صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
ایک کہاوت ہے کہ ”آپ پیسے سے ہر چیز خریدتے ہیں، لیکن آپ وقت نہیں خرید
سکتے۔“
سورۂ عصر کی تفسیر کے تحت تفسیر کبیر میں ایک بزرگ کا فرمان ہے :
میں نے سورۂ عصر کا مطلب ایک برف بیچنے والے سےسمجھا جو بازار میں بار بار
صدا لگا رہا تھا کہ “ اُس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ گُھلتا جارہا ہے۔ “
یہ صدا سُن کر میں نے کہا : یہ ہے( اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲))
کا مطلب کہ جو زندگی انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے
گُزر رہی ہے ، اِس کو اگر ضائِع کیا جائے یاغَلَط کاموں میں صَرْف کردیا
جائے تو اِنسان کا خسارہ ہی خسارہ ہے۔
وقت اللہ کریم کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے۔ وقت تقسیم ہوتا ہے ،
کبھی گھنٹوں اور دنوں سے تعبیر کرتے ہیں ،
کبھی دن اور رات کہتے ہیں ،
کبھی صبح اور شام سے پکارتے ہیں ، کبھی اسی وقت کا نام ماضی ، حال اور
مستقبل رکھتے ہیں اور کبھی
“ آج “ اور “ کل “ بولتے ہیں۔
بیشک وقت سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں ، اگر آپ کے پاس وقت ہے تو زندگی ہے
اوراگر وقت نہیں تو زندگی نہیں ۔
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کر کے چھوڑے گا
وقت انتہائی قیمتی ہے،
ہماری زندگی کے لمحات انمول ہیرے ہیں اگر ان کو ہم نے ضائع کردیا تو حسرت و
ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا۔
لکھاری ،قاری ،وقت اور الفاظ کا ایک اٹوٹ انگ ہے، نہ ختم ہونے والا رشتہ۔
دونوں ایک دوسرے کے بنا نامکمل۔ رشتہ ایسا کہ جیسے بارش کا تعلق خشک زمین
سے۔ بارش کے قطروں کو جذب کرنے کے لئے زمین اپنی بانہیں کھول دیتی ہے۔
لکھنا فن ہے ،یہ رب کی عطاء ہے ،ہر کوئی لکھاری نہیں ہوتا لیکن شاید بننا
چاہتا ہے ،لکھاری ،قاری،وقت اور الفاظ بھی ایک ایسا ہی تعلق رکھتے ہیں ،
آمریکی ناول نگار جان چیوّر نے خوب بات کہی
I can`t write without a reader it is precisely like a kiss. you cannot
do it alone.
اگر میرے قارئین نہ ہوں تو میں لکھ نہیں سکتا, لکھنا بھی بوسہ لینے جیسا
ہے.آپ اکیلے نہیں کر سکتے۔ بوسہ لینے کے لئے بھی کسی پیشانی کسی لب و
رخسار کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے ہی شاید لکھاری کو اپنی تخلیق کو سراہنے کے لیے قاری کی ضرورت ہوتی ہے
اور قاری کو قید کر لینے والے الفاظ کی کی ضرورت ہوتی ہے ،
اس دوران تنقید برائے تنقید یا تنقید برائے اصلاح بھی ہونا ایک فطری عمل ہے
لیکن یہ ہی عمل ان تمام رشتوں کو جوڑنے کی بنیاد ہوتا ہے ،
ایک موسیقار اپنے تخلیقی عمل کو مکمل کرنے کے لئے بہترین سماعتوں کی طلب
رکھتا ہے‘
ایک مصور‘ رنگوں سے کینوس پر تصویر بناتا ہے تو اس کے رنگ اس وقت تک پھیکے
ہیں جب تک ان رنگوں کے رمز کو سمجھنے والی نگاہ اس پر نہیں پڑتی۔
لکھنا بھی شاید حسن اور عشق کے تعلق جیسا ہے۔ حسن محبوب کی نگاہ کا غلام
ہوتا ہے۔ عشق نہ ہو تو حسن بھی بے مول۔۔۔۔۔۔لکھنے والے کے لئے بھی قاری کی
اہمیت ایسی ہی ہے کیونکہ کہ لکھاری کے لفظ محبوب والا مقام رکھتے ہیں ۔۔۔
وہ شاعر ہو یا کہانی کار۔ ناول کے جہان آباد کرتا ہو۔ عشق کے افسانے لکھتا
ہو۔یا پھر کالم نگار ہو کہ سیاسی ،معاشرتی منظر نامے پر نظر رکھتا ہو۔
حرف و لفظ سے کردار کا ہر تخلیق کار خواہش رکھتا ہے کہ اس کے لکھے ہر
حرف،لفظ،اور جملے کی جانا، پہچانا اور مانا جائے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ لکھنا ،پڑھنا بھی باقاعدہ ایک تخلیقی عمل ہے،کیونکہ
دونوں اپنی زندگی اور تجربے کے آئینے سے اس تحریر کو پڑھتے اور سمجھتے
ہیں۔ چونکہ پڑھنے کا عمل ایک ایسا ہنر ہے جس میں قاری تحریر پڑھتے ہوئے
لکھاری کے تخلیقی عمل میں شریک ہو جاتا ہے ، پھر لکھاری اس قاری کو آسانی
سے رلا سکتا ہے۔ ہنسا سکتا ہے ،اداس کر سکتا ہے۔ تحریک دے سکتا ہے۔ امید
دلا سکتا ہے۔ اسے ہی تحریر کی طاقت کہتے ہیں۔ کبھی کوئی تحریر آپ پر ایسا
جادو کر دیتی ہے کہ آپ تادیر کچھ اور پڑھ نہیں سکتے۔ یا پھراس تحریر کا
