علم اور علم حقیقی

میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب
یہ دنیا جب تخلیق کی گئی اور اللہ رب العزت نے اس دنیا میں اپنے پیغام کو اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئیے کم و بیش 124000 انبیاء کرام کو بھیجا ان کو امتیں بھی عطا کیں اور کتابیں بھی تب سے تعلیم کا لفظ ہر زبان پر عام ہوگیا کیوں کہ ہر نبی نے اپنی اپنی امتوں کو دین کی تعلیم دی اور اس تعلیم کے ذریعے ان تک اللہ کا پیغام پہنچایامفسرین نے نبی کے معنی ہدایت دینے والا لکھا ہے اللہ تبارک وتعالی کی عطا اورفرشتوں کے ذریعے پہنچنے والی وحی کے ذریعے اپنی امتوں کو اللہ رب العزت کا پیغام پہنچایاانہیں ہدایت دیں اور انہوں نے اپنی امتوں کو جو تعلیم دی وہ تعلیم دنیاوی بھی تھی اورساتھ ساتھ دینی بھی جبکہ آج کے اس دور میں ہمارے یہاں لوگوں کا رجحان دنیاوی تعلیم کی طرف زیادہ ہے اصل میں ہم لوگ لفظ دنیاوی تعلیم کا مطلب ہی کچھ اور لے گئیے اور اس کے اصل معنی کی طرف کسی نے توجہ ہی نہیں کی ہمارے نزدیک اچھے سے اچھے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو پڑھا کر ان کو تعلیم دلوا کر اعلی سے اعلی ڈگری دلوا کر بڑی سے بڑی کمپنی میں جاب دلوا کر اپنے پیر پر کھڑے کردینے کا نام تعلیم ہے اور ہمارے نزدیک دینی تعلیم یہ ہے کہ مسجد میں لے جاکر نماز پڑھنا سکھادیا گھر میں قاری صاحب کو بلواکر یا کسی مدرسے سے قران کی تعلیم سے آراستہ کروادیا اور بس یہ ہی دینی تعلیم ہے جبکہ دین کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئیے اور بھی بہت کچھ ہے جس کی طرف بدقسمتی سے ہماری توجہ بلکل نہیں ہوتی اگر ہمارا تعلق کاروباری طبقہ سے ہے تو ہماری ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہم اتنا کمالیں کہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلواکر انہیں دنیا میں کوئی ممتاز مقام دلوادیں اور ہم اسکے لئیے اپنے کاروبار میں جائز ناجائز حرام اور حلال کا بھی بلکل خیال نہیں کرتے اور ان کی تعلیم کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے بڑی سے بڑی فیس کیوں نہ ہو گنجائس ہو نہ ہو کہیں سے قرضہ ہی کیوں نہ لینا پڑے کوشش کرکے ان پر انویسٹمینٹ کر ہی لیتے ہیں اور اگر ہمارا تعلق نوکری پیشہ لوگوں میں ہے تو ہم دن رات محنت کرکے اور overtime کرکے بھی اپنے بچوں کے لئیے جس طرح بھی ہو انویسٹمینٹ کرلیتے ہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنا مستقبل بنالیں اور پھر جب وہ ہی بچے جب اپنی پریکٹیکل زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو ہم انہیں دیکھکر بہت خوش ہوتے ہیں جبکہ انہیں ہم دینی تعلیم سے آراستہ کرنا دنیا کی ضرورت نہیں سمجھتے یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے کئی پڑھے لکھے لوگوں کو دین کے معاملے میں ان پڑھ دیکھا ہے اور انہیں روز مرہ کے معامولات میں ہونے والی باتوں کا بھی علم نہیں ہوتا نماز پڑھنی ہے اور اس کے لئیے ہم مسجد میں بھی جاتے ہیں لیکن نماز کے فزائص کیا ہیں وضو کے فرائض کیا ہیں غسل کے فرائض کیا ہیں نماز کس طرح ادا کرنی ہے وضو کرنےکا طریقہ کیا ہے یہ سب دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی