اس میں کوئی شک نہیں کہ کووڈ 19 وبائی صورتحال نے دنیا
بھر کے ممالک کی صحت کی پالیسیوں اور گورننس کی صلاحیتوں کو کڑی آزمائش سے
دوچار کیا ہے۔ اس طرح کے امتحان میں کسی ملک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت
، اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ اس نے اپنے شہریوں کی زندگیوں اور صحت کے
ساتھ ساتھ انسداد وبا کے دوران اپنی معاشی اور سماجی ترقی کا کیسے تحفظ کیا
ہے۔چین میں وبا کی روک تھام کے گزشتہ تین سالوں کے دوران، ان دو لازمی
عوامل کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے اور ملک کی جانب سے عملی اور مؤثر کووڈ
پالیسی اور اس میں بروقت اصلاح کو یقینی بنایا گیا ہے۔
ان کوششوں کا نتیجہ یوں برآمد ہوا ہے کہ چین نے انسداد وبا اور اقتصادی
سماجی امور میں ہم آہنگی سے نظام زندگی کو رواں رکھا اور اب موجودہ دور کے
تقاضوں کی روشنی میں اپنی کووڈ پالیسی میں ایڈجسٹمنٹ کی ہے. اس حقیقت کا
ادراک لازم ہے کہ اگر گزشتہ تین سالوں میں چین کی وضع کردہ انسداد وبا
پالیسی پر عمل درآمد نہ کیا جاتا تو لاکھوں چینی شہریوں کی زندگیاں ضائع ہو
جاتیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا کی تمام نعمتوں میں زندگی سب سے قیمتی
تحفہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحت اور زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے ، دنیا کے سب سے
زیادہ آبادی والے ملک نے ہمیشہ اپنے لوگوں کو مقدم رکھا اور چاہے وہ
نوزائیدہ بچے ہوں یا صد سالہ بزرگ ، وبائی صورتحال میں اُن کا مکمل تحفظ
کیا گیا ہے۔2020 کے اوائل سے چین کے مضبوط انسداد وبا ردعمل نے ایک ایسی
قیمتی مہلت فراہم کی جس کی بنیاد پر آج چین اس قابل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے
پالیسیوں میں ایڈجسٹمنٹ کر سکتا ہے۔آج جہاں کووڈ وائرس کی شدت میں کمی آ
چکی ہے وہاں چین اپنی 1.4 ارب آبادی میں 90 فیصد سے زائد کی مکمل ویکسی
نیشن کر چکا ہے ، چینی شہریوں میں صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا چکی ہے
، نیز ایسےقیمتی تجربات اور علاج کے موثر طریقے تیار کیے جا چکے ہیں جو
شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ میں انتہائی مددگار ہیں۔
اس دوران اپنے عوام پر مبنی فلسفے کو برقرار رکھتے ہوئے ، دنیا کی دوسری سب
سے بڑی معیشت نے اپنی معاشی اور سماجی ترقی میں بھی قابل ذکر کامیابیاں
حاصل کی ہیں۔ وائرس کے خلاف جنگ کو اقتصادی اور سماجی ترقی کی ضروریات کے
ساتھ مؤثر طریقے سے مربوط کرتے ہوئے، چین نے گزشتہ تین سالوں میں 4.5 فیصد
کی اوسط سالانہ اقتصادی ترقی درج کی ہے ، جو دنیا کی اوسط سے نمایاں طور پر
زیادہ ہے.اسی طرح اندرون و بیرون ملک متعدد چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے،
چین کے مضبوط لچک، بے پناہ صلاحیت اور متحرک پن جیسے مستحکم معاشی رجحانات
میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔چین کو اس بات کا سہرا بھی جاتا ہے کہ اُس نے
اپنی انتھک اور اہدافی انسداد وبا کوششوں کی بدولت روزگار اور پیداوار کی
فوری بحالی کو یقینی بنایا جس سے نہ صرف ملکی سطح پر افراط زر کی شرح پر
قابو پایا گیا ، بلکہ بیرونی تجارت کو بھی نمایاں طور پر آگے بڑھاتے ہوئے
دنیا کی ضروریات کو بھی احسن انداز سے پورا کرتے ہوئے طلب اور رسد کی کڑی
کو رواں رکھا گیا ۔ اگر یہ چین کی فعال کووڈ حکمت عملی نہ ہوتی تو ، سامان
کی قلت سے خوردہ قیمتوں میں یقیناً اضافہ ہوتا، جس سے عالمی معاشی بحالی
میں رکاوٹ پیدا ہوتی اور پہلے سے ہی کمزور عالمی سپلائی چین کو مزید تناؤ
کا سامنا کرنا پڑتا۔ چین آج بھی ہر قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے
تیار ہے اور اُس کے نزدیک تمام کوششوں کا مقصد عوامی فلاح و بہبود اور
قیمتی انسانی جانوں کا تحفظ ہے ، یہی چین کی کامیابی کا اصل راز بھی ہے۔
|