اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
آئیےذات برادری کےسلسلےمیں اسلام کےمزاج کوسمجھنےکی کوشش کرتےہیں
مشن تقویتِ امت قسط 19
قرآن کی ایک آیت ہے "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اللہ نے امت کو متحد ہونے اور ایک کلمے پر جمع ہونے کا حکم دیا ہے اور تفرقے بازی سے منع کیا ہے، یعنی تفرقہ کی حیثیت فی نفسہ قبیح اور منکر کی ہے الا یہ کہ اس تفرقہ کو شریعت نے مستحسن گردانا ہو یا جائز ٹھہرایا ہو، مثلاً امت میں صحابہ اور غیر صحابہ کی نہ صرف تفریق کی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ کوئی کتنا ہی بڑا ولی اللہ کیوں نہ ہو جائے ایک ادنی سے صحابی کے درجے تک وہ کبھی نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون کہ کر عالم اور جاہل کے درمیان کی تفریق کو روا رکھا گیا، اور یرفع اللہ الذین آمنوا منکم و الذین اوتوا العلم درجات اور ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کہ عالم غیر عالم، مومنین اور غیر مومنین متقین اور غیر متقین کی تفریق روا رکھی گئی بلکہ تقوی اور علم حاصل کرنے پر فضیلت کے وعدے کئے گئے
اب ہم آتے ہیں نسب کی تفریق پر، یہ بھی ایک قسم کی تفریق ہے مسلمانوں میں جو کہ فی نفسہ قبیح امر ہے "و لا تفرقوا" کی بناپر لیکن قرآن نے اس تفریق کا بھی استثنا کیا ہے "و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا" کہ کر
تو بہرحال تفریق کی مستثنیات میں یہ بھی داخل ہوگیا، لیکن مستثنیات کی بھی دو قسمیں ہیں 1 جس تفریق کو مستحسن گردانا گیا ہے 2 جس تفریق کو جائز کہا گیا ہے
اب یہ پہلی قسم میں سے تو ہو نہیں سکتا کیوں کہ شعوب و قبائل والوں کو غیر شعوب و قبائل والوں پر کوئی فضیلت نہیں بخشی گئی ہے
لا محالہ یہ دوسری قسم میں سے ہوگا یعنی جائز ہوگا
اب جائز احکام کی بھی تین قسمیں ہیں
1 وہ احکام جو بالکل نارمل اور نیوٹرل ہیں جن کا جھکاؤ نہ معروف کی جانب ہے نہ منکر کی جانب
2 ایک وہ احکام جن کا جھکاؤ معروف اور امر کی جانب ہے جن کو احادیث میں ما لا یریبک سے تعبیر کیا گیا ہے
3 وہ احکام جن کا جھکاؤ منکر اور نہی کی جانب ہے مثلاً طلاق کو ابغض المباحات قرار دیا گیا، ان جائز احکام کی ایک تعبیر ما یریبک بھی ہے
اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دع ما یریبک الی ما لا یریبک یعنی مشتبہ جائز احکام کو چھوڑ کر غیرمشتبہ جائز امور کو اختیار کرو
اور ذرا سے غور و فکر کے بعد سمجھ میں آجائے گا کہ انساب کا تعلق جائز امورِ مشتبہ سے ہے
کیوں کہ اس کا تعلق تعارف سے بھی تھا اور تفاخر سے بھی تھا، جاہلیت کی پوری تاریخ سارے دیوان انساب پر فخریہ اشعار و حکایات سے بھرے پڑے ہیں، قرآن نے کہا کہ نہیں اس چیز کو ہم نے تفاخر کے لیے بنایا ہی نہیں ہے ہم نے تو صرف تعارف کے لیے بنایا ہے اسے صرف تعارف کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے
اب اس جواز کو اگر اس کے بیک گراؤنڈ اور پس منظر سے کاٹ دیا جائے تو ہم اپنے کلچر کی بنا پر اسے مالا یریبک اور قریب عن المعروف جائز امور میں شمار کرنے لگیں گے، کیوں کہ ہمارا عام رجحان یہی رہا ہے کہ اپنے عرف کے مطابق شریعت کا جو حکم لگتا ہے اسے بخوشی اپنالیتے ہیں لیکن جونہی کوئی حکم اپنے کلچر اپنے آبائی رسم و رواج کے خلاف لگا ہم یا تو اسے دیوار پر دے مارتے ہیں یا طرح طرح سے گنجائش نکالنے اور تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں اصل امتحان ہوتا ہے ہمارے ایمان کا۔
انساب پر غور کرنے کا ایک اور زاویہ
ہر عمل میں کچھ پازیٹو سائڈ ہوتے کچھ نگیٹیو اور کچھ نیوٹرل (نہ پازیٹو نہ نگیٹو)
نسب کے پازیٹو، نیوٹرل اور نگیٹو سائڈ کو دیکھیں تو اس کا پازیٹو سائڈ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس پر کسی فضیلت کا وعدہ نہیں کیا گیا کہ اگر آپ کا یہ نسب ہے تو آپ کو جنت ملے گی اور یہ نسب ہے تو آپ کا مرتبہ بڑا ہوگا، فضیلت تو دور اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رض سے کہ رہے ہیں "ويَا فَاطِمَةُ بنْتَ مُحَمَّدٍ، سَلِينِي ما شِئْتِ مِن مَالِي، لا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شيئًا" اے فاطمہ بنت محمدؐ، میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگو، کیونکہ میں خدا کے نزدیک تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔
نیوٹرل سائڈ ایک ہے کہ تعارف کے لیے استعمال کیا جائے
اور کئی نگیٹو سائڈ ہیں یعنی اس کو نہ استعمال کرنے کے کئی شواہد و دلائل موجود ہیں:
1 اس کے سیاق و سباق میں وہ آیات ہیں جن کا تعلق فرد اور سماج کی برائیوں سے ہے لہذا یہ آیت درحقیقت مطلقاً بیانِ جواز کے لیے نہیں بلکہ نسب کے صحیح و غلط استعمال کے درمیان تفریق کے لیے ہے
2 یہ تعارف سے ذرا کھسک کر تفاخر کے دروازے پر پہنچا حرام ہو جائے گا
3 دوسری برادری والوں کو نیچا دکھانے کے لیے جونہی استعمال ہوا فوراً یہ حکم حرمت کی چہار دیواری میں داخل ہوجائے گا
4 تفاخر کے غالب امکان کے ساتھ ک فار و ہنود کے ساتھ مشابہت کا پہلو بھی موجود ہے
5 جو شئی کسی حرام کام ذریعہ اور سبب بنے وہ جائز ہوجانے کے باوجود حرام لغیرہ بن جاتی ہے اور نسب کے ذریعے دوسروں کی تذلیل ایذاءِ مسلم کا سبب بنتی ہے اور ایذاء مسلم کو تو کعبہ ڈھانے سے بھی بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے
6 اس گناہ میں عموم بلوی ہے جس کی وجہ سے اس گناہ کی قباحت اور بڑھ جاتی ہے مثلاً زنا فرد کرے تو صرف کوڑے یا رجم کی سزا ہے لیکن جب عموم بلوی ہوجائے تو اللہ زلزلے نازل فرماتے ہیں یعنی اس کی قباحت اور سزا مزید سخت ہوجاتی ہے
7 اگر اثمھما اکبر من نفعھما کے پیمانے پر اس کو پرکھیں اور دیکھیں کہ اس میں نفع کا امکان غالب ہے یا اثم اور قباحت کا تو واضح طور پر نقصان کا پہلو غالب نظر آتا ہے کیوں کہ یہ ایک مسلم شدہ حقیقت ہے کہ آج بھی سید شیخ یا صدیقی وغیرہ اونچی برادری اور چماڑ، راعین جولاہا وغیرہ نچلی برادری شمار کئے جاتے ہیں، اس حقیقت کے بالمقابل محض ماضی سے چلے آرہے توارث و رواج کی بناپر تعارف کے امکانی پہلو پر زور دیتے ہوئے اٹل رہنا دین کا کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ اس کا جو فائدہ تعارف ہے وہ کسی اور دوسرے ذریعے سے بھی حاصل ہوسکتا ہے جس میں تفاخر و تذلیل کا شائبہ نہ ہو یا کم ہو
8 احادیث میں بھی اس کے نگیٹو پہلو کو کس شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
تفسیر ابن کثیر میں منقول ہے : "مسند احمد میں ہے حضور ص نے حضرت ابوذر سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ و سیاه پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے۔
طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ۔
مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے۔
ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا۔ اس کے بعد آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کردی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیز گار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں۔
مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو، بخیل، اور فحش کلام ہو۔
ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم میں سب سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں"۔
اب آپ بہت اچھے سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا تعلق مایریبک اور ابغض المباحات سے ہے، نیز اس کو اپنانے میں منفیت کا احتمال زیادہ ہے یا اثباتیت کا
اسی طرح انساب کے بارے میں اسلام کا عمومی مزاج سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسلام نے کبھی انساب کے استعمال و فروغ کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ حوصلہ شکنی ہی کی ہے
9 صحابہ ہمارے لیے مقتدا و معیار ہیں ان میں سے بھی خلفاء راشدین کی سنت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (میرے اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا) کہ کر مہر ثبت کردی ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ اکثر صحابہ خصوصاً خلفاء راشدین کو ان کے اعزازات و القابات سے یاد کیا جاتا ہے نہ کہ کسی نسبی علامت کی بناپر مثلاً ابوبکر صدیق نہ کہ ابوبکر تمیمی قریشی، عمر فاروق نہ کہ عمر عدی قریشی، عثمان غنی ذوالنورین نہ کہ عثمان اموی، علی حیدر نہ کہ علی ہاشمی قریشی رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی