*تحریر: کرن افتخار*
قائد اعظم محمد علی جناح
بانی پاکستان باباۓ قوم قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی
میں پیدا ہوۓ- آپ کی ابتدائ تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ ابتدائی تعلیم گھر
پر مکمل کرنے کے بعد آپ کو 1887 میں سندھ مدرستہ الاسلام میں بھیجا گیا۔
بعد میں آپ نے کرسچن مشنری سوسائٹی سکول سے بھی تعلیم حاصل کی۔ کاروباری
تجربہ حاصل کرنے کے لیے آپ انگلینڈ تشریف لے گۓ تاہم آپ نے بیرسٹر بننے کا
ارادہ کیا۔ لندن میں آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی اور برطانوی سیاسی نظام کا
بھی مطالعہ کیا۔ 1896 میں تعلیم و تجربہ حاصل کرنے کے بعد جب آپ وطن واپس
آۓ تو یہ محسوس کیا کہ اب آپ کو خود پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس لیے آپ نے
بمبئ میں قانون کی پریکٹس شروع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن خود کو ایک وکیل کی
حیثیت سے اپنا لوہا منوانے میں آپ کو برسوں کی محنت کا سامنا کرنا پڑا۔
تقریبا دس سال بعد آپ نے اپنی تمام تر دلچسپی قانون اور سیاست کے مابین
تقسیم کر دی۔ آپ نے کانگرس میں شریک ہو کر ہندوستانی قوم پرستی کے تناظر
میں مسلم مفادات پر گہری نگاہ ڈالی اور یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مفادات
ہندوستانی قوم میں یکجا ہونے کی بجاۓ اپنی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے ک
مطالبہ چاہتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے 1906 میں آل
انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئ۔ تاہم آپ نے کانگرس کی نمائندگی ترک نہ کی۔
محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس کے 1911 تک رکن رہے اور دونوں
جماعتوں کی عملی سیاست کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا کہ کانگرس مسلمان
دشمن جماعت ہے اور مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے میں رکاوٹ بھی۔ آپ نے جب
مسلم لیگ میں شرکت کی تو اپنی بھرپور کاوشوں کی بدولت مسلم لیگ کو ایک قوم
میں ضم کرنے کے لیے ایک طاقتور آلے میں تبدیل کر دیا۔ اس وقت جناح ایک
نوآبادیاتی مسلمان قوم کے رہنماء کے طور پر ابھرے۔ اس طرح پاکستان 1947 میں
ایک الگ آزادانہ ریاست کے طور پر ابھرا۔ آپ کو مناسب خطابات اور ترغیبات سے
کبھی دلچسپی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اصولوں پر قائم رکھی اور
ہمیشہ مقاصد کے حصول پر توجہ مرکوز رکھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر
پاک و ہند کی ماضی قریب کی تاریخ کے نہایت خوش پوشاک اور نفیس انسان تھے۔
آپ بلاشبہ ایک عہد آفرین شخصیت' عظیم قانون دان' با اصول سیاست دان اور
بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل' غیر متزلزل عزم' ارادے کی
پختگی' بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ انہوں نے اپنی اٹل
قوت ارادی' دانش ورانہ صلاحیتوں اور انتھک محنت کی وجہ سے مسلمانان پاک و
ہند کے گلے سے صدیوں پرانا غلامی کا طوق اتارا اور پاکستان جیسی اسلامی
مملکت کی بنیاد رکھی۔ قائد اعظم کا یہ ماننا تھا کہ ہمیں خود اپنی تقدیر
بدلنی ہے اور دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے جو اسلام کے
انسانی' برابری اور سماجی عدل و انصاف کے حقیقی اصول پر مبنی ہو تب ہی ہم
بطور مسلمان اپنے مقصد کی تکمیل کر سکیں گے اور انسانیت کو امن کا پیغام دے
سکیں گے۔ صرف یہ ہی انسانیت کی فلاح و بہبود اور ترقی کی بقا کا باعث بن
سکتا ہے۔ قوم آپ جیسے عظیم رہنما کی بصیرت کو سلام کرتی ہے جس کی بدولت
ہمارے سفر کا آغاذ ہوا۔ آپ نے اپنی انتھک محنت سے ایک بےمثال سفر کا آغاذ
کیا اور آپ کی عظیم بصیرت کے طفیل ہمیں آزادی جیسی نعمت حاصل ہوئ۔ آپ نے
ایک بکھرے ہوۓ شیرازے کو منظم' آزاد اور خود مختار قوم بنا دیا۔ اس دوران
قائد اعظم کو بڑی مشکلات' حوصلہ شکن دشواریوں اور مزاحمتوں کا سامنا کرنا
پڑا لیکن آپ ڈٹے رہے اور سب مرحلوں سے گزرتے ہوۓ پوری کامیابی و کامرانی کے
ساتھ اپنے مقاصد حاصل کیے۔ قدرت نے قائد اعظم کو بے پناہ جسمانی و ذہنی'
عقلی اور فکری صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ علم بغیر عقل کے بیکار ہے اور عمل
بغیر خلوص کے بے فائدہ ہے۔ اللہ تعالی نے علم و عمل اور خلوص تینوں چیزیں
اس مرد قلندر کو عطا کر دی تھیں۔ اصول پرستی' دیانت داری' انصاف پروری'
خودداری' استقامت' اعتدال پسندی' اور صبر و تحمل آپ کی زندگی کے اصول تھے۔
قائد اعظم کے حسن تدبر اور اعلی کردار کے اپنے اور پراۓ سبھی معترف تھے۔
جہاں مخالفین اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ آپ کو کسی بھی قیمت پر خریدا
نہیں جا سکتا وہیں اس بات سے اتفاق بھی رکھتے تھے کہ اگر مسلم لیگ میں ایک
سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام ہوتے اور کانگرس میں صرف ایک جناح ہوتا تو
برصغیر پاک و ہند کبھی تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان ایک مسلم ملک کی حیثیت سے
کبھی دنیا کے نقشے پر نہ ابھرتا۔ پاکستان کے راستے میں بہت سے روڑے اٹکاۓ
گۓ لیکن اسے بننا تھا اور وہ بلآخر بن کر رہا۔ قائد اعظم کی بدولت پاکستان
بن تو گیا لیکن اب یہ اہل پاکستان کا فرض ہے کہ اسے دنیا کی ترقی یافتہ
قوموں کا ہم دوش بنا دیں اور ایک پرامن اور ترقی پسند پاکستان کیلیے عہد
کریں۔
|