استادوں کے استاد محترم جناب مشتاق عاجز صاحب ، ہمہ
وقت راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کرنے والے نہایت شفیق استاد محترم جناب سید
نصرت بخاری صاحب اوراٹک کی ادبی دنیا کی پررونق شخصیت محترم جناب طاہر اسیر
صاحب کا نہایت ممنون و مشکور ہوں کہ انھوں نے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی
انتہائی کم وسائل پر نہایت عمدہ ،پررونق اور منظم کتاب میلا منعقد کروا کر
اٹک اور اٹک کے باسیوں پر احسان عظیم کر کے ایک مثبت تاریخ رقم کی ہے ۔
ساتھ ساتھ میں ان اصحاب اور ان کے معاونین کو اتنا منظم کتاب میلا منعقد
کروانے پر مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں ۔
انھی اصحاب نے گذشتہ سال بھی کتاب میلا منعقد کروایا تھا تو مجھے بھی اُس
کتاب میلا میں ایک سٹال فراہم کیا گیاتھا جہاں میں اپنی طبع شدہ دو کتب اور
حاشیہ کے شماروں کے ساتھ شریک ہوا تھا ۔ اِس سال اِس شرف سے میں مستفید نہ
ہوسکا اور صرف حاضرین و سامعین کے جھرمٹ میں ایک تماشائی کی صورت میں اِس
کتاب میلا میں شرکت کرسکا ۔گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی کتاب میلا میں رونق
بہت تھی اور تقریباً سبھی افراد مختلف سٹالز پر سجائی گئی کتب میں محو تھے
۔ لوگوں کا ذوق و شوق کتب کی طرف تو تھا ہی مگر جس عزت اور احترام سے لوگ
کتب کے مصنفین سے مل رہے تھے وہ قابل دید تھا ۔سردی ، مختصر وقت اور کم
تشہیر کے باوجود بھی تقریباًہر طبقہ فکر اور ہر عمر کے افراداس کتاب میلا
میں موجود تھے جو اس کتاب میلا کی کامیابی پر مہر ثبت ہے ۔
اس کتاب میلا کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنے والے بھی بے شمار ہیں اور
ناقدین کی تعداد بھی خیر کم نہیں ہے ۔ چوں کہ میں اس طرح کی سرگرمیوں کے
انعقاد میں کافی عرصہ سرگرم رہا ہوں تو مجھے خوب ادراک ہے کہ اس طرح کی
سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لہٰذا میں اس طرح کی
سرگرمیوں کے انعقاد کی ہمیشہ تعریف ہی کرتا رہا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں
ہاں جن لوگوں کو کچھ اعتراضات ہوتے تھے ان کے اعتراضات کو میں تجاویز سمجھ
کر بہت اہمیت دیتا تھا اور دینی بھی چاہیے تاکہ بہترسے مزید بہتر کی طرف
جایا جاسکے اور مجھے امید ہے کہ اس کتاب میلا کے منتظمین تجاویز دینے والے
احباب کو اہمیت دیں گے۔
اس کتاب میلااور گذشتہ سال ہونے والے کتاب میلا پر، اور ویسے نارمل حالات
میں بھی، زیادہ تر افراد کا یہی گلہ شکوہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا رجحان کتاب
کی طرف کم ہوگیا ہے ، لوگ کتب پڑھتے بھی نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور ایسا
ہے بھی ۔اس کی وجہ انٹرنیٹ، مہنگائی، حکومت ،والدین یااساتذہ کی کمزوری
گرداناجاتاہے۔ اس معاملہ میں،مَیں یہاں اٹک کی ادبی شخصیات ، خاص کر سینئر
شخصیات، کواٹک میں کتاب کی طرف لوگوں کے رجحان کو بڑھانے کے لیے کچھ تجاویز
اس مضمون میں پیش کرنا چاہوں گا تاکہ اس کتاب میلا کی طرح اٹک میں ایسی
مزید سرگرمیاں منعقد ہوسکیں جو کتاب سے محبت اور لوگوں کے کتاب کی طرف
رجحان میں اضافے کا باعث بن سکیں:
۱۔ اٹک میں ایک ایسی مرکزی ادبی تنظیم ہونی چاہیے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہواور
حکومتی سطح پر اسے کچھ مناسب اور متناسب سرپرستی بھی حاصل ہو ۔چھوٹی چھوٹی