حصہ ہیں لیکن اج کی ہماری نسل ان باتوں سے ناآشناء ہے کیوں کہ ہم ان کی توجہ اس طرف دلوانے میں دلچسپی نہیں لیتے یہ ہمارا یعنی ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو دین کی آگاہی دیں کیوں کہ یہ باتیں کسی اسکول کالج یا یونیورسٹی میں نہیں سکھائی جاتیں بلکہ ان باتوں کے لئیے ہمیں بچوں کو خود تعلیم دینا ہوگی یا پھر کسی مستند مدرسے یا دینی درسگاہ میں داخل کروانا چاہئے جو بدقسمتی سے ہم نہیں کرتے کیوں کہ فی زمانہ ہماری سوچ یہ ہے کہ دینی تعلیم میں ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہے ؟ ہمارے آج کل کے دور کے مطابق ایک حافظ ایک عالم یا ایک مفتی کو وہ آمدنی نہیں ملتی کہ وہ اپنا گھر باآسانی چلاسکے اس لیے ہمارا رجحان دنیاوی تعلیم کی طرف زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مستقبل کے معنی ہیں آئندہ آنے والا وقت اور ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہمارے پاس اس دنیا میں رہنے کی مہلت کتنی ہے کیوں کہ یہ وقت یہ زندگی تو عارضی ہے اور وہ زندگی جو ہمیشہ رہنے والی ہے جو مسقبل ہمیشہ رہنے والا ہے اس کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں ہوتی ہاں لیکن اس پرفتن دور میں بھی خوش قسمتی سے ہمارے یہاں اللہ تبارک و تعالی کی توفیق سے ایک خاص طبقہ ایسا بھی ہے جن کو یہ علم ہے کہ بچوں کے لئیےاصل علم اور حقیقی مستقبل دینی تعلیم ہے اور وہ اپنے بچوں کو ایسی دینی تعلیم کے زیور سے اراستہ کرواتے ہیں صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرنے اور اس کے حبیب کر یم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیئے پھر ان میں سے کوئی حافظ کوئی عالم اور کوئی مفتی بن کر لوگوں تک اپنی اسی دینی تعلیم کے ذریعےاللہ تبارک و تعالی کا پیغام حق پہنچانے کے فرائض میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں۔

میرے معزز اور محترم پڑھنے والون پہلے کے ہمارے بزرگان دین اور اکابرین اپنی زیادہ تر توجہ دینی تعلیم کی طرف مرکوز رکھتے تھے کیوں کہ ان کی نظر میں اصل تعلیم اور اصل علم یہ ہی ہے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے بھی حصول علم کی بڑی تلقین کی ہے ہمارے کئی اکابرین ،محدثین ، بزرگان دین اور علماء کرام نے احادیث اور قران کی تعلیم سے منور ہوکر صحابہ کرام اور بزرگان دین کے بارے میں اپنی شہراء آفاق تحریریں کتابوں کی شکل میں ہمارے اور ہماری نسل کے لئیے تحفہ کی شکل میں چھوڑی ہیں جس میں ان کے متعلق کئی ایسی باتیں اور واقعات موجود ہیں جو ہمیں دین اور دنیا دونوں کی تعلیم سے بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں اور ہمیں دین کی صحیح پہچان بھی دیتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آجکل کتابوں سے تعلق اور کتابوں سے دوستی کا رجحان تو جیسے ختم ہی ہوگیا ہے اور ہماری نئی نسل صرف اور صرفInternet سے اپنے آپ کو مستفید کرتے ہوئے نظر آتی ہے لیکن الحمدللہ آج بھی کوئی دینی درسگاہ ہو یا دین کی خدمت میں سرشار تنظیمیں وہاں کتابوں کا ہونا لازم اور ملزوم ہے میں آج کے دور کے حساب سے انٹرنیٹ کو برا نہیں سمجھتا بلکہ اس کے اگر