اسلام آباد: کمسن ڈرائیور نے جان لے لی٬ کیا گلی محلوں میں بچوں کو ڈرائیونگ سکھانا درست ہے؟

image
 
اسلام آباد پولیس کے مطابق دارالحکومت میں لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والی کم عمر لڑکی کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد شہر بھر میں پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ ’انڈر ایج‘ ڈرائیورز (یعنی 18 سال سے کم عمر میں گاڑی چلانے والوں) کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
 
یہ واقعہ اسلام آباد کے ایک متمول علاقے میں بارہ دسمبر کو پیش آیا تھا جس میں ایک 40 سالہ شخص کی موت ہوئی۔
 
اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے 40 سالہ ملازم سلطان سکندر کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 میں زیر تعمیر مکان کی نگرانی کر رہی تھیں کہ اچانک خطرناک انداز میں چلائی جانے والی ایک گاڑی نے ان کے ملازم کو کچل دیا۔
 
اس ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 یعنی قتل بس سبب اور دفعہ 279 یعنی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
 
درخواست کے مطابق گاڑی ایک نوجوان لڑکی چلا رہی تھی جس کے ہمراہ ایک شخص موجود تھا جو موقع سے فرار ہو گئے۔ اس شخص کے بارے میں، درخواست گزار کے مطابق، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کا ملازم تھا۔
 
درخواست کے مطابق گاڑی چلانے والی لڑکی لائسنس کے بغیر ایک ممنوعہ جگہ پر ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی۔
 
image
 
’ملزمہ کے والد فوج میں کرنل کے رینک پر ہیں‘
درخواست میں بتایا گیا کہ اس واقعے کے فوراً بعد ہلاک ہونے والے شخص سلطان سکندر کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں موجود ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔
 
تھانہ گولڑہ کی حدود میں درج مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر سب انسپکٹر جاوید سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ اہل محلہ اور عینی شاہدین کے مطابق ڈرائیونگ سیکھنے والی لڑکی کی عمر 14-15 سال کے درمیان ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے پولیس کے پاس لڑکی کی عمر سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آئے۔
 
تفتیشی افسر کے مطابق ملزمہ کے والد فوج میں کرنل کے رینک پر ہیں اور وہ کوئٹہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
 
انھوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد ملزمہ کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن اس واقعہ کے بعد ان کے گھر پر کوئی نہیں ہے۔
 
تفتیشی افسر کے مطابق جس روز یہ وقوعہ رونما ہوا، اس دن ملزمہ کے گھر سے کچھ افراد ہسپتال آئے لیکن اس کے بعد سے گھر پر تالا لگا ہوا ہے۔
 
image
 
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں غصے اور ملک کے عدالتی نظام سے مایوسی کا اظہار نمایاں تھا، وہیں ایسی آوازیں بھی تھیں جو سوال اٹھا رہی تھیں کہ پاکستان میں کم عمری میں بنا ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے کی روایت کیوں ہے؟
 
ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ ’گلی محلوں میں ڈرائیونگ کون سے ملک میں سکھائی جاتی ہے؟‘
 
ٹوئٹر پر ایک صارف آصف خان نے لکھا کہ ’ملک میں ٹرانسپورٹیشن کا نظام ہی ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بدترین ٹریفک۔‘
 
تاہم پاکستان میں کسی کم عمر کا گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نظر آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ یہ رواج کیوں کر عام ہے اور اس میں پولیس یا والدین میں سے کون زیادہ قصور وار ہے؟
 
’زیرو ٹالرنس‘
اسلام آباد پولیس کے سربراہ اکبر ناصر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈر ایج ڈرائیونگ سے متعلق پولیس کو زیرو ٹالرنس کا حکم دیا گیا ہے۔
 
image
 
انھوں نے کہا کہ پولیس افسران کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اگر کوئی بھی کم عمر ڈرائیونگ کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے والد اور جس نے بھی چلانے کے لیے گاڑی دی ہے، ان کو بھی ذمہ دار گردانتے ہوئے ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
 
آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ روکنے کی ذمہ داری صرف ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی نہیں بلکہ تھانوں اور مختلف ناکوں پر تعینات پولیس اہلکار بھی اس غیر قانونی اقدام کو روکنے اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہیں۔
 
اسلام آباد پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے پولیس افسران کو ہدایت دی ہیں کہ اگر کوئی شخص قانون توڑنے والوں کو چھڑانے کے لیے آئے تو اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: