سعودائزیشن کے تحت گذشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں تارکین وطن بے روزگار

کسی بھی ملک کے حکمراں کو اپنی رعایا کی خوشحالی اور ملک کی ترقی و سلامتی کی فکر لاحق رہنا ایک اچھی بات ہے اور یہ ایک اچھے حکمراں کی پہچان بھی ہے۰۰۰ سعودی عرب کی شاہی حکومت بھی گذشتہ چند برسوں کے دوران مملکت میں اپنی رعایا کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے مختلف لائحہ عمل پر عمل پیرا ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی سعودائزیشن ہے جس کے ذریعہ سعودی خواتین اور مرد حضرات کو مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے کیلئے راہیں فراہم کی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے سعودی عوام کو خوشحال اور پُر تعیش زندگی فراہم کرنے والے لاکھوں محنت کش تارکین وطن سعودائزیشن کی وجہ سے روزگار سے محروم کردیئے جارہے ہیں۔آج مملکت سعودی عرب عالمی سطح پر جس طرح معاشی اعتبار سے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ کئی ممالک کے لاکھوں تارکین وطنوں کی انتھک محنت و کاشوں کا نتیجہ ہے، ان عالیشان عمارتوں اور خوبصورت شہروں کی جدید آبادکاری میں ان لاکھوں تارکین وطنوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ پٹرول کی دولت سے مالامال ملک سعودی عرب میں خام تیل کی نکاسی کا آغاز تاریکِ وطنوں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ سچ ہیکہ مملکت سعودی عرب کا روزگار کے متلاشی جس تیزی سے رخ کئے اور انہیں جس طرح آسانی سے مملکت میں روزگار میسر آتا گیا اس سے ان لاکھوں خاندانوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئی اور معاشی اعتبارسے یہ لوگ ہی نہیں بلکہ ان ممالک میں بھی خوشحالی آئی اور ترقی کی راہیں فراہم ہوئیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران موجودہ شاہی حکومت جس طرح سعودائزیشن کے ذریعہ لاکھوں تارکین وطنوں کو ملک بدر کرنے کی کوشش کررہی ہے شاید اس سے عالمی سطح پر مملکت کی نیک نامی پر داغ تصور کیا جارہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں ہندوستانی، پاکستانی ، بنگلہ دیشی، سری لنکا اور دیگر کئی ممالک کے افراد کو مملکت چھوڑنے کیلئے انکی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا یہی نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے بعد انہیں انکی محنت کی کمائی بھی نہیں دی گئی اور کئی کئی دن بھوک و پیاس کی حالت میں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد تارکین وطن بے سروسامانی کی حالت میں مملکت چھوڑ کر اپنے اپنے ممالک واپس ہوئے۔ آج بھی کئی ہندوستانی وپاکستانی اور دیگر ممالک کے بے روزگار کئے گئے افراد اپنی محنت کی کمائی کے بقایاجات کے حصول کیلئے ان کمپنیوں سے آس لگائے بیٹھے ہیں، انکے عدالتی چکر جاری ہیں ، لیبر قوانین کے تحت ان افراد کو جو روزگارسے محروم کردیئے گئے ان افراد کے بقایاجات واپس کرنا چاہیے لیکن کئی کمپنیاں و ادارے ان محنت کش مظلوم افراد کو روتا بلکتا چھوڑ دیئے ہیں۔اگرشاہی حکومت اس جانب خصوصی توجہ دیں تو ان بیروزگار ہونے والے تارکین وطنوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

