ابھی حال ہی میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے سال نو کی
مناسبت سے اپنے خطاب میں ملکی معیشت کے بارے میں مضبوط اعتماد کا اظہار
کیا۔ انہوں نے چینی معیشت کا خلاصہ یوں بیان کیا کہ یہ "مضبوط لچک، زبردست
صلاحیت اور قوت محرکہ" کی حامل ہے ،کیونکہ ملک کی طویل مدتی ترقی کو برقرار
رکھنے والے بنیادی رجحانات مضبوط رہے ہیں۔شی جن پھنگ کا پیغام انتہائی جامع
تھا جس میں انہوں نے معاشی میدان میں ملک کی کامیابیوں کا ذکر کیا کہ چین
ایک بڑی عالمی قوت بن چکا ہے اور ترقی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا
ہے۔ چین نہ صرف اپنے عوام بلکہ تمام بنی نوع انسان کے بارے میں سوچتا ہےاور
عالمی معیشت، عالمی امن اور عالمی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
عالمی معاشی سرگرمیوں کو رواں رکھنے میں ہی چین کے کردار کی جائے تو گزشتہ
10 سالوں میں دنیا نے دیکھا ہے کہ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو فریم ورک
کے تحت دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کی 200 سے زائد دستاویزات پر دستخط کیے
ہیں۔ اس انیشیٹو نے نہ صرف شراکت دار ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ
دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر باہمی تبادلوں اور امن کو بھی فروغ دیا ہے ۔ یہی
وجہ ہے کہ شی جن پھنگ کے سال نو کے پیغام سے نہ صرف چینی عوام بلکہ پوری
دنیا بالخصوص ترقی پزیر ممالک کے لیے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔
صدر شی جن پھنگ کے اسی وژن کی روشنی میں چینی حکام پرامید ہیں کہ 2023 میں
بھی، گزشتہ سال کی پالیسیوں کی ہم آہنگی اور ربط کو مضبوط بنایا جائے گا۔
اس دوران ، کھپت کی بحالی اور توسیع کو ترجیح دی جائے گی، مختلف طریقوں سے
شہری اور دیہی باشندوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا ۔رہائش گاہوں کی
بہتری، نئی توانائی کی گاڑیاں اور بزرگوں کی دیکھ بھال کی خدمات جیسے شعبوں
میں کھپت کی حمایت کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ اہم شعبہ جات اور صارفی کھپت
کی مسلسل بحالی کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی ۔ چین2023 میں بھی مارکیٹ
تک رسائی کے لئے غیر معقول پابندیوں اور غیر ضروری رکاوٹوں کو دور کرنے کا
سلسلہ جاری رکھے گا اور اہم قومی حکمت عملی سے متعلق منصوبوں میں نجی
کاروباری اداروں کی شرکت کو فروغ دے گا، تاکہ نجی معیشت کی ترقی میں پیش
رفت کی جا سکے ۔مارکیٹ رسائی اور علاقائی معاشی ترقی کے تناظر میں چین کی
اہمیت اس باعث بھی ہے کہ یہ ایشیا کے مرکز میں واقع ہے اور سب سے بڑی
علاقائی معیشت ہے.چین کی جغرافیائی اور ثقافتی کشش اُس کے پڑوس میں واقع
چھوٹے اور تیزی سے ابھرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ،
جس سے چین ان کا فطری تجارتی شراکت دار بن جاتا ہے۔ مزید برآں، چین اپنے
پڑوسی ممالک کے لیے اسمارٹ فونز، گاڑیوں اور سستی فیکٹری مصنوعات جیسی بے
شمار اشیاء کے حوالے سے بھی ایک سپلائر کے طور پر نمایاں کردار برقرار رکھے
ہوئے ہے.
یہ چین کی معاشی ترقی کے ثمرات ہی ہیں کہ ایسی غیر ملکی کمپنیاں جو پہلے
چین میں فعال نہیں تھیں یا نسبتاً محدود پیمانے پر کام کر رہی تھیں ،اب وہ
چینی مارکیٹ میں داخل ہونے یا وہاں اپنی موجودگی کو بڑھانے کی خواہاں
ہیں.اسی طرح ایسے کاروباری ادارے اور افراد جو طویل عرصے سے چین میں موجود
ہیں وہ چین میں اپنی شراکت داری کو مزید توسیع دینے کے خواہاں ہیں۔اس حوالے
سے چین کی حال ہی میں منعقدہ سالانہ مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس میں بھی
واضح کیا گیا ہے کہ تمام کاروباری کمپنیوں سے یکساں برتاؤ کیا جائے گا اور
کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا،اس اقدام نے چین میں دلچسپی رکھنے
والی غیر ملکی کاروباری برادری کے اعتماد کو مضبوط کیا ہے.دوسری جانب متحرک
زیرو کووڈ پالیسی میں نرمی کے بعد 2023 میں چینی معیشت کے حوالے سے عالمی
توقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ اب معمول کا مینوفیکچرنگ عمل دوبارہ
شروع ہو گا اور پیداوار میں مزید تیزی آئے گی۔اسی طرح بین الاقوامی آمد
ورفت کی بحالی ، چینی ایئر لائنز اور ٹریول ایجنسیوں اور ایسے کاروباری
اداروں کے لیے ایک اچھی خبر ہے جو چینی سیاحوں پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ
چینی سیاح وبائی صورتحال سے قبل دنیا کے لیے "سیاحتی آمدنی" کا سب سے بڑا
ذریعہ تھے۔ انہی عوامل کی بنیاد پر یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ سال 2023
میں مزید نئے عالمی برانڈز چینی منڈی میں داخل ہوں گے جس سے نہ صرف وہ خود
منافع کما سکیں گے بلکہ عالمی سطح پر صارفین کی طلب کو بھی پورا کرنے میں
نمایاں مدد ملے گی۔
|