طلبہ جامعہ کشمیر کی خواہش پر ڈاریکٹوریٹ آف سٹوڈنٹس
افیرز جامعہ کشمیر کے زیر اہتمام طلبا و طالبات کے لئے ایک آگاہی سیشن
بعنوان ”سیرت النبیﷺ اور آج کا نوجوان“ مین آڈیٹوریم کنگ عبداللہ کیمپس میں
منعقد کیا گیا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ مذہبی سکالر علامہ محمد رضا
ثاقب مصطفائی صاحب (ہلال امتیاز) نے خصوصی خطاب فرمایا۔جامعہ کشمیر آزاد
کشمیر کی سب سے پرانی اور بڑی درسگاہ ہے۔جس کا معاشرے کی ترقی‘تعلیم و
تربیت میں کلیدی کردار ہے۔ کیوں کہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں طلبہ
ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں“۔آج ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت
ہے وہ ہے سیرت النبی ﷺکا مطالعہ اور پھر اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ جامعہ
کشمیر نے ہمیشہ کی طرح طلبا کے مستقبل کو تابناک کرنے میں اہم کردار ادا
کیا ہے۔ہمارا دین ہماری شریعت‘ہمارا دستور سب سے اعلیٰ‘ ہمیں اس سے دور کر
کے رسوائی کی گہرائی میں دھکیلا گیا ہے۔ہم نے امت بننا تھا‘ ہم فرقے‘
علاقائی‘ نسلی‘ قبیلائی تعصب کے نظر ہو گئے۔ ہمارے اصل ہیروز کے
کارہانمایاں سے لاعلم کیا جا رہا ہے‘ آج ہم میں سے بہت ہی کم کو اپنے اسلاف
کے کارنامے یاد ہیں‘زیادہ تر ڈراموں‘ فلموں‘ اور کاغذی ہیروز کی پیروی کر
کے ناکام ہو رہے۔ اپنے ملک کی چیزوں پر فخر کرنے کے بجائے بیرون ملک سے
خریدی گئی چیزوں پر فخر کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اپنے ملک کی ساخت کو نقصان
پہنچتا ہے بلکہ ہم خود اپنی عوام کے اندر اپنی ہی چیزوں کے لیے منفی جذبات
پیدا کرتے ہیں۔ڈاکٹر اقبالؒ نے انہی جذبات کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے کیا
خوب فرمایا تھا:
ترے صوفے ہیں افرنگی‘ ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
مہنگائی اور غربت کے اس دور میں نوجوانوں کو اسلام کے سنہری اصول یاد رکھنے
چاہیے۔چاہے کچھ بھی ہو جائے سیدھا راستہ اپنانا ہے۔حلال اور حرام میں نہ
صرف خود تمیز کرنی ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھانا ہے کیوں کہ:
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
آج امّت مسلمہ ہر طرف سے دشمنوں کے نرغے میں ہے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
پھر سیرت النبی ﷺ کو اپنائیں‘ ایک دوسرے کے لیے نفرت و بغض جیسے جذبات نہ
رکھیں۔آپس میں بھائی چارے اور محبت جیسے جذبات بانٹیں‘پھر سے انصار و
مہاجرین والی مثال بن کر سامنے آئیں‘ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں کہ کوئی
کسی کا استحصال کرنے والا نہ ہو‘ایک دوسرے کے دکھ درد محسوس کریں غرض ایک
ایسا معاشرہ وجود میں آئے۔
نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن اور سیرت کو اپنی زندگی کا حصّہ
بنائیں کیوں کہ یہ نوجوان ہی ہیں‘ انہوں نے آگے جا کر اس ملک کی باگ دوڑ
سنبھالنی ہے۔اس کے لیے قرآن کا گہرا مطالعہ ضروری ہے‘ اس کے ساتھ سیرت
النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)‘ اور سیرت خلفائے راشدین کا بھی مطالعہ بھی
کرنا چاہیے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کو شاہین کی صفات اپنانے کی
ترغیب دی ہے شاہیں بلند پرواز ہوتا ہے‘ جو ہمیشہ چوٹی پر رہتا ہے‘وہ گھر
نھیں بناتا اور بلند پرواز کرتا ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی اک فضا میں
اور ہے شاہین کا جہاں اور کرگس کا جہاں
نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ان کا مقصد واضح ہو‘ کیوں کہ آگر