اور ذیلی ادبی تنظیمیں اس مرکزی تنظیم کے ساتھ منسلک ہوں ۔
۲۔ اس تنظیم کا باقاعدہ ایک دفتر ہو جس کے ساتھ ایک لائبریری بھی ہونی
چاہیے جہاں قارئین خاص کر طالب علموں کو مطلوبہ کتب پڑھنے کے لیے فراہم کی
جائیں ۔ اس لائبریری میں ضلع اٹک کے لکھاریوں کی ہی تصانیف کو محفوظ کیا
جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔
۳۔ اس مرکزی ادبی تنظیم کی تنظیم سازی کے لیے ایسے افراد کو چنا جائے جن کا
ادب سے گہرا تعلق ہو اور بہتر یہی ہے کہ صاحب کتب کو ہی اس تنظیم سازی میں
اہمیت دے کر ترجیح دی جائے ۔
۴۔ ماہانہ ادبی تقریبات کے ساتھ ساتھ سالانہ ادبی ایوارڈ کا انتظام کرنا
بھی اس مرکزی تنظیم کا کام ہوکہ جس میں مختلف کیٹگریز بنا کر ایوارڈ کی
منصفانہ تقسیم کی جائے جس سے یقینا لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔
۵۔ عوام الناس تک اس ادبی تنظیم کی سرگرمیوں کو باہم پہنچانے کے لیے پرنٹ
میڈیا،سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذرائع استعمال کیے جائیں ۔
۶۔ حکومتی سطح پر اس تنظیم کے اغراض و مقاصد ایک بہترین انداز میں پیش کرنے
کے لیے عوامی نمائندگان کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ حکومتی سطح پر حتی
الامکان تعاون میسر ہوسکے ۔
۷۔ ادب کے فروغ کے لیے ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھاریوں کی بھی
حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ کتاب سے محبت کرنے والوں کی تعداد میں مزید
اضافہ ہوسکے ۔
۸۔ اس مرکزی تنظیم کے اغراض و مقاصد میں کلیدی اور بنیادی مقصد چوں کہ کتاب
سے محبت ہوتو ادب کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھانے کے لیے ادبی ورکشاپس کا
اہتمام کیا جائے تاکہ سیکھنے اور سکھانے کے مواقع باآسانی میسر آسکیں۔
۹۔ اس مرکزی ادبی تنظیم کی ایک ڈیوٹی یہ بھی ہونی چاہیے کہ ادب سے منسلک
افراد کے مسائل ،خاص کر کتب و رسائل کی طباعت و اشاعت میں پیش آنے والے
مسائل میں مناسب راہ نمائی کے ساتھ ساتھ تعاون بھی کیا جائے ۔
۱۰۔ سب سے بڑھ کر اس مرکزی ادبی تنظیم ادب سے منسلک افراد کی مختلف مسائل
میں سرپرستی بھی کرے تاکہ کس مپرسی کا شکار کوئی ادیب مسائل میں بے
یارومددگار نہ رہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ ان تجاویز پر مناسب توجہ دی جائے گی جو کہ ہمارے اس
گلہ و شکوہ پر اپنے تئیں ایک کوشش ہی ہوگی کہ لوگوں کا رجحان کتاب اور کتاب
پڑھنے پر کم ہوگیا ہے ۔
ٓآخر میں،مَیں ایک اعتراض کا جواب دینا یہاں مناسب سمجھوں گا۔یہ اعتراض کچھ
حلقوں میں پچھلے سال بھی اٹھایا گیا اور اس سال بھی کہ کتاب میلا میں عوامی
نمائندگان ، مشہور شخصیات ،اساتذہ اور پروفیسرز کو دعوت نامہ دے کر شرکت کے
لیے بلایا جائے ۔۔۔اس اعتراض کے بارے میں ،مَیں یہی کہوں گا کہ کتاب خود
ایک دعوت نامہ ہے اور کتاب سے محبت کرنے والا کبھی کتاب کی طرف جانے کے لیے
دعوت نامے کا سہارہ نہیں لیتا ہے ۔دوسری بات کتاب میلا میں موجود لکھاریوں
کی حوصلہ افزائی اسی میں ہے کہ عوامی نمائندگان ، مشہور شخصیات ، اساتذہ
کرام اور پروفیسرز حضرات عام شہریوں کی طرح کتاب میلا میں شرکت کریں تاکہ
لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے اس سے کتاب اور صاحب کتاب کی محنت کا حق
کچھ ادا ہوجائے گا۔
|