چلہ کلاں آ گیا

سردی کا شہنشاہ چلہ کلاں21دسمبرسے ایک بار پھر تخت نشین ہو رہاہے۔ کڑاکے کی خشک سردی اس کا شاندار استقبال کر رہی ہے۔تشریف آوری سے قبل ہی اس نے کشمیر، گلگت بلتستان اور گرد ونواح کے عوام کو سردی سے نڈھال کر دیا ہے۔مظفر آباد، راولاکوٹ ، باغ سمیت آزاد کشمیر کے بالائی علاقوں، مری، گلیات، کوئٹہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ میں شدید سردی ہے۔ کشمیری میں شدید سردی کے موسم کو چلہ کلاں کہا جا تا ہے۔ جس کے لغوی معنی'' 40بڑے '' کے ہیں۔یعنی شدت کی سردی کے چالیس ایام۔ایسی ٹھنڈ جو خون کو بھی جما دیتی ہے۔ہڈیوں کو گلا دیتی ہے۔چلہ کلاں کی مقبوضہ وادی کشمیر میں صدیوں سے انفرادیت رہی ہے۔ اس موسم میں خوب برفباری ہوتی ہے۔ برف جم جاتی ہے۔ شبنم بھی جم جاتی ہے۔ چھتوں اور آبشاروں کا پانی جم کر معلق ہو جاتا ہے۔ کشمیری میں اس کو’’ ششر گانٹھ‘‘ کہتے ہیں۔ شدید سردی کے 70دن 21دسمبر یا6پوہ سے شروع ہورہے ہیں۔ کڑاکے کی سردی۔ پھر چلہ خورد ہے۔اس کے بعد چلہ بچہ۔ چلہ کا فارسی میں مطلب چالیس ہے۔ یوں چلہ خورد کا مطلب کم سردی کے چالیس دن ہو سکتا ہے۔تا ہم چلہ خورد چلہ کلاں کے بعد 20دن کو کہتے ہیں۔ چلہ خوردکے بعد کے 10 ایام کوچلہ بچہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح21دسمبر سے 30جنوری تک چلہ کلاں، 31جنوریسے 19فروری تک چلہ خورد(چھوٹے)، 20فروری سے یکم مارچ تک چلہ بچہ ہوتا ہے۔

چلہ انگریزی لفظ chillکا ہم ردیف و قافیہ ہو سکتا ہے۔ جس کے معنی شدید ٹھنڈ اور سردی کے ہیں۔چلہ کلاں دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دونوں فارسی کے جملے ہیں۔اس مناسبت سے ان کا فارس یا ایران سے ایک خاص تعلق جوڑا گیا ہے۔ ویسے بھی کشمیر کو ایران صغیر کہا جاتا ہے۔ کشمیر میں شاید'' کانگڑی'' اور'' فیرن'' اسی وجہ سے ایجاد ہوئے تا کہ شدت کی سردی کا مقابلہ کیا جا سکے۔کشمیری ثقافت و تہذیب کا اہم حصہ فیرن ہے، جسے آج مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر ، لاک ڈاؤن، پابندیوں، تقسیم کشمیر کے ساتھ سرکاری سطح پر پابندی کا سامنا ہے۔وادی اور جموں کے علاقے گپ اندھیرے میں ہیں۔ بھارت کشمیر میں دریائے جہلم، چناب پر ہزاروں میگاواٹ پن بجلی پیدا کرتا ہے اور اس سے بھارتی شہر روشن کئے جاتے ہیں۔چلہ کلاں میں منفی ڈگری درجہ حرارت میں پانی کے نلکے جم کر پھٹ جاتے ہیں۔چلہ پرانے زمانے میں اولیائے کرام کی جانب سے دنیا و ما فیھا سے بے خبر اور دور کسی صاف و پاک جگہ، پہاڑ ، بیاباں یا جنگل میں اﷲ کو یاد کرنے کی مناسبت سے جانا جاتا رہا ہے۔ چلہ یعنی چالیس دن اﷲ تعالیٰ کی عبادت۔ رہبانیت اگر چہ اسلام میں منع ہے،یعنی انسان کو دنیا ترک کرنے اور جنگل اور بیابانوں کی راہ لینے کی ہر گز اجازت نہیں۔ ہمیں حقوق اﷲ اورحقوق العباد دونوں کی ہدایت ہے۔ اﷲ اور اس کے بندوں کے حقوق لازمی ہی نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں۔بلکہ اﷲ کے بندوں کے حقوق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور تاکید ہے۔یہ بھی کہانیوں میں درج ہے کہ چلہ کے دوران لوگ غائب بھی ہو جاتے تھے۔ کچھ لوگ جنات، بھوت پریت پر غلبہ پانے کے لئے بھی چلے کاٹتے تھے۔ لیکن زیادہ تر چلوں کا تعلق عبادت سے جوڑا گیا ہے۔ آج کے دور میں دین کی تبلیغ پر جانے والے چالیس ایام تبلیغ کے لئے لگائیں تو وہ اسے بھی چلہ قرار دیتے ہیں۔ زیر بحث چلہ کلاں، موسم سرما سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا کشمیر کی ثقافت اور تہذیب سے گہرا تعلق ہے۔

