|
|
ابن انشا کا شمار اردو ادب کے ان شعرا اور مضامین نگار
میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو ادب کو ایک نیا اسلوب دیا- سال 1927 میں پیدا
ہونے والے ابن انشا بہت مختصر زندگی بسر کرنے کے لیے لائے تھے اور گیارہ
جنوری 1978 کو کینسر کے مرض کے سبب کراچی میں صرف 51 سال کی عمر میں اس
دنیا سے رخصت ہو گئے- |
|
ابن انشا جن کا اصل نام شیر محمد خان تھا ان
کے حوالے سے معروف مصنف جمیل الدین عالی نے ان کی زندگی کے آخری ایام کے
حوالے سے کچھ ایسے واقعات تحریر کیے جس نے ان کے چاہنے والوں کو جذباتی کر
دیا- |
|
جمیل الدین
عالی اور ابن انشا |
جمیل الدین عالی اور ابن انشا کا شمار
بہترین دوستوں میں ہوتا تھا۔ ابن انشا جو کینسر کے مریض تھے اور اس وقت میں
ان کا مرض تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ طبیعت کی خرابی کے باعث جب ابن انشا کو لے
کر جمیل الدین عالی ہسپتال گئے تو ڈاکٹروں نے ان کی حالت کے پیش نظر ان کو
داخل کر لیا مگر کوئی امید افزا خبر نہ سنائی اور بتایا کہ ابن انشا کے پاس
اب کم وقت بچا ہے- |
|
راولپنڈی کے
سی ایم ایچ میں زندگی کے آخری ایام |
ابن انشا راولپنڈی کے سی ایم ایچ میں کینسر
کا علاج کافی عرصے سے کروا رہے تھے مگر اس بار جب جمیل الدین عالی ان کو
ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹروں نے کینسر کے خطرناک حد تک بڑھنے کی خبر دی-
ابن انشا کے چاہنے والوں کے لیے یہ خبر قیامت سے کم نہ تھی مگر ہونی کو
روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ہے- |
|
|
|
عمر کی نقدی ختم ہوئی
|
جمیل الدین عالی اس وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے
بتاتے ہیں کہ ایک شام جب دونوں ہسپتال میں تھے تو ایک نوجوان خاتون ابن
انشا کے کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا پھولوں کا گلدستہ
تھا- |
|
اس خاتون نے گلدستہ ابن انشا کے ہاتھ میں تھمایا اور
بتایا کہ وہ ابن انشا کی شاعری کی مداح ہیں اور اس وجہ سے ان سے بہت محبت
کرتی ہیں۔ انہوں نے جب سے ابن انشا کی بیماری کا سنا اس وقت سے وہ بہت
غمزدہ ہیں۔ |
|
اس وجہ سے انہوں نے اپنے اللہ سے دعا کی ہے
کہ اللہ ان کی زندگی کے پانچ سال لے کر ابن انشا کو دے دیں۔ اس خاتون کا یہ
بھی کہنا تھا کہ وہ ابن انشا جیسے شاعر کو اپنی پوری زندگی دینا چاہتی ہیں
مگر اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی پرورش اس کی ذمہ داری ہے- اس وجہ
سے وہ اپنی عمر کے 5 سال ابن انشا کو دینے کو تیار ہیں- |
|
یہاں ایک
ایک دن قیمتی ہے |
اس خاتون کے جانے کے بعد ابن انشا نے جمیل
الدین عالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عورت جو مجھے اپنی زندگی کے پانچ
سال دینے آئی ہے اس کو کیا پتہ کہ زندگی کا ایک ایک دن کتنا قیمتی ہے- |
|
ابن انشا نے اس موقع پر اس خاتون کے لیے دعا کی
کہ اللہ اس کو اس کے بچوں کے ساتھ خوش و خرم رکھے اور لمبی زندگی دے- |
|
|
|
خاتون تو چلی
گئيں مگر ادھار نہ ملا |
ان خاتون کی اس بے غرض آفر نے ابن انشا کو بہت
متاثر کیا اور ان کی شاعرانہ فطرت ابھر آئی اس وقت میں ابن انشا نے اپنی
مشہور زمانہ نظم اب عمر کی نقدی ختم ہوئي تحریر کی- اس نظم میں انہوں نے اس
خاتون کا ذکر بھی کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ |
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی |
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے |
کیا پانچ برس !! |
تم جان کی تھیلی لائی ہو؟ |
جب عمر کا آخر آتا ہے |
جینے کی ہوس نرالی ہے |
کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟ |
|
اس عورت کے رخصت ہونے کے چند ہی دنوں بعد ابن
انشا اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر اس عورت کی پانچ سال کی آفر اور ابن انشا
کا جواب اس نظم کی صورت میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا |