کسی بھی ریاست میں مہنگائی اور آبادی کا توازن انتہائی
اہم کردار ادا کردار ادا کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی دو چیزوں میں بڑھاؤ کا
سبب ہوا کرتی ہے جن میں بے روزگاری و مہنگائی نمایاں ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی
کسی ریاست میں موجود خوراک کے ذخیرہ میں عدم توازن پیدا کرتا ہے جس کی وجہ
سے خوراک کی کمی پیش آتی ہے جو مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔ سیلاب اور ہاؤسنگ
سوسائٹیز کی تعمیر کی وجہ سے ذرخیز زمین میں روز بروز کمی پیش آرہی ہے۔
ذرخیز زمین میں کمی آنے کی وجہ سے بھی فصلوں اور خوراک میں کمی آرہی ہے۔ اس
وقت مہنگائی کی وجہ سے لاکھوں گھروں میں دو وقت کی روٹی کھانا محال ہو چکا۔
پیٹرول، آٹا، چینی و دیگر اشیا ء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں تو سیاسی
لیڈرز اپنی سیاسی جنگ میں مصروف عمل ہیں۔ پچھلے 6 ماہ میں کوکنگ آئل میں بے
پناہ اضافہ ہوا جس نے عام آدمی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی ہے۔ بڑھتی
ہوئی مہنگائی کا ایک فقدان یہ بھی ہے کہ یہ واپس کمی کی جانب رخ نہیں کرتی
اور بدقسمتی سے حکومت وقت کے پاس مہنگائی اور بے روزگاری کو روکنے کے لیے
کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سیاسی رہنما نا ملکر بیٹھنا چاھتے ہیں نا ہی عوام
الناس کی فلاح و بہبود کی جانب قدم بڑھانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی آبادی میں سالانہ
اضافہ ہوتا ہے۔ میری نظر میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ایک بنیادی
وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں دنیا میں کہیں آبادی نہیں بڑھ
رہی جتنا آبادی میں اضافہ پاکستان ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں ترقی پذیر و ترقی
پسند ممالک آبادی کو اس ملک کی معاشی طاقت سمجھا جاتا تھا مگر بڑھتی ہوئی
آبادی کو ریاست کی معیشت کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری
آبادی اور مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔ مسلسل
سیلاب اور سیلابی صورت حال کی وجہ سے اکثر ملکی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں جو
خوراک میں مزید کمی کا باعث بنتی ہے۔ یورپ نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا
ہوا جس وجہ سے وہاں وسائل کی تقسیم میں توازن برقرار ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی مہنگائی اور وسائل میں عدم توازن پیدا کرے گی اس کے سدباب
کے لیے 1973 سے اقوام متحدہ نے کنٹرول آبادی کو عالمی پالیسی بنایا ہوا ہے.
آبادی میں تیز رفتار سے اضافے کی شرح چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی
ہے اس لیے ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی
رہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈز کیلئے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط
منوایاجاتا ہے۔ اس لیے آج ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل
کی بڑی وجہ آبادی کی تیز رفتار بڑھاؤ ہے ۔قیام پاکستان کے وقت ملک کی کل
آبادی ساڑھے سات کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جس میں مغربی پاکستان کی
آبادی پونے چار کروڑ اور مشرقی پاکستان کی آبادی سوا چار کروڑ تھی۔اگلے
بیس سال بعد جب وطن عزیز دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تو مشرقی پاکستان کی
آبادی چھ کروڑ ساٹھ لاکھ اور مغربی پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ ستر لاکھ
تک پہنچ چکی تھی یعنی دو عشروں میں آبادی کی شرع ڈبل ہو چکی تھی ۔سن 1971ء
میں ایک آزاد ریاست کے بطور قائم ہونے والے بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ
بندی کے پروگرامز پر عمدہ انداز سے عمل درآمد کیا گیا ہے۔
آج پاکستان کی کل آبادی کم و بیش 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور قدرتی وسائل
میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے وجود نے ذرخیز زمینوں اور
کسانوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔
1971 سی آج تک بنگلہ دیش بطور آزاد ریاست آبادی کے پھیلاؤ میں کنٹرول کو
احسن طریق سے سر انجام دے رہا ہے اسی طرح چین نے بھی پچھلے 10 سالوں سے
اپنی آبادی کے پھیلاؤ میں خاصا کنٹرول کیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ریاستی سطح
پر پاکستان اب تک آبادیاتی پلاننگ سے کوسوں دور ہے۔ مذہبی رہنماؤں و علماء
کا اس پر انتہائی اہم اور موثر بیانیہ ہونا چاہئیے تاکہ ملک ایک معاشی ترقی
کی سمت کی جانب بڑھ سکے. آج پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے
جبکہ بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ کے قریب ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم
،صحت اور ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کو دیکھیں اور پھر اپنی بد حالی کو دیکھیں
تو حقیقت سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں سے بھول ہوئی ہے۔ اس وقت
ریاست کے ہر شہری کو اپنا اہم کردار کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ اساتذہ ہوں
یا موٹیویشنل اسپیکر، خواہ وہ علما کرام ہوں یا سیاسی رہنما ہر طبقے کو
آبادیاتی کنٹرول میں اپنا اہم اور مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان
ایک مثبت سوچ و سمت کے ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوے ترقی کا سفر طے کر سکے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ادارے آئندہ 6 ماہ یا 5 سال کا نہیں بلکہ
آئندہ 50 و 100 سال کا سوچ کر متحد ہوں تاکہ ملک ایک سیاسی، معاشی اور
معاشرتی ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔ آبادی میں توازن ہی مہنگائی و معاشرتی
توازن لا سکتا ہے. |