کوئٹہ بلوچستان میں بھی سردیوں کے چلے اسی حساب سے گنے جاتے ہیں۔ ناموں میں کچھ فرق ہے۔ ''چلہ کلاں '' کو آج کشمیری خوش آمدید کہنے کے دوران ریاستی دہشتگردی کے شکار ہیں۔دھند یا کہر، چلہ کلاں نہیں۔بلکہ ان کا بھی اسی موسم میں راج رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے شمالی بر صغیر، پنجا ب اور سرحدمیں نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ جی ٹی روڈ اور موٹر ویز پر گاڑیاں چلانا مشکل ہو جاتاہے۔ جہازوں اور ٹرینوں کے شیڈولز میں خلل پڑتا ہے۔

ایران اور کشمیر میں چلہ کلاں ایک اہم جشن کا نام ہے۔ جشن بہاراں کی طرح شدید سردی کی آمد کا جشن۔ چلہ کلاں گو کہ کشمیر میں زبان زد عام ہے، راولپنڈی اور اسلام آباد، لاہور، دہلی تک اس کا چرچاپہنچتا ہے۔دھند اس کی مشترکہ روایت ہے۔ یہ شہرت اس لئے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ریاستی حیثیت ختم کر کے دو یونین ٹیریٹیزبنا کر آپریشن کے تحت قتل عام تیز کیا ہے۔ لاکھوں غیر کشمیریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔انہیں کشمیر کی شہریت دی گئی ہے۔ کشمیر میں انہیں ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔زمینیں شدت پسند ہندوؤں کو الاٹ کی جا رہی ہیں۔کشمیریوں کو مواصلاتی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان پر پیلٹ، پاواکی فائرنگ کی جاتی ہے۔ زہریلی گیسوں کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ ہزاروں افراداس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کو بینائی سے محروم کیا گیا ہے ۔ان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بھارت کی جمہوریت کشمیر میں نظر نہیں آتی۔ بھارت اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لئے کشمیریوں کا گرم خون بہا رہا ہے۔ کشمیر کے لداخ ریجن میں دراس ایسا علاقہ ہے جس کا درجہ حرارت منفی 40ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ کرگل جنگ کے دوران اس علاقہ میں جنگی نامہ نگار کے طور پر چلہ کلاں کاخوب احساس ہوا۔گلگت بلتستان کی دوسری طرف بھارت کے قبضہ میں یہ علاقہ سائیبیریا کے بعد دوسرا سرد ترین علاقہ ہے۔جسے بھارت نے اب اپنی کالونی بنا دیا ہے۔

سائیبیریا میں جب شدید سردی ہوتی ہے تو وہاں کے پرندے فرار ہو کر وادی کشمیر اور پنجاب کے میدانوں میں بھی آ جاتے ہیں۔ وادی میں ''ہوکر سر''، جھیل ڈل،نگین جھیل، جھیل ولراور دیگر جھیلیں ان مہمان پرندوں کی چہک سے گونج اٹھتی ہیں۔ان جھیلوں پر بھارتی بحریہ کا قبضہ ہو گیا ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں بھی ان مہمان پرندوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ان پرندوں کے ساتھ دلفریب داستانیں وابستہ ہیں۔ لیکن انہیں جاسوس پرندے یا سراغ رساں کبوتر نہ سمجھا جائے۔سائیبیریا اور کشمیر کا تعلق قدیم لگتا ہے۔اب روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور معاہدے بھی ہو رہے ہیں۔ یہ مثبت پیش رفت ہے۔کبھی کڑاکے کی اس سردی کو کشمیری خوب انجوائے کیا کرتے تھے۔ برفباری۔ ہاتھ میں کانگڑی(دہکتے کوئلوں سے بھری مخصوص انگیٹھی، جس کا بھارتی فورسز کے خلاف کوئلہ بم کے طور پر استعمال ہوا)۔ فرن(چوغہ) زیب تن۔ سماوار(کشمیری تھرماس جس میں کوئلے دہکتے ہیں) کی چائے۔ سردیوں میں وادی میں تعلیمی اداروں کو اڑھائی ماہ کی تعطیل ہوتی ہے۔ یہاں کبھی چلہ کلاں کے جشن کا اہتمام ہوتا تھا۔ ایران میں آج بھی جشن بہاراں کی طرح چلہ کلاں منایا جاتا ہے۔ جشن کے دوران تعطیلات ہوتی ہیں۔کشمیر میں چلہ کے ڈر سے'' دربار مو'' بھی کافی معروف ہے۔حکمرانوں کے دربار اور درباری سرینگر میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی اپنے دفاتر سمیت جموں فرار ہو جاتے تھے۔ دہائیوں بعد بھی یہ روایت چلی آ رہی تھی۔ سول سکریٹریٹ سے وابستہ دفاتر سرینگر سے 300کلو میٹر دور جموں میں جاتے تھے۔ گرمیوں کے 6ماہ سرینگر میں اور سرما کے 6ماہ جموں میں۔ راجوں

مہاراجوں کا مزاج اور روایات کشمیر پر مسلط تھا۔اب مقبوضہ کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر نے دربار مو کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔ موسم کی انگڑائی کے بعداب چلہ کلاں نے جموں کا بھی رخ کر لیا ہے۔ جموں ، سیالکوٹ کا کبھی جڑواں شہر تھا۔جب چلہ کلاں دربار مو کا جواز ختم کررہا تھا۔بھارت نے کشمیر کو اپنی کالونی بنانے کے بعد دربار مو ختم کر دیا ۔ چلہ کلاں اب جموں ہی نہیں بلکہ دہلی، لاہور تک پہنچ گیاہے۔ پنجاب بھی اس کی زد میں ہے۔انسان قدرت کے نظام میں خلل ڈالتا ہے۔موسم بدل رہے ہیں۔کیا پتہ،حضرت انسان اپنی حالت کب بدلے گا۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555127 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More