طلسم آپ پر ایسے حاوی ہو جاتا ہے، بعض تحریریں ایسی شاندار اور سحر انگیز
ہوتی ہیں کہ تحریر پڑھنے کے بعد قاری لکھاری کے زاویہ نگاہ سے ہی زندگی کو
دیکھنے لگتا ہے اور تحریر کچھ وقت کے لیے قاری کو اپنی بھول بھلیوں میں گم
کر دیتی ہے۔پڑھتے پڑھتے ایسے لگتا کہ ان سے ہمارا بہت قدیم‘ بہت گہرا تعلق
ہے۔حرف و لفظ کے وسیلے سے ایک مقدس رشتہ وجود میں آتا ہے،بطور قاری ان
لکھاریوں کے ساتھ ایک ذہنی قربت کا تعلق محسوس ہوتا ہے۔
اللہ کریم ہمیں وقت کی قدر و قیمت سمجھنے اور اپنے وقت کو اچھے استعمال میں
لانے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کریم کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت ہی
پیاری اور قیمتی نعمت وقت ہے۔ وقت ایک ایسی نعمت ہے جو ہر انسان کو یکساں
ملتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ غریب کےلئے دن ورات میں 24 گھنٹے ہیں اور
امیر کے لئے 27 ، بلکہ اللہ پاک نے ہم میں سے ہر ایک کو دن و رات میں ڈبل
بارہ (24) گھنٹوں میں 1440 منٹ یا 86400سیکنڈ عطا فرمائے ہیں ۔
قراٰنِ کریم میں مختلف طریقوں سے ان چیزوں کو بیان فرمایا گیا جن پر وقت /
زمانہ مشتمل ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَ النَّهَارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُؕ-)
ترجمۂ :
اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں رات اور دن اور سورج اور چاند
گزرتا وقت دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک دن اور دوسری رات ، ان کے متعلق حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام فرماتے ہیں : اِنَّ ھٰذَا اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ
خَزَانَتَانِ فَانْظُرُوْا مَا تَصْنَعُوْنَ فِیْھِمَا ترجمہ : یہ دن اور
رات دو خزانے ہیں تو دیکھتے رہو کہ تم ان خزانوں میں کیا ڈال رہے ہو۔
زندَگی بے حد مختصر ہے۔ “ جو وقت مل گیا سو مل گیا ، آئندہ وقت ملنے کی
اُمّید دھوکا ہے۔ کیا معلوم آئندہ لمحے ہم موت سے ہم آغوش ہوچکے ہوں۔ وقت
کی قدر دان اور اہمیت سمجھانے والی سب سے عظیم ہستی حضور نبیِّ
آخرُالزّمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اِغْتَنِمْ
خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ : شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ
سَقَمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ
وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ترجمہ : پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے
غنیمت جانو : (1)اپنی جوانی کواپنے بڑھاپے سے پہلے
(2)اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے (3)اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے
پہلے
(4)اپنی فرصت کو اپنی مصروفیت سے پہلے
(5)اپنی زندَگی کو اپنی موت سے پہلے۔
نیز حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
مَا مِنْ یَوْمٍ طَلَعَتْ شَمْسُہُ فِیْہِ اِلَّا یَقُوْلُ مَنِ اسْتَطَاعَ
اَنْ یَّعْمَلَ فِیَّ خَیْرًا فَلْیَعْمَلْہُ فَاِنِّیْ غَیْرُ مُکَرَّرٍ
عَلَیْکُمْ اَبَدًا۔
ترجمہ : روزانہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دن یہ اعلان کرتا ہے : جو کوئی مجھ
میں اچھا کام کرسکتا ہے تو کرلے کیونکہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں
گا۔
حضرت ابودرداء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : یَا اِبْنَ آدَمَ اِنَّمَا
اَنْتَ اَیَّامٌ فَکُلَّمَا ذَھَبَ یَوْمٌ ذَھَبَ بَعْضُکَ یعنی اے آدمی
!تو ایّام ہی کا مجموعہ ہے ، جب ایک روز گزر جائے تو یوں سمجھ کہ تیری
زندگی کا ایک حصّہ بھی گزر گیا۔
(2)ایک مرتبہ کسی نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ سے عرض کی :
امیرُالمؤمنین یہ کام آپ کل کرلیجئے گا تو فرمایا : میں روزانہ کا کام ایک
دن میں مشکل سے پورا کرپاتا ہوں ، اگر آج کا کام کل پر چھوڑدوں گا تو پھر
دو دن کا کام ایک دن میں کیسے کر سکوں گا؟
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
|