گذشتہ دنوں سعودی وزارتِ افرادی قوت و سماجی بہبود نے ’’کسٹمر سروس‘‘ کے شعبے میں سعودائزایشن کے فیصلے پر عمل درآمد کا آغاز کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ وکلاء اور قانونی مشاورت کے شعبے کی سعودائزیشن کے دوسرے مرحلے کا بھی نفاذ کردیا گیا ہے۔اخبار 24 کے مطابق وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود نے بیان میں کہا کہ ’کسٹمر سروس کے شعبے کی صد فیصد(100%) سعودائزیشن شروع کی گئی ہے جن اداروں میں کسٹمر سروس میں غیرملکی ملازم تعینات ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کسٹمر سروس کی تمام اسامیاں سعودیوں کیلئے مختص کی جا چکی ہیں۔ ان میں کلیدی عہدے، انچارج وغیرہ سب شامل ہونگے۔‘وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود کا کہنا ہے کہ ’قانونی پیشوں کے دوسرے مرحلے میں 70 فیصد سعودائزیشن کی جا رہی ہے۔ فیصلے کا مقصد تمام کمپنیوں، مملکت میں لا فرمز اور وکلا کی ایجنسیوں میں سعودیوں کا تقرر یقینی بنانا ہے۔نئے فیصلے کے تحت قانونی مشیر برائے سرکاری ضوابط اور قانونی مشیر برائے پرائیویٹ سسٹم، معاہدوں کے ماہر، قانونی امور کے وثیقہ نویس سب شامل ہونگے۔ فیصلے کے تحت ایل ایل بی ڈگری ہولڈر کو کم از کم 5500 ریال تنخواہ دینا ہو گی۔ پہلے مرحلے میں 50 فیصد سعودائزیشن کی گئی تھی۔ اب اس کو توسیع کر کے 70 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل کئی شعبوں مثلاً ڈرائیونگ، بقالاجات، و غیرہ میں سعودئزیشن کے تحت سخت قوانین لاگو کئے گئے جس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہزاروں تارکین وطنوں کو ملک چھوڑنا پڑا۔ ویسے ہر ملک کا حکمران چاہتا ہے کہ انکی رعایا خوشحال زندگی گزاریں۔ سعودی عرب کی شاہی حکومت بھی اپنی رعایاکیلئے ملازمتیں فراہم کرنے کیلئے سعودائزیشن کا نفاذ عمل میں لائی ہے اور اسی کے تحت لاکھوں ہندو پاک اور دیگر ممالک کے عوام کو انکے اپنے وطنوں کو واپس ہونا پڑرہا ہے۔ لیکن شاہی حکومت کو چاہیے کہ جو لوگ بے روزگار کردیئے گئے اور انہیں واپس انکے ممالک بھیج دیا جارہا ہے تو انکے بقایاجات دلانے کیلئے سخت قوانین کے ذریعہ دلائیں تاکہ یہ لوگ اپنے اپنے ملک واپس ہوکر نئے سرے سے خوشحال زندگی بسر کرنے کیلئے اپنا خود کا کاروبار لگانے یا روزگار ملنے تک چین و سکون کی زندگی بسر کرنے کا موقع ملے۔

آگنائزیشن آف اسلامک کونسل کے انسداد بدعنوانی اداروں کااجلاس
اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی) کے رکن ممالک میں انسداد بدعنوانی قوانین نافذ کرنے والے اداروں کا پہلا اجلاس منگل 20؍ ڈسمبرکوہوا۔ سرکاری خبررساں ادارے ایس پی اے کے مطابق اجلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک میں انسداد بدعنوانی قوانین نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے، سربراہ، نائبین، وزرا ء اور انسداد بدعنوانی کی بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہ شریک ہوئے۔ سعودی عرب کے کنٹرول اینڈ اینٹی کرپشن کمیشن کے سربراہ مازن الکھموس نے کہا ہے کہ’ اجلاس نے او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے مکہ معاہدے کی منظوری دی ہے‘۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاہدے کا مقصد انسداد بدعنوانی قوانین نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون کا فروغ، قوانین کو پیشہ ورانہ انداز میں تیزی سے نافذ کرنے کو یقینی بنانا اورریاض انٹرنیشنل انشیٹو گلوبل ای نیٹ ورک میں رکن ملکوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اس سے رکن ممالک براہ راست تیزی سے قانون کے دائرے میں معلومات کا تبادلہ کرسکیں گے۔ اور بدعنوانوں کیلئے محفوظ ٹھکانوں کے حصول کا دائرہ محدود اور بدعنوانی کے جرائم کا سدباب ہوگا۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد ’مسلم ممالک مزید ترقی اور خوشحالی کا سفر آسانی سے طے کرسکیں گے۔ دیگر علاقائی و بین الاقوامی گروپ اس سلسلے میں او آئی سی کے نقش قدم پر چلیں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ’ سعودی حکومت ملکی و بین الاقوامی سطح پر بدعنوانی کے انسداد کی ہر کوشش کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس کا دارومدار سعودی ویژن 2030 پر ہے‘۔نایف یونیورسٹی برائے علوم سلامتی کے سربراہ عبدالمجید البنیان نے کہاکہ ’اس کامقصد یہ ہے کہ سرحد پار بدعنوانی جیسے سنگین جرم کے موثر انسداد کے سلسلے میں رکن ممالک ایک دوسرے سے تعاون اور معلومات کا تبادلہ کریں‘۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہ نے زور دیا کہ ’مکہ مکرمہ معاہدے کی توثیق کرکے تمام رکن ممالک انسداد بدعنوانی مہم کا حصہ بنیں‘۔یاد رہے کہ مکہ مکرمہ انسداد بدعنوانی معاہدے کا مقصد رکن ملکوں میں انسداد بدعنوانی قوانین نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اوراس سلسلے میں تیزی لانا ہے۔

