مجموعہ) کوچہء دانش‘قلم کار گل بانوں کی محنت کا ثمر ہے جس میں انہوں نے بعض اہم شخصیات جن کا تعلق اردو ادب اور دیگر سماجی علوم سے ہے کے انٹر ویوز کیے اورادب کے مختلف موضوعات پر کی گئی گفتگو کو مہارت، محنت،تَن دَہی اور جانفشانی سے قرطاس پر منتقل کیا اور اس کاوش کا نام’کوچہئ دانش‘ رکھ کر اہلِ ادب کو ایک خوبصورت تحفہ دیا۔ ادب کے میدان میں گل بانو کی یہ پہلی کاوش نہیں اس سے قبل وہ ایک ناول”رگِ جاں“ اپنے قارئین کو دے چکی ہیں۔ راقم الحروف کو اس ناول کا مطالعہ کرنے اور اس پر اظہاریہ تحریر کرنے کا موقع بھی ملا۔ گل بانو کا ناول’رگِ جاں‘ در اصل قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے حالات اور واقعات پر مشتمل ہے۔ جس میں اس دور میں ہونے والے واقعات، حادثات کو الگ الگ باب کے تحت قلم بند کیا گیا ہے۔ ناول کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تعلق، اخلاص و محبت کی باتوں کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا گیا۔ ناول کا بنیادی کردار ایک مرد ہے جب کہ یہ ناول صنفِ نازک کے ہاتھوں قرطاس پر منتقل ہوا ہے۔ ’کوچہ ئدانش‘کی مؤلفہ مشاق لکھاری ہیں۔ وہ افسانہ نگار، ناول نگار اور فکاہیہ مضامین بھی تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ مصاحبہ نگاری (انٹر ویو نگاری)کا ذوق بھی رکھتی ہیں۔ کراچی کے ادبی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ گل بانو کی تحریر عام فہم، آسان اور سادہ الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔افتخار عارف جیسے معروف شاعر نے گل بانو کو اپنا شعری مجموعہ عنایت فرمایا جس پر انہوں نے لکھ ”بہت ہی محترم گل بانو کے لیے جن کے ناول کا تو مداح ایک زمانہ ہے میں ان کی شائستہ گفتگو کا بھی قائل ہوں“۔یہ سچ ہے کہ وہ نرم لہجے اور شائستہ انداز گفتگو کی مالک ہیں۔ پیش نظر تصنیف کوچہئ دانش مختلف علمی و ادبی شخصیات کے انٹر ویوز کا مجموعہ ہے۔ انٹر ویو (مصاحبہ)کی اصطلاح فرانسیسی لفظ entre voirسے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی شخص یا افراد سے سوالات کر کے معلومات حاصل کرنا۔مصاحبہ نگاری یا انٹر ویو نگاری کسی بھی شاعر، ادیب، دانشور، ماہر تعلیم،مفکر، سماجی شخصیت اور سیاست دانوں سے مکالمہ کے ذریعہ ان کی شخصیت یا مخصوص موضوعات پر ان کے خیالات و نظریات کا حصول کا نام ہے۔ شخصیات کے انٹر ویوز سماجی تحقیق کے لیے ڈیٹا اکھٹا کرنے اور اسے تحقیقی آلہ کے طور پر استعمال کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔مشاہیرسے گفتگو اور اس گفتگو کو قرطاس پر منتقل کرنا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔اس عمل کے لیے سنجیدگی، جانفشانی، دلچسپی اور کام سے لگن کی اشد ضرورت ہوتی ہے جوکے مؤلفہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ تحقیق میں پرائمری معطیات(ڈیٹا) جمع کرنے کے مختلف طریقے ہیں ان میں سے ایک رابطے کا طریقہ بھی ہے۔رابطے کے طریقہ (Contact Methods)میں معلومات مختلف قسم کے طریقے یا آلات (Tools)استعمال کرکے حاصل کی جا تی ہیں۔ان میں روائتی طریقے یا طباعتی ذرائع(Printed Sources) اور برقی ذرائع (Electronic Sources)شامل ہیں۔ بالمشافہ گفتگو کے علاوہ اب جدید طریقوں کا استعمال عام ہوچکا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے بالمشافہ ملاقات کو برقی طریقہ ملاقات میں بدل دیا ہے۔ ان میں موبائل،ای میل (برقی ڈاک)، واٹس اپ، زوم، اسکائپ، اسٹریم لائن اور دیگر طریقوں سے انٹر ویوز،ملاقات، یہاں تک کہ سیاسی، ادبی، کاروباری نشستوں کے لیے برقی طریقوں کا سہارا لیا جانے لگا ہے۔ گویا ان جدید طریقوں نے کام بہت آسان کردیا وقت کردیا ہے۔ وقت کی بچت، سفر کی مشکلات سے نجات، اخراجات کی بچت، فوری اور بروقت رابطہ کی سہولت برقی ذرائع نے فراہم کردی ہے۔