ہم مثبت پہلو کی طرف دیکھیں تو اس میں ایک بھرپور علم کا خزانہ چھپا ہوا ہے صرف اس کو ڈھونڈنے والا جوہری ہونا چاہئے میں خود اپنی تحریریں نیٹ پر مجود کتابوں کی مدد سے اورمختلف علماء کرام کے بیانات سے لے کر اپنے الفاظ میں ڈھال کر آپ تک پہنچاتا ہوں کیوں کہ جو کتابیں ہم بازار سے خریدتے ہیں وہ ہمیں نیٹ پر مل جاتی ہیں لیکن پھر بھی کئی مواد ایسے ہوتے ہیں جس کے لئیے ہمیں کتابوں کی بحر حال صرورت پڑتی ہے اس لیئے کتاب کی اہمیت کم ضرور ہوگئی مگر ختم نہیں ہوئی ایسی ہی ایک کتاب شیخ الحدیث علامہ عبدآلمصطفی آعظمی رحمتہ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی *روحانی حکایات* کے عنوان سے بہت مشہور ہے اس کتاب میں چھوٹے چھوٹے پہرائے میں بہت خوبصورت اور معلوماتی حکایاتیں مجود ہیں اس کتاب سے ایک حکایات تحریر کررہا ہوں جسے پڑھکر معلوم ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالی جب ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو ان کےمستقبل کے لئیے ہماری صحیح Investment کہاں اور کس طرح ہونی چاہئیے ۔

میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں یہ واقعہ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے استاد *ربیعہ الرائے* کے بارے میں ہے آپ جب اپنی والدہ کی شکم میں ہی تھے تو آپ کے والد گرامی عبدالرحمان فروخ کو جہاد پر جانے کا حکم ہوا آپ کی رہائش مدینہ منورہ میں تھی آپ نے اپنی زوجہ کو تیس ہزار اشرفیاں دے کر کہا کہ یہ میری امانت ہے اگر واپس آیا تو مجھے دےدینا ورنہ اسے استعمال کرلینا اور اپنا اور اپنے آنے والے مہمان کا خیال رکھنا یہ کہکر وہ جہاد کے لئیے خراسان چلے گئے عبدالرحمان فروغ کو ستائیس سال لگ گئیے اور جب وہ ستائیس سال بعد مدینہ منورہ اپنے گھر پہنچے اور صحن میں گھوڑا باندھنے لگے تو ایک نوجوان نے آپ کو دیکھا اور عرض کیا کہ آپ کون ہیں اور میرے صحن میں اپنا گھوڑا کیوں باندھ رہے ہیں تو فرمایا یہ سوال تو میں تم سے کررہا ہوں کہ تم میرے گھر میں کیا کررہے ہو یہ میرا گھر ہے یہ شور شرابہ سن کر محلے کے لوگ اکھٹے ہوگئیے حضرت خواجہ حسن بصری بھی استاد کا معاملہ سمجھکر پہنچ گئے اور عبدالرحمان فروخ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر آپ کو رکنا مقصود ہے تو کسی دوسری جگہ بندوبست ہوجائے گا تو فرمایا کہ میرا نام عبدالرحمان فروخ ہے اور یہ میرا گھر ہے یہ آواز سن کر نوجوان کی والدہ نے پردے میں دیکھا اورکہا کہ اے ربیعہ الرائے یہی تمہارے والد ہیں اور یہ آج ستائس سال بعد جہاد سے لوٹے ہیں پھر دونوں باپ بیٹے گرمجوشی سے ایک دوسرے سے گلے ملے اور اتنے میں مسجد نبوی سے اذان کی آواز آگئی مسجد نبوی سے جب اذان کی اواز آئی تو ربیعہ الرائے مسجد کی جانب چلے گئے اور عبدالرحمان فروخ اپنی زوجہ سے باتیں کرنے لگے اور اپنے بچے اور تیس ہزار اشرفیوں کا معلوم کیا تو کہنے لگی کہ آپ نماز پڑھ کر آجائیں پھر میں آپ کو بتاتی ہوں اور یوں وہ مسجد نبوی کی طرف چلے گئے جب نماز سے فارغ ہوئے تو عبدالرحمان فروخ نے دیکھا کہ ایک نوجوان نے ایک حلقہ بنا رکھا ہے اور لوگوں نے اپنے شیخ کو گھیر رکھا ہے اس حلقے میں حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ جیسے لوگ بھی موجود تھے آپ نے یہ منظر دیکھا تو بہت خوش ہوئے ربیعہ الرائے نے ٹوپی اس طرح پہنے ہوئی تھی کہ چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا تو آپ نے پوچھا کہ یہ شیخ کون ہیں تو بتایا کہ یہ ربیعہ الرائے ہیں عبدالرحمان فروخ کے صاحبزادے اور بڑے بڑے جید علماء سے دنیا گھوم کر قران اور احادیث کا علم حاصل کر کے لوٹے ہیں یہ سن کر آپ خوش ہوگئے اور اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کیا اور کہا بیشک اللہ تبارک وتعالی نے میرے بچے کو ممتاز مقام عطا کیا ہے اور خوشی خوشی گھر گئے اور اپنی زوجہ سے بات کی اور مسجد نبوی میں ہوئے سارے ماجرے کو بیان کیا تو آپ کی زوجہ نے کہا کہ میں نے آپ کی تیس ہزار اشرفیوں کو ربیعہ کی پڑھائی میں خرچ کردئیے اب بتائو آپ کو کیا پسند ہے اپنے بیٹے کی یہ شان یا اشرفیاں تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم تم نے میری امانت میں بلکل خیانت نہیں کی اور میرا مال صحیح جگہ خرچ کیا۔

میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں یہ ہے اصل علم اور صحیح Investment جو پہلے جیسی عورتیں اپنے شوہر کی موجودگی ہو یا غیر موجودگی اپنے بچوں پر کرتی تھیں لیکن بدقسمتی سے آج ہم اپنے بچوں کی خواہش پوری کرنے کے لیئے انہیں اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے سے پڑھاکر سمجھتے ہیں کہ ہماری انویسٹمینٹ صحیح جگہ ہوگئی اچھے ڈریس اور شادی بیاہ میں بے تحاشہ خرچ کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے صحیح خرچ کیا ہے ہمارا بچہ پڑھ لکھکر اگر کوئی مقام حاصل کرلیتا ہے تو ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اسے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئیے اچھے مقام پر کھڑا کردیا ہے لیکن یہ مقام اور اس سے حاصل ہونے والی دولت صرف دنیا تک محدود ہے اور یہ اس زندگی میں ہی فائدے مند ہے اصل زندگی جو موت کے بعد ملنے والی ہے اس کے لئیے ہم نے کیا تیاری کروائی انگریزی تعلیم تو دلوادی لیکن دینی تعلیم نہ دلواسکے ہمارے پہلے کے بزرگان دین اور اکابرین پہلے اپنے بچوں کی توجہ دینی تعلیم پر مرکوز کروایا کرتے تھے کیوں کہ انہیں اپنی اور آخرت کی فکر ہوتی تھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے ناراض ہوجانے کا خوف تھا لیکن بدقسمتی سے ہمیں صرف دنیا کمانے کا شوق ہے سلام ہے اس دور کی ربیعہ الرائے کی والدہ جیسی عورتوں کو جنہوں نے اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں بھی اپنے بچوں کو وہ مقام دلایا جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم خوش ہیں اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کو کسی مستند مدرسے سے قران و حدیث کی تعلیم دلواکر انہیں وہ مقام دلوایئں جس سے دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی کسی نے کیا خوب کہا کہ
یہ وہ مائیں تھیں کہ جن کی گود میں اسلام پلتا تھا
اسی غیرت سے انسان نور کے سانچے میں ڈھلتا تھا
 
محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 127 Articles with 85423 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.