عید آئی، عید آئی کے
شور اور عید گاہ و مساجد میں فرزندان توحید کے جم غفیر کے ذریعہ ”عید الفطر“ کی
دوگانہ نماز ادائیگی کے درمیان ”میٹھی عید“ نے ایک ایسا سماں باندھا اور ایسا
نظارہ پیش کیا کہ جس کا بیان کیا جانا ناممکن سا لگتا ہے۔ یوں تو سال کے دیگر
کئی ایام ہیں جن میں خوشیاں منائیں جاتی ہیں لیکن عیدالفطر کی خوشیاں ان میں
ایک منفرد اور الگ مقام رکھتی ہیں۔ ایسا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ یہ خوشی ہمیں
اللہ رب ذوالجلال کی طرف سے بابرکت، رحمت اور مغفرت کے ایام رمضان المبارک میں
روزہ رکھنے کے عوض تحفہ کے طور پر ملی ہے۔ طلوعِ آفتاب سے شروع ہونے والا یہ
ایام کیسے گزر گیا یہ تو پتہ ہی نہ چلا۔ بچوں کی ”عید آئی، عید آئی“ کی
کلکاریوں سے شروع ہوا عید الفطر مبارکباد دینے ،ایک دوسرے سے گلے ملنے اور
سوئیوں اور مٹھائیوں کے کھانے کھلانے کا سلسلہ کب غروب آفتاب کی آغوش میں چلا
گیا کچھ احساس ہی نہ ہوا۔ رنگ برنگے ملبوسات اور سروں پر مختلف اقسام کی ٹوپیاں
زیب تن کئے ہوئے، بچے، بوڑھے اور جوان کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ جس وقت عید گاہوں
اور مساجد کی جانب رواں دواں تھا اس وقت کا سماں دیکھتے ہی بن رہا تھا۔ دلہن کی
طرح سجے عید گاہ اور مساجد ان فرزندان توحید کا والہانہ استقبال کرنے کے لئے
تیار تھے جو تیس روزے رکھنے کے بعد اپنا تحفہ خدا وند قدوس سے وصول کرنے یہاں
پہنچ رہے تھے۔ کہیں گاڑیوں پر سوار نمازیوں کا ٹولہ تو کہیں گھوڑے پر سوار
نمازی ایک عجیب سی مسکراہٹ اور تبسم کے ساتھ دوگانہ نماز کی ادائیگی کے لئے
متعین جگہوں پر پہنچ رہے تھے۔ سڑکوں پر جابجا نمازیوں کا ٹولہ دکھائی دے رہا
تھا جس سے ایک الگ نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔ اپنے ہمجولیوں کے درمیان بچوں
کا اپنے انداز میں خوشیاں بانٹنااور ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا نظارہ بھی
بڑاہی پُرکشش تھا۔ یعنی کہ آج خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ وہ خوشی جو رمضان کے
روزے رکھنے کے عوض ہمیں اللہ کی طرف سے تحفے کے طور پر ملی۔ اس خوشی کے موقعہ
پر ہندو مسلم، بڑے بوڑھے، عورتیں اور مردوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر
مبارکباد دی۔ عید گاہ اور مساجد میں جمع فرزندان توحید کے درمیان آج نہ تو کوئی
امتیاز تھا اور نہ ہی کسی طرح کی قباحت ۔مصلی پر محمود دو ایاز ایک ہی صف میں
کھڑے ہوکر نماز دوگانہ ادا کررہے تھے اور خطیب و امام کے خطبے سن رہے تھے۔ امیر
و غریب ایک ہی صف میں سربسجود تھے اور اپنے ہاتھوں کو بار گاہِ خداوندی میں
اٹھاکر دعا کررہے تھے۔ واقعی اس سے بڑھ کر کوئی اور ساعت اور موقعہ نہیں ہوسکتا
کہ جس میں یہ نظارہ دیکھنے کو ملے۔ ایک دوسرے سے گلے ملنا مانو دل کو دل سے
ملانے کا نظارہ پیش کررہا تھا۔ بعد نماز عید الفطر ایک دوسرے کا والہانہ
استقبال اور گلے ملنے کے نظارے سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے آج سبھی ایک ہیں۔
نہ کسی کے دل میں کدورت ہے نہ کوئی گلہ شکوہ، نہ کسی کے درمیان کوئی رنجش ہے نہ
ہی کوئی تفرقہ۔ لوگ ایک دوسرے سے ایسے مل رہے ہیں جیسے دو دل ایک جان ہورہے
ہیں۔سڑکوں اور گلیوں میں ٹولے کے ٹولے ادھر سے ادھر جاتے ہوئے یکجہتی اور بھائی
چارے کا ثبوت دے رہے تھے۔ کہیں سوئیاں کھائی اور کھلائی جارہی تھیں تو کہیں پر
مرغ بریانی اور قورمے سے دسترخوان بھرے تھے اور لوگ اس کے ذائقہ سے لطف اندوز
ہورہے تھے۔ امی جان بچوں اور ان کے دوست و احباب کی ضیافت میںمصروف تھیں تو
لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو اپنے شلوار قمیص اور مہندی کی ڈیزائن دکھاتے ہوئے ایک
الگ سی خوشی محسوس کررہی تھیں۔ ابا جان کا کیا کہنا؟ غریب خانے کے دروازے پر
کھڑے ہوکر وہاں سے گزرنے والے لوگوں کو نہ صرف عید کی مبارک باد دے رہے تھے اور
گلے مل رہے تھے بلکہ انہیں سوئیاں اور قورمے، بریانی کھانے کے لئے دعوت دیکر
دسترخوان تک پہنچارہے تھے۔ ایسے میں دادی جان اس سے محفوظ کیسے رہ سکتی ہیں سو
انہوں نے بھی ہم پوتے پوتیوں کو ”ہڑکارہ“ بنادیا اور کہنے لگیں جاﺅ فلاں دادی
جان کو بلا لاﺅ اور فلاں نانی جان سے میرا سلام اور عید کی مبارکباد کہہ دینا۔
عید کی خوشیاںمنانے کا جنون عمر، ذات برادری اور حدود سے بے خبر ایک دوسرے کی
چوکھٹ پر پہنچ کر ایک دوسرے کو گلے سے لگارہا تھا اور عید کی مبارک باد دے رہا
تھا۔ نماز دوگانہ ادا کرنے، عید کی مبارکباد دینے، سوئیاں اور قورمے کا لطف
اٹھانے کے بعد بچوں اور نوجوانوں کا ٹولہ اب سڑکوں پر نکلا۔ بس اسٹاپ پر بس کا
انتظار ہورہا ہے تو میٹرو اسٹیشنوں کی جانب بھی لوگ کوچ کررہے ہیں۔ کچھ بچوں
اور نوجوانوں کا ٹولہ لال قلعہ کی سیر کرنے کا پروگرام بنارہا ہے تو کچھ ٹولے
لوٹس ٹیمپل، قطب مینار، لودھی گارڈن اور انڈیا گیٹ جانے کی فکر میں مبتلا تھے۔ |