مؤلفہ گل بانو نے ان برقی ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے نذدیک اور دور دراز جگہوں پر حتیٰ کہ بیرون ممالک رہنے والی بعض شخصیات سے انٹر ویوز کیے اور انہیں قرطاس پر منتقل کیا۔ان احباب میں اردو ادب کی معروف شخصیات شامل ہیں جن کا تعلق پاکستان کے علاوہ بھارت، کنیڈا، جرمنی،برطانیہ، قبرص اور نیوزی لینڈ سے بھی ہے۔ ان شخصیات میں افتخار حسین عارف، انور شعور، تسنیم منیر علوی (یوکے)۔ عابد علی بیگ (لندن)، عشرت معین سیما (جرمنی،انورظہیر رہبر (جرمنی)، راحت عائشہ، زکیہ غزل (کنیڈا)، اقبال اے رحمن، احمد مسلم علوی، رحمان نشاط، منورکلیمی (امریکہ)، شاہد جمیل احمد (گوجرانوالہ)، شاہین کمال،نسترن فتیحی (بھارت)، خورشید حیات (بھارت)، نیلما تصور (قبرص)، سلمیٰ جیلانی (نیوزی لینڈ)شامل ہیں۔ انٹرویوز کرنا اور اسے قرطاس پر منتقل کر کے کتابی صورت میں شائع کرنے کا عمل بہت قدیم ہے۔ ابتدائی دور میں انٹرویوز بالمشافہ کیے جاتے تھے۔ اب دنیا میں کسی بھی جگہ موجود شخصیت سے برقی طریقہ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے انٹر ویو یاکسی بھی موضوع پر گفتگو بہت سہولت سے کی جاسکتی ہے۔ انٹرویو کے علاوہ ادبی تقریبات، کانفرنسیزبھی آن لائن یعنی برقی طریقہ کار کے تحت ہونے لگی ہیں۔ خاص طور پر سابقہ سالوں میں جب کورونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہوا تھا، لوگوں کا باہر نکلنابھی مشکل ہوگیاتھا۔اس صورت میں برقی طریقوں نے لوگوں کوایک دوسرے سے گفتگو کی سہولت فراہم کی۔ یہاں تک کہ ادبی نشستیں برقی ذرائع جیسے اسکائپ، زوم وغیرہ پرعام ہوگئیں۔ گل بانو نے بھی برقی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے تعمیری اور تخلیقی کام سرانجام دیااس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔ ان کے اس عمل سے اردو ادب کو پرائمری معلومات کا قیمتی سرمایا میسر آیا۔ جن احباب سے انٹر ویو کیے گئے ان میں بعض بڑے اور معروف شاعر اور ادیب بھی شامل ہیں۔ افتخار عارف اردو ادب کا بڑانام ہے۔ گل بانوں نے افتخارعارف سے ادب اور ان کی شخصیت کے حوالے سے کئی سوالات کیے، افتخارف صاحب نے سوالات کے تسلی بخش جواب ہی نہیں بلکہ صاف گوئی کے مظاہرہ کے ساتھ جوابات دیے۔ افتخار عارف کا تعارف کراتے ہوئے مؤلفہ نے لکھا ”افتخار عارف ایک بلند قامت مضبوط ترین ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنے فن سے ایک علیحدہ شناخت قائم کی۔ نظم اور غزل دونوں میں اپنے مخصوص انداز کی بنا پر پہچانے جاتے ہیں۔ اپنے معاشرے اور تہذیب سے ان کا رشتہ گہراہے۔ جسے انہوں نے اپنے اشعار میں رقم کیاہے“۔ افتخار عارف کا ایک بہت مشہور شعر ؎ میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے ایک اور اچھا شعر دیکھئے ؎ وہ خواب دیکھے تو دیکھے میرے حوالے سے مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو افتخار عارف کی شخصیت اور فن کے حوالے سے شیما مجید کی مرتب کردہ تصنیف ”جوازِ افتخار“ میں اردو کی نامور ادبی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کااظہار کیا ہے۔ وہ سب کچھ افتخار کی شخصیت کو ایک بڑا ادیب و شاعر کہنے کے لیے کافی ہے۔ تاہم ادیبوں اور شاعروں پر مختلف انداز سے تحریریں رقم کی جاتی رہیں گی۔افتخار عارف کے لیے میراایک شعر ؎ کہتا ہے جو نظم و غزل خوب سے خوب تر سرمایائے علم ہے وہ ادب کا افتخار ہے وہ انور شعور بلا شبہ شاعری کے بلند مرتبے پر ہیں۔ گل بانونے ان سے بھی مکالمہ کیا۔انور شعور کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے ؎ اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں جرمنی میں مقیم میرے محترم احباب عشرت معین سیما ؔاور انور ظہیر رہبرؔکے ساتھ گفتگو بھی گل بانونے کی جو اس تصنیف کا حصہ ہے۔ شاعری اور افسانہ نگاری کے حوالے سے دونوں بلند مقام پر ہیں۔ سیماؔ خوبصورت شعر کہتی ہیں جب کہ رہبرؔ شاعری کے علاوہ خوبصورت افسانے تخلیق کرتے ہیں۔ سیماؔ کبھی میری پڑوسی بھی تھیں۔ میری بیٹی بھی جرمنی کی باسی ہے اس حوالے سے بھی ان سے اخلاص کا تعلق ہے۔ سیماؔ کی تصانیف میں جنگل میں قندیل، آئینہ مشکل میں ہے، گرداب اور کنارے (شعری مجموعے)، دور ہجر کے سائے میں (افسانے)، اٹلی کی جانب گامزن(سفرنامہ)، جرمنی میں اردو (مضامین) میری یادوں میں برلن (سفر نامہ)شامل ہیں۔ سیماؔ کا ایک شعر ؎ خود غرضی کے دور میں سیماؔ امیدیں رکھتی ہے کتنی بھولی ہے انور ظہیر رہبرؔ ایک نفیس، خوش مزاج، ادب سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے عہد حاضر کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی نظر لمحہ موجود کے قاری کے مزاج اور اس کی علمی پیاس پر بھی دکھائی دیتی ہے۔عکس آواز، رنگ برنگ(جرمنی کے اردو افسانہ نگار)ان کی تخلیقات ہیں۔ ان کے دو شعر پاکستان کے رواں حالات کی عکاسی بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں ؎ ہر سمت جہاں میں آگ لگارہا ہے کوئی سُرخ لہو سے زمیں سجا رہا ہے کوئی محبتیں اختلاف بن رہی ہیں یہاں ہمارے بیچ کیا نفرتیں اُگا رہا ہے کوئی اقبال اے رحمن صاحب کراچی کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی ایک کتاب ماضی کے کراچی کا خوبصورت تاریخ نامہ ہے۔انہوں نے اپنی اس تخلیق میں ماضی کے کراچی کوخوبصورت الفاظ اور تصاویر سے متعارف کرایا ہے۔ زکیہ غزل جانی پہچانی شاعرہ ہیں۔ عرصہ دراز سے کنیڈا کو اپنا وطن ثانی بنا لیا ہے۔ اچھے شعر کہتی اور خوبصورت آواز سے پڑھتی بھی ہیں۔گل بانونے زکیہ غزل کا انٹرویو کر کے قابل تعریف کام کیا ہے۔زکیہ غزل کے دو اشعار ؎ عشق میں تیرے جنگل بھی گھر لگتے ہیں کانٹے اور ببول صنوبر لگے ہیں بس ایک ذرا خیال ہمیں دوستی کا ہے ورنہ بہت ملال تری بے رخی کا ہے نسترن احسن فتیحی کا تعلق بھارت سے ہے۔ وہ افسانہ نگار، ناول نگار، محقق اور شاعرہ ہیں۔ ان کا ناول ”لفٹ“ ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہے۔بھارت سے ہی تعلق رکھنے والے افسانہ نگار خورشید حیات کا انٹر ویو بھی پیش نظر تصنیف میں شال ہے۔ یہ انٹر ویو مؤلفہ نے کئی سال قبل کیا تھا جو پٹنہ سے جاری ہونے والے روزنامہ ”پندار“ میں شائع ہوچکاہے اور انٹر نیٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ خورشید حیات کی ای بکس میں ’ایڈ‘ اور ’لفظ تم بولتے کیوں نہیں؟‘ شامل ہیں۔ عابد علی بیگ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ بنیادی طور پر براڈکاسٹر ہیں، شاعر اور مصنف بھی ہیں۔ ریڈیو کی دنیا سے اب بھی وابستہ ہیں۔ راحت عائشہ کراچی کی جانی پہچانی ادبی شخصیت ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے کے حوالے سے معروف ہیں۔ بچوں کے ایک جریدہ ماہ نامہ ”بچوں کی دنیا“ کی مدیرہ ہیں۔ جس میں راحت کی کہانیاں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ نیلما تصور کا تعلق قبرص سے ہے مصنفہ اور شاعرہ ہیں۔ نیلما کا ایک شعر ؎ وفا سے ربط میرا لازوال ہوتا گیا پھر اس کے بعد تو جینا محال ہوتا گیا دیگر احباب جن کے انٹر ویوز پیش نظر تصنیف میں شامل ہیں وہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ گل بانوں نے انٹر ویوز کے لیے جن جن ادیبوں اور شاعروں کا انتخاب کیا وہ واقعی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔کامیاب مصاحبہ نگاری (انٹر ویو نگای) اسے کہا جائے گا جو پڑھنے والے پر مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب کرے۔ بلاشبہ گل بانوں کی مصاحبہ نگاری کا مطالعہ دلچسپ، معلوماتی اور اپنے موضوع پر قیمتی اضافہ ہے۔ شخصیات کے بارے میں دلچسپی رکھنے والوں، اردو زبان و ادب پر تحقیق کرنے والوں کے لیے گل بانوکی یہ کاوش قابل ستائش ہے۔ اس کتاب کو ہر لائبریری کی زینَت ہونا چاہیے۔ (12نومبر 2022ء)
|