موسمیاتی تبدیلیوں نے سرزمین پاکستان کو بھی برف کی
طرح سرد اور ٹھنڈا کر دیا ہے ۔شمالی علاقوں کے اکثر مقامات پر ہرروز برف
باری ہوتی ہے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ٹی وی پر درجہ حرارت بتانے والے
شخص نے بتایا کہ سکردو میں درجہ حرارت منفی 18ڈگری ہے ۔اسی طرح گلگت ،
کوئٹہ ، استور، لہیہ اور دیگر شمالی علاقہ جات سخت سردی کی لپیٹ میں ہیں ۔
جبکہ سندھ اور بلوچستان کے وہ علاقے جہاں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے پانچ
ماہ پہلے تباہ مچائی تھی، وہاں بھی درجہ حرارت 6سے 8 ڈگری تک ہو چکا ہے ۔
لاکھوں متاثرین اس وقت بھی کپڑے کے خیموں میں رہ رہے ہیں ۔ میاں محمد شہباز
شریف اور سند ھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ اعداد وشمار کا سہارا لے کر
فرماتے ہیں کہ تین چوتھائی متاثرین کو اپنے گھروں میں آباد کردیاگیا ہے
لیکن حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں ۔ہر روز ٹی وی چینلز پر سیلابی پانی کے
کنارے پرہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں اور حکمران چین کی بانسری بجاکر اپنے گرما گرم حکومتی
ایوانوں میں زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ گرمی ہو یا سردی حکمران ہمیشہ عوام
سے یکسر مختلف اور پرآسائش زندگی گزارتے ہیں ۔ خیموں میں زندگی گزارنے
والوں کی مشکلات کا شاید مجھے بھی احساس نہ ہوتا اگر اپنے گھر میں رہتے
ہوئے مجھے اتنی سردی نہ لگتی ۔جس چیز کو ہاتھ لگاؤ وہ برف کی طرح ٹھنڈی
محسوس ہوتی ہے ۔رضائیاں بھی پہلے طرف کی طرح ہی ٹھنڈی ہوتی ہیں جب ان میں
انسان داخل ہوتا تو کچھ دیر بعد جا کر رضائی کے اندر کا ٹمریچر کچھ بہتر
ہوتا ہے ۔جسم کا جو حصہ رضائی سے باہر رہ جاتا وہ برف کی ڈلی بن جاتا
ہے،اور جہاں لگتا ہے تڑپا کے رکھ دیتا ہے۔ یخ بستہ ٹھنڈے پانی سے نماز کے
لیے وضوکرنا بھی محال ہو چکا ہے ۔نماز اس لیے چھوڑی نہیں جا سکتی کہ آنکھ
بند ہوتے ہی اگلی دنیا شروع ہوجاتی ہے اور وہاں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ
سردی میں رہتے رہے ہو یا گرمی میں زندگی گزاری ۔ وہاں نمازاورا عمال کے
بارے میں سوال ہوگا ۔ یہی خوف نماز نہ چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے ۔پہلے ایک
کمبل سے گزارہ ہو جاتا تھا لیکن اب رضائی میں بھی پاؤں ٹھنڈے ہی رہتے ہیں
اور جب تک پاؤں گرم نہیں ہوتے ،نیند بھی کوسوں دور بھاگتی ہے ۔ان حالات میں
یہ سوچ ضرور پیدا ہوتی ہے کہ حکمرانو۔ تم خدا کو کیا جواب دوگے ۔خود تو
آسائشوں بھرے محلات میں سکون سے رہتے ہو اور کل آبادی کے ایک تہائی لوگ،
عورتیں، بچے اور بوڑھے خیموں میں سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں ، رات اور دن کیسے
گزرتے ہیں، وہیں جانتے ہیں ۔جہاں نہ رضائیاں میسر ہیں ، نہ پینے کے صاف
پانی کی سہولت میسر ہے ۔کھانے پینے کی توبات ہی چھوڑیں ۔وہ شکایت کریں تو
کس سے کریں۔روزانہ ٹی وی ان کے بدترین حالات سب دیکھتے ہیں لیکن ارباب
اختیار میں سے کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچتا۔ حضرت عمر ؓ تو اس
خوف سے کانپ اٹھتے تھے کہ ان کے دور حکومت میں دریائے فرات کے کنارے ایک
کتا بھی بھوکا نہ رہ جائے لیکن ایک تہائی انسانی آبادی بھوکی پیاسی مو نہہ
زور سردی کی لپیٹ میں ہے، حکمرانو۔ تمہیں نیندکیسے آجاتی ہے ۔کیاتمہیں آخرت
میں پوچھ گچھ کا خوف نہیں۔ اچھی حکومتیں سردی اور گرمی کی شد ت سے عوام کو
بچانے کے لیے قبل از وقت انتظامات کرتی ہیں لیکن پاکستانی حکمران صرف یہ
کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ ملک میں گیس کی قلت ہے ،اب عوام گھروں
میں کھانا کیسے پکائیں گے ۔؟ برف جیسے ٹھنڈے پانی سے کیسے نہائے ۔؟ کیا
نہائے بغیر نماز اور وضو کے بغیر نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔، ایل پی جی فیس
اگر سستی ہوتی تو لوگ اس پر ہی گزارہ کرلیتے ۔اس کے ریٹ بھی دانستہ آسمان
پر پہنچا دیئے گئے ہیں۔ لکڑیاں جو پہلے جا بجا فروخت کے لیے موجود ہوتی
تھیں اور ان کی قیمت بھی کم تھی،اب وہ بھی ناپید ہوچکی ہیں ۔ اگر وہ کہیں
دستیاب ہیں تو 1500روپے من فروخت ہو رہی ہیں ۔ہمارا برادر ملک ایران بار ہا
مرتبہ کہہ چکا ہے کہ ہم نے پاکستانی سرحد تک گیس کی پائپ لائن بچھا دی ہے ،ہم
پاکستان کو انتہائی سستی گیس دینے کو تیار ہیں لیکن پاکستانی حکمران جن کا
اپنا گزارہ اچھا ہورہا ہے ، وہ عوام کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ایران
سے یہ کہتے ہوئے سستی گیس نہیں لیتے کہ امریکہ ناراض نہ ہوجائے ۔ امریکہ
سمیت دنیا کے تمام ممالک اپنی عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے
ہیں لیکن ہمارے حکمران موسمی صعوبتوں کے سارے عذاب (گرمی ہو یا سردی) عوام
پر نازل کردیتے ہیں ۔انہیں نہ سیلاب کے متاثرین پر رحم آتا ہے اور نہ منفی
درجہ انجماد سے نیچے رہنے والوں پر ترس آتا ہے ۔ لوگ یہاں ہوں یا وہاں ۔
اپنے گھروں اور خیموں میں ٹھٹھرتے نظر آتے ہیں ۔غسل جنات اور جمعہ کے دن
غسل کرنا بھی محال ہو چکا ہے ۔ٹھنڈے پانی سے تو وضو کرتے ہوئے بھی چیخیں
نکلتی ہیں ۔نہانے کا تصور کرکے ہی کلیجہ مونہہ کو آتا ہے ۔عوام کی اکثریت
سخت سردی کے موسم میں ٹھٹھرتے ہی دکھائی دیتی ہے۔ |