کوئی مقصد ہی نہیں ہوگا تو پھر زندگی انھیں بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔ اپنے
تو اپنے غیروں کا خیال کرنے کی روش اپنانی ہے‘ذرا ذرا سی نیکیاں معاشرے میں
نکھار پیدا کر سکتی ہیں اور ذرا سی برائی معاشرے کو بگاڑنے کا سبب بن سکتی
ہے‘راہ چلتے کوئی پتھر ہٹا دینا‘ گزرتے ہوئے لوگوں کو سلام کرنا‘مسکرا کر
ملنا اور بہت سے ایسے کام ہیں جو نہ صرف صدقہ میں شمار ہوتے ہیں بلکہ
معاشرے میں امن پیدا کرنے کا باعث ہیں۔نوجوان اپنے سے چھوٹوں کو تعلیم کے
زیور سے آراستہ کر سکتے ہیں۔ تعلیم حاصل کر کے وہ بھی ملک و قوم کی ترقی
میں حصّہ لے سکیں، کیا پتا کتنے ہی ذرخیز ذہن ایسے لوگوں میں پائے جاتے ہوں
جو تعلیمی اخراجات نہں اٹھا سکتے۔
طالب علموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کا احترام کریں اور اپنے
اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ
جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا‘ وہ میرا آقا قرار پایایہ تھی ان کے نزدیک استاد
کی اہمیت استاد کو روحانی ماں باپ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بچوں کو اچھے برے
کی تمیز کرواتے ہیں۔اور والدین کے درجات سے تو ہم سب واقف ہیں کہ والدین کی
خوشنودی میں اللہ کی خشنودی پوشیدہ ہے اور والدین کی نارضگی میں اللہ کی
ناراضگی ہے۔
جددید تعلیم کے ساتھ قرآن اورسیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم
بھی بہت ضروری ہے‘ ایک اچھا تعلیم یافتہ انسان اگر حافظ قرآن بھی ہو تو وہ
معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔دین اور دنیا کو ساتھ لے
کر چلنے کی ضرورت ہے‘چاہے وہ سیاست کا میدان ہو‘ معاشی میدان ہو یا کوئی
بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے ہر مسئلے کا حل قرآن میں پوشیدہ ہے۔
بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ دوڑ اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔جس طرح
ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل
کر عمارت وجود میں آتی ہے‘ہراینٹ کی اپنی ایک جگہ ہوتی ہے‘ ایک بھی اینٹ کو
نکال دیا جائے تو عمارت گر جائے گی‘بالکل اس ہی طرح ملک کی تعمیر میں طلبہ
کو اہمیت حاصل ہے۔معاشرے کی ترقی میں طلبہ کی اہمیت کا اندازہ کسی لڑی میں
پرو موتیوں کی مالا سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آگر ایک بھی موتی نکال دیا
جائے تو پوری مالا ٹوٹ جائے گی۔
کسی بھی معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک ایک فرد اہمیت کا حامل ہے۔
”افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ“
جو جنگ تلوار سے نہیں جیتی جا سکتی وہ جنگ قلم سے جیتی جا سکتی ہے۔سیرت کے
ذریعے معاشرے میں پھیلی بے حیائی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے. آج ہماری نوجوان
نسل کا زیادہ تر وقت میڈیا کے آگے گزرتا ہے‘جہاں انھیں مغربی تہذیب کی چمک
دمک اپنی طرف گھیرتی نظر آتی ہے‘ نوجوان اردو بولنے کے بجائے انگریزی بولنے
میں فخر محسوس کرتے ہیں‘مشرقی طرز زندگی اپنانے کے بجائے‘ مغربیت کی طرف
راغب ہیں‘اور تو اور آج کل شادی بیاہ تک پر ہندوانہ رسم و رواج کو فروغ دیا
جا رہا ہے‘جو کہ سرا سر غلط ہے۔ کوئی بھی قوم کسی کی نقل کر کے کبھی بھی
ترقی کی منازل طے نہں کر سکتی:
”نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے“
اگر ہم سیرت النبیﷺکو اپنائیں گے توان شائاللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ
معاشرہ ایک مضبوط اسلامی معاشرہ بن جائے گا۔
|