ارشادِ ربانی ہے:’’اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر
ایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘۔اہل ایمان کو
قلبی تصدیق کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور انہیں شہادتِ حق کے منصبِ اعلیٰ پر
فائز کیا جاتا ہے۔ اس کی ادائیگی پر:’’ اُن کے لیے اُن کا اجر اور اُن کا
نور ہے‘‘۔ اس کے برعکس منکرین حق کو خبردار کیا گیا کہ :’’ جن لوگوں نے کفر
کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں‘‘۔ایمان و آخرت کے
علاوہ دنیا کی بابت فرمانِ قرآنی ہے :’’ خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی
اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا
آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے
کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا
ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے
اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے‘‘۔
دنیوی کامیابی کو کچھ لوگ خالق حقیقی کا انعام اور کچھ اپنے محنت کی کمائی
سمجھتے ہیں لیکن اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے۔
سامانِ زیست یاتواس دنیا میں بھی چھن جاتاہےورنہ موت تو اسے چھین ہی لیتی ۔
قرآن حکیم میں اس کی مثال یوں بیان ہوئی ہےکہ:’’ اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ
ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا کی زندگی
ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ اس لیے انکار کرنے والوں کے بالمقابل
اقرار کرنے والوں سے کہا جارہا ہے:’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی
کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین
جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر
ایمان لائے ہوں یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ
بڑے فضل والا ہے‘‘۔ بندۂ مومن کی یہ دوڑ دھوپ وصالِ یار تک جاری رہتی ہے ۔
ان حقائق کو تسلیم کرنےکے باوجود اہل ایمان کی راہ میں دورکاوٹیں آزمائش
بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ پہلی تو ناکامی کے نتیجے میں مایوسی اور دوسرے
کامیابی پر استکبار۔ان کو دور کرنے کا نسخۂ کیمیا یہ بتایا گیا کہ :’’
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو
اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو ایسا کرنا
اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے‘‘۔یہ اس لیے ہوتا ہے:’’ تاکہ جو کچھ بھی نقصان
تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر
پھول نہ جاؤ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز
سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر
اکساتے ہیں اب اگر کوئی رو گردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات
ہے ‘‘۔ یعنی صبرو شکر کا رویہ انسانوں کے اپنے لیے خیرو فلاح کا باعث ہے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت و سربلندی اس سے بے نیاز ہے۔
قرآن حکیم میں بیان کردہ یہ حقائق جب آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو جہاں
گجرات کے انتخابی نتائج سےاہل ایمان دل برداشتہ ہوتے ہیں تو دہلی و ہماچل
سے خوشی بھی ہوتی ہےلیکن جب بندۂ مومن انہیں مشیت کے فیصلے کی حیثیت سے
قبول کرلیتا تو اس کو یہ معرفت عطا کی جاتی ہے کہ :’’جو کچھ بھی تم لوگوں
کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے، اور جو کچھ
اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائدار بھی‘‘۔ یعنی آخرت کے مقابلے
دنیا کا سازو سامان بشمول کامیابی و ناکامی ابتر اور عارضی ہے۔ اس کے بعد
اخروی انعام و اکرام کے حقدار لوگوں کی صفات یوں بیان کی گئی ہیں کہ :’’ وہ
اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے
ہیں‘‘۔ایمانیات کے بعد اخلاقیات سے متعلق فرمایا گیا:’’ جو بڑے بڑے گناہوں
اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو درگزر کر
جا تے ہیں‘‘۔ یہ کام مشکل مگر لازمی ہے۔
آگےعبادات کی تلقین کی گئی کہ :’’ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم
کرتے ہیں‘‘۔معاملات کی بابت رہنمائی دی گئی کہ :’’اپنے معاملات آپس کے
مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ
کرتے ہیں اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘۔ یعنی
ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہتے بلکہ میدانِ عمل میں اپنی دینی ذمہ
داریاں ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی آخری نصیحت یہ ہے کہ:’’ برائی کا بدلہ
ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ
کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ انتخابات آتے جاتے رہتے ہیں
اور ان کے نتائج ہم پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں لیکن مندرجہ بالا مستقل
نوعیت کےاعمال ہی دائمی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔
|