کیا ہم پستی کی طرف نہیں جارہے ہیں

آج کل جس طرح ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاستدانوں کی کُھل کر کردار کشی کی جارہی ہے اور اس میں سب سے زیادہ پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان اور ان ہی کی جماعت کے قریبی ساتھیوں کی فیک آڈیو و وڈیو بہودہ اسکینڈل متواتر لیک ہوکر منظر عام پر ایک منصوبے کے تحت عوام میں لاکر ان کی کردار کشی کی جارہی ہے اس سے ہمارے معاشرے کی کیا تصویر بن کر سامنے آرہی ہے پاکستان تو پاکستان دنیا بھر میں پاکستان ان بہودہ اسکینڈل کی وجہ سے انٹرنیشنل ٹی وی چینلز میں ان نازیبا آڈیو و ڈیو سے تو خاص موضوع بحث تو بنا ہی ہوا تھا کہ کچھ چینلز نے تو 1971 والی انڈین و پاکستان کی جنگ کے دنوں میں ہاکستان کے اُس وقت کے صدارتی محل کو بھی بحث موضوع و گفتار و سخن بنایا ہوا تھا جو دیار غیر میں پاکستانی نوجوانوں اور نونہالوں کے لیے حیران کن و پریشان تو تھے ہی وہ اپنے بڑوں سے عجیب نگاہوں سے سوالات کررہے تھے.

بزرگوار بیچارے ان سے اسلام کے نام پر بنائے گئے پاکستان کا مقصد جو زیر بحث موضوع بنا ہوا تھا ملزموں کی طرح کٹہرے میں کھڑے اپنی صفائیاں پیش کررہے ہیں کہ پاکستان کو ایک سازش کے تحت مشرقی پاکستان سے علیحدہ کردیے گئے اس میں صدارتی محل کی بلند و بالا عمارت میں شباب و شراب کی محفلوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی نہیں ہوئی تھی مگر آج کی نسل کب ان صفائیوں پر یقین کرتی ہے اور یہ نوجوان جو دیار غیر میں پیدا ہوئے وہ ان صورتحال سے ناواقف تھے وہ ان بیہودہ آڈیو و وڈیو اسکینڈل کا موازنہ 1971 کے حکمرانوں کے محل کی سجی سجائی بےحیا محفلوں سے کررہے تھے یہ کہ کیا عمران کی فیک نازیبا بہودہ یا اُس وقت کے صدارتی محل کی محفلوں نے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچایا؟

مگر ان مغربی چینلز نے ان موضوعات کے ساتھ ساتھ کُھل کر 1971 میں صدارتی محل میں ہونے والی بہودہ و نازیبا محفلوں کو بحث زغفران بنا کر سوال سے سوال نکال رہے تھے کہ صدارتی محل کی اُس وقت کی تصویر کشی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس طرح کی جارہی تھیں کہ یہ حال ہی کے واقعات ہیں ہر طرح سے طنز کے تیر برسائے جاتے تھے اور سوال کرتے تھے کہ اگر 1971 اُس وقت آڈیو و ؤڈیو ہوتی تو کیا بنتی یہ تو سلسہ وار مووی بن جاتی مگر اُس وقت حکمران بھی عزت دار تھے کبھی بہودہ آڈیو و وڈیو باہر نہ نکلنے دی یہ ہی حال اداروں کا تھا ناک کے نیچے یہ نازیبا حرکتیں آئے دن ہوتیں تھیں مگر مجال ہے کہ کوئی آڈیو یا وڈیوز ہی کوئی کیمرے سے پکچرز لی ہو واقعی خاندانی لوگ تھے اور نہ ہی کوئی حریم شاہ ، ایان علی وغیرہ اور ہمارا میڈیا بھی ان کو اس طرح سے پیش کررہا ہوتا ےھا جیسے کوئی ورلڈکپ جیت کر آئی ہیں مگر اُس وقت بھی آج کل کی مشہور ماڈل گرلز سے زیادہ مشہور نام تھے مگر اتنی منظرعام پر نہ پرنٹ میڈیا وغیرہ ان کو لیکر آتے تھے اور نہ ان کو میڈیا کے سامنے آنے کا شوق تھا اور نہ ہی اس طرح کی فوج در فوج چینل کی تھی مگر ایک ہی چینل تھا مگر پھر بھی واقعی خاندانی لوگ تھے مگر اب اس طرح کے خاندانی لوگ ناپید ہوگئے ہیں اور وہ ان کو بھی اپنے قلم سے اپنی فوٹو گرافی سے یا اُس زمانے کی وڈیو و آدیو بنانے سے بھی گریز کرتے تھے کہ نہ ان کا اخلاق کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے اُس وقت نہ ہی کوئی ادارے نہ ہی کوئی جرنلسٹ نہ ہی مخالف افراد نہ ہی میڈیا مالکان کوئی نہیں چاہتا تھا چاہے کسی کے بھی اسکینڈل یا کسی کا اخلاق کا دامن تار تار ہوجائے مگر اس کو کبھی اپنے میڈیا یا اخبارات کی زینت بنایا ہو اور اس پر بھان متی کا بھانڈوں کو بلواکر مداری ڈگڈگی لیکر اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہو جبکہ پیچھے اس مداری کے آس پڑوس فاقہ کشی کی طرف جارہے ہوں .
( دوسروں کے پردے رکھنا سیکھو ان کے عیبوں پر نظر مت رکھو )

