کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بڑا بھائی ،باپ جیسا ہی ہوتا ہے۔
اس کی سوچ اپنے چھوٹے بھائیوں کے لیے وہی ہوتی ہے جو ایک باپ اپنی اولاد کے
بارے میں سوچتا ہے ۔ ہم الحمد ﷲ پانچ بھائی ہیں ۔مجھ سے دو بڑے اور دو
چھوٹے ہیں ۔دونوں بڑے یکے بعد دیگرے اس فانی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں جبکہ
میں اور میرے دونوں چھوٹے بھائی بفضل ہی تعالی زندہ ہیں۔ میں جس بھائی کا
یہاں تذکرہ کرنے لگا ہوں ان کا نام محمد رمضان خاں لودھی ہے ۔بھائیوں میں
وہ سب سے بڑے تھے ۔ وہ مئی 1947ء میں ہندوستان کے مشہور شہر فرید کوٹ میں
پیدا ہوئے ۔ماں باپ کی پہلی اولاد کی وجہ سے انہیں خاص مرتبہ اورمقام حاصل
تھا ۔ابھی وہ چند ماہ ہی کے تھے کہ 14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر
پاکستان کے نام پر مسلمانوں کی ایک عظیم مسلم ریاست وجود میں آئی ۔
مسلمانوں کی بہت بڑی تعدا د ہجرت کرکے سرزمین پاکستان پر چلے آئے۔یہ ہجرت
مسلمانوں کو کس قیمت پر پڑی۔ اس لمحے میرا یہ موضوع نہیں ہے ۔صرف یہ بتانا
کافی سمجھتا ہوں کہ 9لاکھ مسلمان عورتوں ، مردوں اور بچوں کی شہادتوں کی
طفیل ہمیں یہ آزاد وطن حاصل ہوا۔جیسے ہی میرے والدین فرید کوٹ سے ٹرین پر
سوار ہونے لگے تو والدہ کے ہاتھ سے پھسل کر بھائی رمضان پلیٹ فارم اور ٹریک
کے درمیان جا گرے۔یہ وہ وقت تھا جب پلیٹ فارم کے باہر سکھ اور ہندوبڑی
تعداد میں کرپانیں اور تلواریں ہاتھوں میں لیے قتل و غارت کے لیے تیار کھڑے
تھے ۔ انجن نے چلنے سے پہلے وسل بجا دیا تھا ۔سب گاڑی میں سوارتو ہوگئے
لیکن میری والدہ کی چیخ وپکار کی وجہ سے ان کے ماموں سے برداشت نہ ہوا۔
انہوں نے چھلانگ لگاکر بچے کو پلٹ فارم پر رکھا اور خود چلتی ہوئی ٹرین سے
بچ کر گاڑی میں سوار ہوگئے ا سطرح بخیریت قصور شہر پہنچے میں کامیاب
ہوگئے۔یہاں والد صاحب ( محمد دلشادخاں لودھی ) کو 25دسمبر 1954ء کو ریلوے
میں کانٹے والا کی حیثیت سے ملازمت مل گئی ۔ حسن اتفاق سے یہی میری تاریخ
پیدائش بھی ہے ۔اس لیے مجھے اپنے خاندان کے لیے نیگ شگون قرار دیا گیا ۔والد
صاحب پریم نگر، قلعہ ستار شاہ سے ہوتے ہوئے 1960ء میں واں رادھا رام جا
پہنچے ۔ اس اسٹیشن کا نام آجکل حبیب آباد ہے۔بھائی رمضان نے ابتدائی تعلیم
کا آغاز تو قلعہ ستار شاہ میں قیام کے دوران ہی کرلیا تھا ۔ باقی تعلیم
پتوکی اور رینالہ خورد کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی ۔ سکول سے واپسی پر
والدین کا معاشی طور پر ہاتھ بٹانے کے لیے بھائی رمضان اور بھائی اکرم
ریلوے پھٹاک پر مالٹے ،جامن اور فالسہ وغیرہ بیچا کرتے تھے ۔جبکہ سکول سے
چھٹی کے بعد مجھے سگریٹ فروخت کرنے کے لیے چھوٹا سا کھوکھا بناکر دے دیا
گیا۔ میں تھوڑا ،ایمبسی ،کے ٹو ، کیپسٹن وغیرہ کے سگریٹ اور ماچس وغیرہ
فروخت کیاکرتا تھا ۔جب بھائی رمضان نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس
کرلیا تو والد صاحب نے ان کی نوکری اور ہماری پڑھائی کے لیے لاہور چھاؤنی
تبادلہ کرا لیا ۔بھائی رمضان کو ابتدا ء میں ریل کار شیڈ اوربعد میں
الیکٹرک شیڈ میں ٹربل شوٹر کی حیثیت سے تعینات کردیا گیا ۔نوکری کے ساتھ
ساتھ انہوں نے ریڈیو ٹھیک کرنے کا ہنر بھی سیکھ لیا تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا
جب عام گھروں میں ٹی وی کا تصور بھی نہیں تھا اور ہرچھوٹے بڑے کے پاس ایک
بینڈ سے چار بینڈ کے ریڈیو ہوا کرتے تھے ۔بلکہ گراموریکارڈ کا رواج بھی عام
تھا جس پر کتے کی تصویر بنی ہوتی تھی ۔چونکہ اس وقت ریڈیو کو ٹھیک کرنے
والے دور دور تک موجود نہ تھے اس لیے دور ونزدیک سے ریڈیو ٹھیک کرانے والے
بھائی رمضان کا پوچھتے پوچھاتے ہمارے گھر پہنچ جاتے ۔گھر میں ایک چھوٹا سا
لکڑی کا کھوکھا بنارکھا تھا جس میں روز مرہ میں استعمال ہونے پرچون کی
چیزیں موجود تھیں اس کھوکھے کو چلانے کی ذمہ داری میرے سپرد تھی ۔کچھ عرصے
بعد بھائی رمضان کی عارف والا میں خالہ زاد سے شادی ہوگئی اور انہیں گڑھی
شاہو پل کے قریب ریلوے کا ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی مل گیا جب وہ وہاں شفٹ
ہوگئے تو کبھی کبھی میں بھی ان کے گھر جاتا تو وہ ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا
پکڑکر بازار جاتے اور میرے لیے کھانے پینے کی بیشمار چیزیں لے آتے ۔جب کبھی
میں الیکٹرک شیڈ میں انہیں ملنے جاتا تو وہ ایک درخت کے نیچے (جو اس بیس
کیمپ تھا )،بیٹھے ہوئے کچھ نہ کچھ کررہے ہوتے ۔ مجھے فخریہ انداز میں اپنے
افسران سے ملواتے ۔یہ بات میرے لیے یقینا اعزاز کا باعث تھی ۔کچھ عرصے بعد
وہ بیمار رہنے لگے ۔انہیں شاہد ٹی بی کا مرض لاحق ہو گیا تھا ۔یہی مرض
انہیں 27دسمبر 1995ء کو موت کی وادی میں لے گیا ۔دل سے دعانکلتی ہے کہ اے
میرے پروردگار میرے اس باپ جیسے بھائی کو جنت الفردوس میں داخل فرما ۔ آمین
|