علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم

میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب
جب اللہ تبارک و تعالی کسی انسان کو اپنا قرب اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی محبت عطا کرنا چاہتا ہے تو وہ ان لوگوں کو چن لیتا ہے اور پھر انہیں وہ کچھ عطا کرتا ہے جس کا ہر انسان خواہشمند ہوتا ہے حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے آپ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں لیکن اپ کے روحانی پہلو کے بارے میں کم لوگوں کو علم ہے سوائے ان کے جو آپ کے چاہنے والے ہیں آپ کو پڑھنے اور پڑھکر سمجھنے والے ہیں عام لوگوں کے نزدیک وہ صرف ایک شاعر تھے اور پاکستان کے بننے کا خواب انہوں نے دیکھا تھا

علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے احباب اور محققین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اندر عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا جذبہ ان کے والد یعنی صوفی نور محمد سے وراثت میں ملا کیوں کہ آپ علیہ رحمتہ کے والد بھی ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم تھے اور علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اندر وہ جذبہ اپنی لامحدود رعنائیوں اور بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے اور آپ علیہ رحمتہ کو *دل بیدار* بھی اپنے والد گرامی صوفی نورمحمد کی تربیت سے ملا آپ علیہ رحمتہ بیعت کو ہر انسان کے لئیے لازم وملزوم سمجھتے تھے ڈاکٹر ابوسعید نوروالدین نے اپنی کتاب *اسلامی تصوف اور اقبال* کے صفحہ نمبر 234 میں لکھا ہے کہ علامہ محمد اقبال علیہ رحمتہ کو بیعت اپنے والد گرامی کے وسیلہ سے ملی ان کے والد کے پاس ایک مجذوب بزرگ آیا کرتے تھے اور ان کا تعلق سلسلہ قادری سے تھا لہذہ آپ ان سے بیعت ہوئے اور اس بات کا ذکر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بھی کیا ہے کہ میں سلسلئہ قادری میں بیعت ہوں لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری میں کئی جگہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنا روحانی پیر مولانا جلال الدین رومی علیہ رحمتہ کو مانتے تھےاور یہ تسلیم کرتے تھے کہ مولانا روم علیہ رحمتہ سے انہیں کافی روحانی فیض پہنچا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ساری زندگی دین اسلام کی حیات بخش تعلیمات امت مسلمہ کے لئیے وقف کررکھی تھی۔

میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی دو قبریں ہیں ایک تو لاہور میں ہے اور آپ نے وہاں حاضری بھی دی ہوگی جبکہ دوسری قبر ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جو ایک علامتی قبر ہے جہاں حضرت مولانا جلال الدین رومی اور ان کے رفقاء کی قبریں ہیں وہیں ایک فرضی قبر علامہ علیہ رحمتہ کی بھی ہے قونیہ ترکی کا ایک تاریخی شہر ہے اور اس کو ایک انفرادی حیثیت یہ حاصل ہے کہ یہاں مولانا رومی علیہ رحمتہ کا مزار مبرک بھی ہے اس لئے اس شہر کو اسلام کا قلعہ بھی کہتے ہیں یہ علامتی قبر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی تعلق کو بیان کرتی ہے اس تعلق کی گہرائی کا اندازہ ہمیں علامہ رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری میں کئی جگہ نظر آتا ہے بال جبریل کی نظم پیر و مرید جس میں مولانا رومی کو پیر رومی اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے خود کو مرید ہندی قرار دیا ہے یہ روحانی علم ہی ہے جو زمان و مکان کی پابندیوں کو توڑ دیتا ہے ورنہ کہاں تیرہویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے رومی اور کہاں انیسویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والے اقبال دونوں میں 670 سال کا فاصلہ تھا مگر ایسے علم میں یہ فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج اقبال رومی کے مزار کے سائے تلے بھی ہمیں نطر آتے ہیں ۔

میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں مصر کے ایک مشہور علمی شخص عبدالوہاب عزام نے کہا تھا کہ ساتویں صدی کے مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ اور چودہویں صدی کے علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ دونوں ایک ہی ہیں اور ہمیں ان دونوں کو ایک ہی سمجھنا چاہئے حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی تربیت میں جہاں ان کے والد صوفی نورمحمد کا ہاتھ تھا وہاں آپ علیہ رحمتہ کی والدہ کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد بہت روتے تھے اور ایک بات وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ امی حضور آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے یہ بات کئی مرتبہ انہوں نے کہی تو دوستوں نے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے یوں بتایا کہ میرے والد صوفی شیخ نورمحمد ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کے یہاں کپڑے سینے کی ملازمت پر تھے اور ڈپٹی صاحب انگریز کی ملامت کرتے کرتے رٹائرڈ ہوچکے تھے اور انہیں پنشن ملا کرتی تھی میری والدہ کو شک ہوا کہ ان کی آمدنی شرعی طور پر مشکوک ہے اور گھر میں کھانا وغیرہ بھی والد صاحب کی تنخواہ سے پکتا تھا اپنا دودھ پلانا پسند نہ کیا اور اپنا زیور بیچ کر ایک بکری خرید لی تا کہ میری پرورش پاک دودھ اور حلال رزق سے ہو گویا معلوم یہ ہوا کہ علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کےگھر کا ماحول اتنا پاکیزہ تھا کہ انگریزوں سے نفرت اور ان سے کمایا ہوا پیسہ اچھا نہیں سمجھاجاتا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ آپ علیہ رحمتہ کے دل میں اللہ کا قرب اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ مغربی تہزیب اور تعلیم کے کبھی حامی نہیں تھے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے آپ علیہ رحمتہ والہانہ محبت کرتے تھے اور آپ علیہ رحمتہ نے اپنی نظموں کی ابتدا بھی عشق رسول سے کی قران مجید کے اسرارو رموز میں بے پناہ دلچسپی تھی اور آپ علیہ رحمتہ خود بھی بہت اونچی اواز سے تلاوت کیا کرتے تھے اور دوران تلاوت آپ علیہ رحمتہ کی ایک عجیب کیفیت ہو جاتی تھی علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے صاحب زادے جسٹس محمد جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ علامہ علیہ رحمتہ اکثر سرہند شریف حاضری پر جایا کرتے تھے جب میری عمر 4 سال کی تھی تو ایک بار مجھے وہاں لے گئے مزار شریف کا گمبند بہت اونچا ہے اس لئے اگر ہم آپس میں بات چیت کریں تو آواز گونجتی ہے اور پھر جب علامہ علیہ رحمتہ نے تلاوت کی تو اونچی آواز میں کی اور اتنی تیز آواز سن کر مجھ پر ایک کیفیت طاری ہوگئی اور علامہ علیہ رحمتہ کی حالت بیان سے عاری ہے علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ان کے ہر شعر میں نظر آتا ہے معروف شعر ہے

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

اس شعر میں علامہ علیہ رحمتہ کا عشق پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے آپ علیہ رحمتہ کو مسلمانوں کی بڑی فکر تھی آپ علیہ رحمتہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر دنیا میں عزت اور غیرت کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے دین کو تختہ دار پر لے آئو پھر دیکھنا اپنی شان ۔
محترم پڑھنے والوں میں نے اپنی زندگی میں کئی عاشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم دیکھے لیکن جب علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اس فکر میں دنیا سے چلے گئے کہ مجھے آج تک پوری دنیا میں کوئی ایسا مسلمان نہیں ملا جس کو دیکھکر موت بھی پیچھے ہٹ گئی ہو تب میں نے ایک شخص دیکھا جسے لوگ مرحوم بابا خادم حسین رضوی علیہ رحمتہ کے نام سے یاد کرتے ہیں کہ جب آپ فیض آباد کے جلسے میں پہنچے اور حکومت نے ان پر اور ان کے لوگوں پر فائرنگ اور انسو گیس کے فائر کئے تو بابا جی نے چیکھ چیکھ کر کہا تھا کہ اقبال یہ میں اپنی فوج لےکر آیا ہوں جس کو دیکھکر موت بھی پیچھے ہٹ گئی یعنی فوج خود بخود بھاگ کھڑی ہوئی بابا جی ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قران بھی تھے ، حافظ احادیث بھی تھے اور حافظ علامہ اقبال علیہ رحمتہ بھی تھے ۔ علامہ محمد اقبال علیہ رحمتہ فرماتے تھے کہ اگر آپ کے دل میں عشق مصطفی نہیں ہے تو آپ کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زندہ لاش آپ علیہ رحمتہ اعلی تعلیم کے لئے یورپ گئے دنیا گھومی اور جب وآپس لوٹے تو دوستوں نے کہا کیسی لگی مغرب والوں کی ترقی اور ان کا نظام تو آپ علیہ رحمتہ جلال میں آگئے اور غصہ کے انداز میں آپ علیہ رحمتہ نے فرمایا کہ مجھے تو کہیں بھی کوئی ترقی نظر نہیں ائی کوئی بات کوئی چیز مجھے متاثر نہ کرسکی تو دوستوں نے پوچھا ایسا کیوں تواندر کے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے کہا کہ

خیرا نہ کرسکا مجھے جلوئہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف

علامہ محمد اقبال کے عشق رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا انداہ ان کے اس شعر سے بھی لگالیجئے کہ

اقبال تیرے عشق نے سب بل دئے نکال
مدت سے آازو تھی سیدھا کرے کوئی

میرے معزز اور محترم پرھنے والوں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی زندگی کے بارے میں ہم میں سے کئی لوگ بہت کچھ جانتے ہیں اور کئی لوگ کچھ بھی نہیں جانتے میری کوشس ہوگی کہ میرے پاس جو معلومات موجود ہیں وہ اپ تک پہنچائوں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ان کی شخصیت کے اس پہلو میں ہمارے لیے کیا کیا چھپا ہوا ہے۔
 
محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 166 Articles with 133618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.