علم دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو کسی واسطہ سے حاصل
ہوتاہے۔ جیسے سکول اور یونیورسٹی یا استاد کے واسطے سے۔ علم کی دوسری قسم
وہ ہے جو بغیر کسی واسطے سے حاصل ہوتا ہے۔
بلا واسطہ حاصل ہونے والے علم میں بیمار ہونے کا احساس، رنج و شادمانی کا
احساس یا جسم کے اندر ہونے والی تبدیلوں کا احساس اور جانوروں میں تیرنے
اور اڑنے کا علم شامل ہے۔ انسان کے نو مولود کو دودھ پینے کا علم بلا واسطہ
ہی حاصل ہوتاہے۔ اس کو فطرت اور جبلت کہا جائے تو بھی یہ علم ہی کے زمرے
میں آتے ہیں۔
بلا واسطہ حاصل ہونے والے علم کو ہمارے مذہبی اساتذہ کو تین حصوں میں تقسیم
کرتے ہیں۔
۱۔ عقل
۲۔ وجدان
۳۔ غیبی عطا
غیر مذہبی اساتذہ علم کا خیال ہے کہ بلا واسطہ حاصل ہونے ہونے والے کا منبع
۱۔ حواس خمسہ
۲۔ جبلت اور
۳۔ معلوم علم و تجربہ ہے۔ انسان کو معلوم ہے کہ بھیڑیا خونخوار جانور ہے یا
خوبصورت نظر آنے والا سانپ موذی ہے تو یہ بات انسان نے اپنے تجربے سے منکشف
کی ہے۔ نو مولود کا خوراک کا منبع دریافت کر لینا جبلت ہے۔ کالے اور سفید
کا ادراک حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے۔
ہمارا تجربہ ہے کہ بخار کی حالت میں ذائقہ دھوکہ دے جاتا ہے۔ حرکت میں نظر
دھوکہ کھا جاتی ہے۔ حواس خمسہ حالات و ماحول کی تبدیلی سے مشابہت اور
مماثلت سے دھوکا کھاتے ہیں۔
عقل جب دنگ رہ جائے تو ہم اس کو اپنے وجدان سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور بات پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مذہبی اساتذہ اسے غیبی عطا قرار دیتے ہیں۔
عقل سے اونچی سیڑھی کو وجدان کہا جائے تو اس کا سفر عدم سے وجود کی طرف
ہوتا ہے۔
ایلس ہووے Alias Howe (1819 - 1867)کی سلائی مشین کی ایجاد کی کہانی میں
خواب والا واقعہ اگر سچ ہے تو یہ وجدان ہی تھا جو عدم سے وجود میں آیا تھا۔
اس سے اوپر کی سیڑہی پر غیبی علم کا مقام ہے۔ ہر وہ علم جو بلا واسطہ حاصل
ہو، عقل کو تسلیم کرنے میں تامل ہو مگر اس سے انکار نہ کیا جا سکے۔ غیبی
علم کہلاتا ہے۔ ملکہ صبا کے قصہ میں بلقیس کے تخت کا سلیمان کے دربار میں آ
جانا علم غیب ہے۔ اس مضمون میں ہم علم غائب پر ہی بحث کرینگے۔ ایسے واقعات
کو معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔ موسی علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا معجزہ
تھا اور قیامت تک معجزہ ہی رہے گا مگر بلقیس کے تخت کا سلیمان کے دربار میں
حاضر کر دینا معجزہ نہیں تھا۔اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عفریت (جن کی ایک قسم)
نے اس تخت کو لادینے کی پیشکش کی تھی جو رد ہو گئی تھی مگر یہ بتایا گیا کہ
سلیمان کی کابینہ کے ایک ممبر آصف بن برخیا کے پاس علم تھا۔ جس عمل کا تعلق
علم سے ہو وہ معجزہ نہیں ہوتی۔بلکہ کتاب میں اس قصہ کو بیان کر کے انسان کو
ایک راہ دکھائی گئی ہے کہ علم کی یہ بھی راہ ہے جس کو کھوجنا ابھی باقی ہے۔
کمپیوٹر کی ایجاد نے انسان کو اس قابل کر دیا ہے کہ نصف صدی میں اس نے
صدیوں کا علمی و تحقیقی سفر طے کر لیا ہے۔ مادے کو توانائی میں تبدیل کرنے
پر بحث کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اسی صدی میں انسان علم کی اس
معراج تک پہنچ جائے جہاں مادے کو توانانی اور واپس توانائی کو مادے میں
تبدیل کرکے عمل غیب کو علم شہود میں تبدیل کر دے۔ |