ڈاکٹر سہیل اعجاز خان سعودی عرب کے نئے سفیر ہند مقرر
ڈاکٹر سہیل اعجاز خان کو ہندوستانی سفیر برائے مملکت سعودی عرب متعین کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سہیل اعجاز خان اس سے قبل لبنان میں سفیر ہند کی حیثیت سے21؍جون 2019سے تاحال خدمات انجام دے رہے تھے۔اس سے قبل وہ ریاض سعودی عرب میں سپٹمبر 2017سے جون 2019تک ڈپٹی چیف آف مشن کی حیثیت سے تعینات تھے۔2016اور 2017میں اقوام متحدہ کے پنشن بورڈ کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔اس کے علاوہ وہ جدہ میں قونصل جنرل آف انڈیا کی حیثیت سے 2005تا 2008خدمات انجام دیئے ہیں اس دوران وہ حج کے معاملات اور ہندوستانی عازمین حج کے انتظامات سمیت متعدد امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ 2008تا 2009کے درمیان وزارت خارجہ کے WANA(مغربی ایشیاء شمالی افریقہ ) ڈویژن میں ڈپٹی سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیا۔2009تا 2011کے درمیان انڈین ہائی کمیشن اسلام آباد میں ویزا اور قونصلر کی ذمہ داری نبھائی ۔ 2011تا 2013میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ مسٹر ای احمد کے دفتر میں بطور ڈائرکٹر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر سہیل خان سفارت خانہ اور ہندوستان کے مستقل مشن میں ڈپٹی چیف آف مشن کے طور ویانا چلے گئے۔ویانا میں ڈاکٹر خان نے سیاسی اور کثیر الجہتی کام کو سنبھالا ۔2013اور2017کے درمیان وہ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(IAEA)، اقوام متحدہ کی صنعتی ترقی کی تنظیم (UNIDO)، اور بیرونی خلاء کی صنعتی ترقی کی تنظیم(UNCOPUOS)کے اجلاسوں میں ہندوستان وفود کا حصہ رہے۔انہوں نے 2015میں آئی اے ای اے کے پروگرام اور بجٹ کمیٹی کے نمائندے، 2015میں یو این آئی ڈی او کے معاملات کے G-77کوآرڈینیٹر اور 2016-17تک یو این آئی ڈی او کی اسٹاف پنشن کمیٹی میں گورننگ باڈی کے نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دیئے۔ ڈسمبر 2014میں ویانا میں جوہری ہتھیاروں کے انسانی اثرات پر ویانا کانفرنس میں ہندوستان وفد کے سربراہ رہ کی حیثیت سے نمائندگی کی۔ ڈاکٹر سہیل اعجاز خان کی سفارتی سرگرمیوں کا آغاز 1997میں ہوا۔اور پہلی مرتبہ وہ ہندوستانی سفارت خانہ قاہرہ میں سفارتی عہدہ سنبھالا۔ 1999تا 2001ء میں انہوں نے سفارت خانے قاہرہ میں دیگر فرائض منصبی کی انجام دہی کے علاوہ عربی زبان میں ایڈوانسڈ ڈپلومہ حاصل کیا۔ ڈاکٹر خان ایم جی ایم سے میڈیسن میں گریجویٹ ہیں اور انکی اہلیہ محترمہ رفعت جبین خان کو بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کے اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔

جارجیا کے وزیر اعظم کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات
جارجیا کے وزیر اعظم ایراکلی گریبا شویلی سرکاری دورہ پرچہارشنبہ 21؍ ڈسمبر کوسعودی عرب پہنچے جہاں انکا کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ریاض کے نائب گورنر شہزادہ محمد بن عبدالرحمن وزیر اقتصادیات و منصوبہ بندی ،شہزادہ فیصل بن فاضل ابراہیم اور دیگرنے استقبال کیا۔مہمان جارجیا کے وزیر اعظم کا سعودی ولیعہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے ریاض کے قصر الیمامہ میں استقبال کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان متعدد اہم امور پر بات چیت ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان اور ایراکلی گریباشویلی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کا جائزہ لیا ۔ جارجیا کے میزبان وزیر اعظم نے سعودی وزیر اعظم کی جانب سے انکے بہترین استقبال اور میزبانی پر ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔

افغان خواتین کوحصولِ اعلیٰ تعلیم کا حق ۔رابطہ عالمِ اسلامی
رابطہ عالم اسلامی نے افغان خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے منع کرنے کے فیصلے مسترد کیا ہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق رابطہ عالم عالم اسلامی نے کہا ہے کہ ’’افغان انتظامیہ خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے روک کر انہیں ان کے جائز حق سے محروم کردیا ہے‘‘۔ رابطہ عالم اسلامی کا کہنا ہیکہ’ یہ فیصلہ اسلامی تعلیمات کی روح سے منافی او راجماعِ امت کے علاوہ انسانی اقدار و حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے‘۔رابطہ عالم اسلامی نے افغان خواتین کو تعلیم کی اجازت دینا انکے جائز اور فطری حقوق میں سے بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ہم افغان خواتین اور قوم کے ساتھ انکے جائز حقوق دلانے میں یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ رابطہ اسلامی نے کہا کہ کسی بھی حکومت یا انتظامیہ یا ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ تعلیم سے کسی بھی طبقے کو محروم کرے۔ اب دیکھنا ہے کہ رابطہ عالمِ اسلامی کی جانب سے افغان خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے سلسلہ میں دیئے گئے واضح بیان کے بعد افغان طالبان انتظامیہ کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتی ہے اور مستقبل قریب میں افغانستان میں خواتین کے لئے کیا لائحہ عمل وضع کیا جاتا ہے۔
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ***********

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.