قباحت تھی تو حرام کیوں نہیں کیا گیا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے ہمیشہ احکام کی تنفیذ میں تدریج کا خیال رکھا ہے، کبھی ایسا حکم نازل نہیں کیا کہ لوگ اجتماعی طور پر اس کو نہ ماننے پر بضد ہوچلیں، مثلاً حطیم کعبہ کو کعبہ میں محض اس لئے نہیں داخل کیا گیا کیوں کہ عربوں کا ذہن اس کے لیے ابھی تیار نہیں ہوا تھا اسی طرح انساب کا معاملہ ہے کہ انساب پر فخر ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا، اس سے رکنے پر عربوں کا ذہن آمادہ نہ تھا، لیکن اس کا صحیح محمل متعین کئے جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً اس کی قباحت بھی بیان کرتے رہے، اور پھر اپنی زندگی کے آخرے خطبے میں جہاں سارے مسلمان اکھٹے تھے آپ نے شدت کے ساتھ اس عدم مساوات کے خاتمے کی تعلیم دے کر اس قباحت کو مزید مؤکد کردیا۔
تو بنا کسی پازیٹو کے ایک نیوٹرل اور اتنے سارے نگیٹو پوائنٹس کے تناسب کا حساب لگائیں تو یقیناً اس کا جھکاؤ ابغض المباحات اور مالایریبک کی کیٹیگری کی جانب ہوجاتا ہے
تفسیر تیسیر القرآن میں وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا کے ذیل میں مولانا عبد الرحمٰن کیلانی فرماتے ہیں: "موجودہ دور میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ خدا یا معبود بنا لئے گئے ہیں۔ انہی میں سے کسی کو بنیاد قرار دے کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو آپس میں ہر وقت متحارب اور ایک دوسرے سے لڑتے مرتے رہتے ہیں۔ کسی کو قومیت پر ناز ہے کہ وہ مثلاً جرمن یا انگریز قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی سفید رنگ کی نسل ہونے پر فخر کرتا ہے۔ کوئی سید اور فاروقی یا صدیقی ہونے پر ناز کرتا ہے۔ گویا ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنادیا گیا حالانکہ سب انسان ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ یہ آیت ایسے معبودوں یا بالفاظ دیگر فتنہ و فساد اور لامتناہی جنگوں کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے"
تو اے علماء کی جماعت! کیا تمہیں اب بھی نہیں سمجھ میں آیا کہ اسلام نے ان تمام راہوں کو جن میں عدم مساوات اور آپسی منافرت و تفرقے کا ادنی شائبہ بھی موجود ہو چن چن کر بند کیا ہے، پھر تم کیوں اس ذات برادری کو فساد فی الارض کے غالب امکان کے باوجود تعارف کے لیے استعمال پر مصر ہو؟ تم کیوں ایک مفضول و مرجوح شئی کے استعمال پر اڑے ہوئے ہو؟ کیا تمہارے پاس تعارف کے لیے دیگر متبادل موجود نہیں؟ کیا تم صرف اس لیے اس کے استعمال پر بضد نہیں کہ انا وجدنا آباءنا علی امۃ و انا علی آثارھم لمقتدون؟ کیا تمہارے رسول نے دع ما یریبک الی مالا یریبک کی تعلیم نہیں دی؟ کیا تمہارے اساتذہ نے یہ نہیں سکھایا کہ تم مقتدا ہو تمہیں کئی نامناسب جائز چیزوں کے استعمال کو بھی چھوڑدینا چاہئے کہ کہیں لوگ اس کو مستحسن عمل نہ گرداننے لگیں؟ کیا تم شیخ، سید، صدیقی، عثمانی، انصاری لگاکر عوام کے لیے فساد فی الارض اور تفاخر و تنافر کی راہ ہموار نہیں کررہے؟
استفت قلبک تم اپنے دل سے پوچھو تمہارا دل گواہی دے گا کہ نہیں بہرحال ان القاب کا استعمال نامناسب ہے، کیوں کہ یہ اجتماعی منافرت کا بہرحال سبب بن سکتا ہے چاہے تمہاری انفرادی نیت صحیح کیوں نہ ہو، تمہارے مقتدا ہونے کی بناپر اللہ صرف تمہاری نیتوں پر فیصلے نہیں کرےگا بلکہ یہ بھی پوچھے گا کہ تم دوسروں کے غلط کاموں کا ذریعہ کیوں بنے؟
تو آؤ ہم ان تمام نشانیوں کو اکھاڑ پھینکیں جہاں ہم مسلمانوں میں کسی بھی قسم کے تفرقہ کا شائبہ بھی موجود ہو، اس خاتمے کی شروعات ذات برادری کے نام پر تفرقے سے شروع کریں اور ہر اس علامت کو مٹادیں جس سے کسی کا مخصوص ذات برادری سے ہونا سمجھ میں آئے، آو ہم خلفاء راشدین مہدیین کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے ناموں سے اپنے نسب ذات برادری کی ہر علامت کو مٹادیں۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
جاری۔۔۔۔

 
Mufti Qiyam Qasmi
About the Author: Mufti Qiyam Qasmi Read More Articles by Mufti Qiyam Qasmi: 13 Articles with 8829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.