غلام علی وفاؔ۔ گیت نگار اور شاعر(ایک شام غلام علی وفا ؔکے ساتھ)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
غلام علی وفاؔ۔ گیت نگار اور شاعر(ایک شام غلام علی وفا ؔکے ساتھ) ٭ خطبہ صدارت: پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی غلام علی وفاؔصاحب، ابراہیم مسمل صاحب روح رواں مسمل آرٹس کونسل، ذمہ داران نیشنل پریس کلب، قابل احترام مقررین، شام میں شامل احبابِ گرامی! السلام علیکم! آج کی حسین شام غلام علی وفاؔ کے نام ہے۔ منتظمین نے ان کا خیر مقدم کیا، مقررین نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کی شان میں خوبصورت الفاظ سے نوازا۔ سچ تو یہ ہے کہ وفاؔ صاحب کی شخصیت، ان کا موسیقی سے تعلق اور خدمات، ان کی گیت نگاری اور شاعری میں جو حسن اور خوبصورتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میں بھی دل کی گہرائیوں سے جنابِ وفا ؔ کو آج کی شام میں مبارک باد پیش کرتا ہوں، منتظمین بھی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے آج کی شام کے لیے جناب غلام علی وفاؔ کا انتخاب کیا۔ چند دن ہوئے میرے بہت ہی عزیز دوست جناب اویس ادیب انصاری نے مجھے سے رابطہ کیا اور کہا کہ کراچی کے ایک شاعر جناب غلام علی وفاؔ کے ساتھ ایک شام منائی جارہی ہے۔ اس شام میں مجھے صدارت کے فرائض انجام دینا ہوں گے۔اویس صاحب کی جانب سے یہ پہلی وارداد نہیں تھی ان کی محبت کا میں دل سے قائل ہوں۔ یہ ضرور کہا کہ میں خود کو شاعروں میں شمار ہی نہیں کرتا لیکن آپ کے لیے میرے ڈکشنری میں لفظ ’نو‘ نہیں۔ اویس صاحب اور منتظمین کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ خوبصورت گیتوں کے خالق،موسیقی سے لگاؤ رکھنے والے اور شاعر کے ساتھ شام میں شریک ہوکر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ مجھ سے قبل معروف اورمعتبر شخصیات نے جناب وفاؔ کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی،دیکھا جائے تو اب چندہ گنجائش نہیں کہ میں ان باتوں کو دُہراؤتاہم رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ کوشش کرتا ہوں مختصر غلام علی وفاؔ کے بارے میں گفتگو کو آگے بڑھاؤں۔ غلام علی وفاؔ سے ایک تعلق تو شاعر و ادیب ہونے کا ہے دوسرا اہم تعلق یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی ریاست راجستھان میں مجھ سے کوئی دو سال قبل جنم لیا اور راجپوت ٹہرے، حسن اتفاق میرے اجدادکا تعلق بھی راجستھار سے تھا جو اب راجستھان کے شہر بیکانیر کی سرزمین میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ کچھ اب بھی اسی سرزمین کے باسی ہیں۔اس ناتے سے میں بھی بنیادی طور پر راجپوت ہوں۔ بعد میں دہلی اور پھریو پی کا ضلع مظفر نگرمیرے پرکھوں کا وطن ٹہرا۔لیکن میں نے پاک سرزمین میں آنکھ کھولی اور کراچی میں گزربسر کرتے ساتویں دھائی سے آٹھویں دھائی میں قدم رکھ چکا ہوں۔غلام علی وفا ؔ نے بھی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی اور کراچی ان کا مسکن ٹہرا۔ وفاؔ صاحب کے بارے میں جو کچھ انٹر نیٹ پر موجود ہے میری معلومات کا ذریعہ وہی کچھ ہے، افسوس کہ میری رسائی ان کی کسی تصنیف تک نہیں ہوئی حالانکہ ان کی تصانیف ایک درجن سے سے زیادہ ہیں۔ غلام علی وفاؔ نے فنونِ لطیفہ کی ایک ہم صنف موسیقی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور 1962ء میں میوزک انڈسٹری کا حصہ بنے۔ پھر گیت نگاری کی جانب آگئے اور ایسے گیت لکھے جو نہ صرف بہت مشہور ہوئے بلکہ اس دور کے معروف گلوکاروں نے گائے۔ شاعری اور موسیقی کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ موسیقی کسی نہ کسی شکل میں شاعری کا حصہ ہوتی ہے۔ بعض شاعر شاعر دلکش ترنم میں جب اپنا کلام سنا تے ہیں نہ تو اس کے ساتھ موسیقی کے آلات ہوتے ہیں جیسے طبلہ، سارنگی وغیرہ لیکن شاعر کا کلام اور اس کا دل کش انداز شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی کا جو لطف سننے والے محسوس کرتے ہیں وہ لاجواب ہوتا ہے۔حبیب جالب، عبیداللہ علیم، نصیر ترابی، مظفر وارثی، قمر جلالوی، زکیہ غزل اور دیگر ترنم سے اپنا کلام سنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ شاعری انسانی احساس ہے۔ احساس جب الفاظ کا روپ دھار لیں تو شعر بن جاتا ہے اور شعر کو موسیقیت کے لبادے کے ساتھ پیش کیا جائے تو اس کے اثرات بہت مختلف ہوجاتے ہیں۔شعر کا اصل حسن شعر کی پختگی اور بلندی ہوتا ہے۔ لفظوں کی باریکیاں اور انشا پردازی بھی بہت ضروری ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی خیال اورالفاظ کا چناؤ مل کر پائیدار شعر کی بنیاد رکھتے ہیں۔ غلام علی وفا ؔ کی شاعری میں دونوں چیزیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پائیدار ہے، اس میں پختگی ہے، خوبصورت الفاظ ان کے اشعار کا حسن ہیں۔ وفا ؔ صاحب میوزک انڈسٹری سے منسلک ہوئے پھر ریڈیو اور ٹی وی تک پہنچے، گیت نگاری شروع کی تو اس میں نام کمایا۔ ان کے لکھے ہوئے گیت اپنے وقت میں بہت مشہور ہوئے اور اس وقت کے معروف گلوکاروں نے ان کے گیت گائے۔ جیسے ’کجراری انکھیوں میں نندیا نہ آئے“اس وقت کا مقبول ترین گیت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ معروف گلوکارہ مہناز کا گایا ہوا پہلا گانا تھا۔ معروف گلوکاروں ریشماں، سلامت علی، تاج ملتانی، غلام عباس اوربلقیس خانم نے بھی خوبصورت دھن کے ساتھ اپنی خوبصورت آواز سے ان گیتوں کو امر کردیا۔اسی طرح غزل کے شہنشاہ مہندی حسن نے بھی غلام علی وفا ؔ کی معروف غزل اپنے منفرد انداز سے گائی۔ اس غزل کا پہلا شعر ؎ ہماری یاد ستائے تو پھر چلے آنا کہیں قرار نہ آئے تو پھر چلے آنا غلام علی وفا ؔ کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ان میں ”دھوپ دریا تشنگی، آؤ سورج اگائیں، خواب دیکھتے رہنا، یہ گیت میرے، رنگ ہائے وفا اور غزل سے لب ہیں ترے“شامل ہیں۔غلام علی وفاؔ کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے کہ جس نے موسیقی سے اپنے فن کی ابتداکی، گیت نگاری نے ان کے فن کو جلا بخشی اور وہ خوبصورت شعر کہنے لگے۔ شاعری انہیں وراست میں ملی، لیکن اس کاآغاز طبلہ نوازی سے ہوا،پھر گیت نگاری میں جوہر دکھائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ایک پختہ شاعر کا کلام ہے۔ جو شاعری کے جملہ رموز سے مزین ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا سقم موجود نہیں۔ پروفیسر سحرؔ انصاری نے وفاؔ صاحب کے شعری مجموعے ’غزل سے لب ہیں تیرے‘ کا دیباچہ ’ایک منفرد و شعری مجموعہ‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ اس میں سحرؔ انصاری صاحب نے لکھا کہ غلام علی وفا ”یک فکر“ شاعر نہیں وہ شاعری کے رموز کے علاوہ موسیقی، تاریخ، مذہبیات، سیاسیات اور ادبیات کے شناور بھی ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری میں ایک الگ رنگ، آہنگ نظر آتا ہے۔ وفا نے قلمی دنیا میں بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ اس مستزاد یہ کہ وہ راجستھانی زبان اور کلچر کے ایک قابل ذکر نمائندہ ہیں۔ وفاؔ کو راجستھانی زبان کے گیت اور دوہے ازبر ہیں۔ ان کے دادا مرحوم ’میر مونگاجی‘ بھی راجستھانی زبان کے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ غلام علی وفا ؔ کی شاعری کسی ایک اسلوب تیک محدود نہیں، ان کے یہاں سیل ممتنع کی اچھی مثالیں بھی مل جاتی ہیں اور اوق اور مشکل زمینوں کو پانی کردینے کا ہنت بھی موجود ہے۔ غزل کی بیشگر زمینیں ان کی اپنی ہیں۔ ان میں لفظوں کی منفرد و ترتیب کے ساتھ حسن و جمال کا بھی پر تو ملتا ہے‘۔‘ شعر ی مجموعہ غزل سے لب ہیں تیرے کی تخلیق کی موجب عظمیٰ شیخ وسیم ہیں۔ شعری مجموعے میں ان کی تحریر بھی شامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ بقول عظمیٰ شیخ ”ان کی نئی کتاب ”رنگ ہائے وفا“ نہ صرف کتاب مجھ سے منسوب کی ہے بلکہ اس کتاب کی وجہ تخلیق بھی میرے ادبی ذوق کو ٹھرایا ہے“۔ اس حوالہ سے وفا ؔ صاحب کا شعر ؎ غزل سے لب ہیں ترے گیت جیسی آنکھیں ہیں گلِ گلاب یہ عارض ہیں مے سی آنکھیں ہیں اپنے دوسرے شعری مجموعے ”رنگ ہائے وفاؔ“کے بارے میں ایک قطعہ کچھ اس طرح کہا ؎ میں جن رنگون میں ہوں گوندھا گیا یہ رنگ ہیں سارے مری الفت میری نفرت کے ہی یہ ڈھنگ ہیں سارے مرے لہجے مرے لفظ و بیاں احساس کا مظہر جو مجھ میں گونجتے رہتے ہیں وہ آہنگ ہیں سارے غلام علی وفاؔ کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاسکتا ہے اس لیے کہ یہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ گیت نگاری اور موسیقی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ یعنی وفاؔ صاحب پر بات کرنے اور لکھنے کے لیے وافر مواد موجود ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ شاعر موصوف کی شاعری اور گیت نگاری پر تحقیقی کام کیا جائے تاکہ ان کی وہ کاوشیں کہیں تہہ خانوں میں بند ہوکر دیمک کی نظر نہ ہو جائیں۔ان الفاظ کے ساتھ اجازت۔ (16دسمبر2022)
|