غیر مسلم معاشرے میں بھی اس طرح کردار کشی کی جاتی ہے مگر کوئی اصول بنائے ہوئے ہوتے ہیں کہ نابالغ بچوں کے ہاتھ میں نہ جایں

مگر ہم مسلم معاشرے میں اور وہ بھی اسلامی ملک میں جو لا اللہ الا کے نام پر بنائیگے پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے ان بہودہ آڈیو و وڈیو کھیل میں وہ بھی ایک سابق وزیراعظم کی کیں جارہی ہے اور کئی سالوں کی خاموشی کے بعد اب اس طرح کی نازیبا حرکتیں آڈیو و ڈیو سسٹم کے تحت اس سے پہلے سابق گورنر سندھ مسلم لیگی زبیر عمر ، کی کچھ ماہ پہلے جب وہ پی ٹی آئی میں شمولیت کرنا چاہتے تھے اُن کی فیک وڈیو منظر عام پر لے آئے پھر اُن کی مسلم لیگ چھوڑنے کی پریس کانفرنس جسمیں وہ عمران خان کی پارٹی میں شمولیت کرنا چارہے تھے وہ عمران خان کے نوحہ میں تبدیل ہوگئی اس ہی سے پاکستانی عوام نتیجہ اخذ کرسکتی ہے کہ کس طرح سیاسی جماعت کے عہدیداران کو بلیک میل کیا جاتا ہے ان وجہ سے کوئی اپنا فیصلہ بھی ان بلیک میکروں کی مرضی سے بھی نہیں کرسکتے ہیں اس سے تو ہماری اسمبلیاں جس میں عہدیداران و بیروکریسی ، ججز حضرات و جرنلسٹ وغیرہ کی آئے دن پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں یہ خبریں آتیں ہیں اب کچھ تہلکہ آمیز وڈیو بس آنے والی ہیں ہر ہفتہ میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا اس طرح کی سنسنی خیز خبریں لگارہا اور کیا کوئی انہیں روکنے والا نہیں جس طرح آئے دن مختلف سیاستدان، بیوروکریٹس وغیرہ کی آئے دن ان کو دہمکیاں دینا ہے کہ ہماری یہ نوجوان نسلیں یہ چیزیں دیکھ کر ان کی آنکھوں میں اس معاشرے سے سوال بن کر اُبھر رہا ہے کہ کیا اس ملک میں یہ تماشہ کب تلک لگے گا اس ملک میں ہماری عدالتیں کیا کررہی ہیں وہ ہیکرز اتنا پاور فل ہے کہ جب چاہے جس کی چاہے آڈیو و ڈیو فیک یا اصلی نکال دے ہر روز کوئی نہ کوئی چینل پر روزانہ ہمارا میڈیا پر آکر بھان متی کا کنپہ بیٹھا کر ایک دوسرے کی عزت کا سرعام جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں کوئی کہتا ہے فیک ہے تو کوئی کہتا ہے اصل ہے شاباش ہے ہماری عدالتوں نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے اس پر ہونا تو یہ چاہیے کہ فورا سوموٹو لیکر ان کرداروں کو بے نقاب کرتے اور تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جاتا کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں اسطرح کے ہدایت کاروں و قلمکاروں کو اپنی اپنی جماعتوں سے نکال باہر کرے اور اسمبلی سے آئندہ کے لیے ایسا قانون پاس کے آئندہ کسی بھی فرد یا ادارے کو اس طرح ک جُرت نہ ہو اور جو بھی اس میں ملوث ہو انہیں ایسی سزا دے کہ آئندہ کے لیے کوئی بھی جُرت نہ کرے
 
Engr, Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Engr, Shahid Siddique Khanzada Read More Articles by Engr, Shahid Siddique Khanzada: 267 Articles with 83893 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.