انسانیت اور فطرت کی ہم آہنگ بقائے باہمی کا نیا باب

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ایک بڑے ذمہ دار ملک کے طور پر حالیہ برسوں میں چین کے عالمی اثر ورسوخ اور ساکھ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔چاہے دنیا کو درپیش عالمگیر وبا ہو ، علاقائی تنازعات ہوں یا پھر قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز ،چین نے ہمیشہ تعمیری کردار اپنایا ہے اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کا موقف قائم رکھا ہے۔اس کی حالیہ کڑی اقوام متحدہ کا حیاتیاتی تنوع کنونشن یا کوپ 15 ہے جس میں دو ہفتوں کی طویل بحث کے بعد ، دنیا بھر کے مندوبین نے 2030 تک حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو روکنے اور اسے ریورس کرنے کے لئے ایک تاریخی منصوبے کی منظوری دی ہے اور اس ضمن میں فریقین نے " کھون مینگ مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک " پر اتفاق کیا ہے۔اسے ایک تاریخی موقع کہا جا رہا ہے کیوں کہ یہ فریم ورک ایک صحت مند اور خوشحال عالمی ماحولیاتی نظام کی تعمیر اور پائیدار ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے میں انسانیت کے اتفاق رائے کا مظہر ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ نیا فریم ورک حیاتیاتی تنوع سے متعلق کنونشن کے 196 فریقوں کی جانب سے آئندہ دہائی تک کرہ ارض کے وسائل کے تحفظ کا عزم ہے۔

کوپ 15 کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا تھا ، جس کا پہلا اجلاس اکتوبر 2021 میں چین کے شہر کھون مینگ میں منعقد ہوا۔ اجلاس کا دوسرا مرحلہ کینیڈا کے شہر مونٹریال میں منعقد ہوا۔کوپ 15کے صدر کے طور پر ، چین نے حتمی معاہدے کے طے پانے میں فریقوں کے مابین رابطہ اور مفاہمت میں مثبت کردار ادا کیا۔چین کے لیے یہ امر بھی باعث اطمینان رہا کہ جہاں کاپ 15 کی صدارت چین کے پاس تھی وہاں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے فریم ورک کے تحت اہداف اور گولز ، وسائل کو متحرک کرنے اور ڈیجیٹل ترتیب کی معلومات یا ڈی ایس آئی سمیت اہم امور پر اتفاق کیا ہے۔ اس فریم ورک میں 2030 تک کامیابی کے لئے چار گولز اور 23 اہداف شامل ہیں۔یہ فریم ورک ترقی یافتہ ممالک سے مالیاتی وسائل کے ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کی جانب بہاؤ کو بڑھانے پر زور دیتا ہے ۔اس ضمن میں امیر ممالک 2025 تک سالانہ کم از کم 20 بلین ڈالر اور 2030 تک سالانہ کم از کم 30 بلین ڈالر حیاتیاتی تنوع کے لیے بطور عالمی امداد فراہم کریں گے۔

اس دوران یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ کم از کم 30 فیصد انحطاط پزیر زمینی وسائل ، آبی وسائل ، اور ساحلی اور سمندری ماحولیاتی نظام کو مکمل بحال کیا جائے یا جاری کوششوں کو آگے بڑھایا جائے۔
چین کی کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے ہیں کہ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، جاپان، ناروے، جرمنی، فرانس، اسپین، نیدرلینڈز اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ دیگر ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے لیے اپنی مالی امداد بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔تا حال، مختلف ممالک، ماحولیاتی تنظیموں ، مخیر حضرات، کاروباری تنظیموں اور سرمایہ کاروں کی جانب سے بین الاقوامی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے عوامی طور پر اعلان کردہ رقوم کی سالانہ مالیت 8.3 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے.یہ نیا فریم ورک اقوام متحدہ کے موجودہ عالمی ماحولیاتی نظام کے اندر ایک نیا حیاتیاتی تنوع فنڈ تشکیل دیتا ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کے مابین ایک سمجھوتے کے طور پر سامنے آیا ہے جو ایک نیا فنڈ چاہتے تھے ،ساتھ ہی یہ ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داریوں کا تعین بھی کرتا ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے وعدے تو کیے گئے تھے مگر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔علاوہ ازیں ،یہ معاہدہ آبائی باشندوں کے کردار اور شراکت کو بھی تسلیم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے آبائی باشندوں کے بین الاقوامی فورم برائے حیاتیاتی تنوع کی جانب سے بھرپور سراہا گیا ہے۔

چین کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ چار سال کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر یہ عمل پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے ، اب یہ پیش رفت حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو روکنے اور ریورس کرنے کے لئے تمام فریقوں کی مشترکہ کوششوں کی رہنمائی کرے گی تاکہ دنیا کو بحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے اور تمام انسانوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔اس معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے چین نے کہا کہ اس فریم ورک میں "فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے" کے وژن 2050 کی عکاسی کی گئی ہے۔چین کی یہ کوششیں یقینی طور پر آئندہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں مددگار ثابت ہوں گی اور اس سے ترقی پزیر ممالک کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ وسائل کی بہتر تقسیم سے فطرت سے ہم آہنگ ترقی کی جستجو کریں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 615793 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More